تازہ تر ین

سانحہ کوئٹہ پر خفیہ اداروں کی رپورٹ، حکومتوں کا کام ججوں نے کرنا ہے تو پیچھے کیا رہ گیا؟

اسلام آباد( نامہ نگار خصوصی)سپریم کورٹ میں سانحہ کوئٹہ ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران جسٹس امیرہانی مسلم نے ریمارکس دئیے ہیں کہ جو کام اداروں کے کرنے کا تھا وہ کمیشن نے کیا،اداروں اورحکومتوں کے کام اگرجج کریں گے تو پیچھے کیارہ گیا، اس کیس کی سماعت میں شرمائیں گے نہیں۔ وزیرداخلہ کے اعتراضات پربارکونسل کو جواب اور وزیرداخلہ کے وکیل کو رپورٹ کی تیاری میں استعمال مواد فراہم کرنے کی ہدایت کردی۔ سپریم کورٹ میں سانحہ کوئٹہ ازخود نوٹس کیس کی سماعت جسٹس امیر ہانی مسلم کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی۔ جسٹس امیر ہانی مسلم نے وزیر داخلہ کے وکیل مخدوم علی خان سے استفسار کیا کہ کیا آپ کوکمیشن کی اتھارٹی پر اعتراض ہے ؟ مخدوم علی خان نے جواب دیا بالکل نہیں کچھ آبزرویشن پر اعتراضات ہیں۔ جسٹس امیر ہانی مسلم نے ریمارکس دیےاداروں اورحکومتوں کے کام اگر جج کریں گے تو پیچھے کیا رہ گیا،یہ کام ججزکے کرنے کا نہیں نا ان کی ذمہ داری میں شامل ہے۔
سپریم کورٹ نے کوئٹہ سانحہ کے حوالے سے مقدمہ کی سماعت کے دوران وزارت داخلہ کی خفیہ ادروں کی رپورٹس کی نقول فراہم کرنے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے قر ار دیا ہے کہ جن رپورٹس کو خفیہ رکھنے کا استحقاق مانگا گیا ہے وہ نہیں دے سکتے قومی سلامتی کا معاملہ ہے ۔عدالت نے کمیشن کے سامنے ریکارڈکی گئی شہادتوں کے حوالے سے وزارت داخلہ کو بارہ روز میں اپنا موقف پیش کرنے کی ہدایت کی ہے جبکہ بلوچستان بار ایسوسی ایشن کے وکیل کوبھی ہدایت کی ہے کہ کوئٹہ کمیشن کی رپورٹ پر وزارت داخلہ کے اعتراضات پر اپنا موقف 12روز میں پیش کیا جائے۔کالعدم تنظیموں کو حکومت کی طرف سے دی گئی سہولیات دینے کا انکشاف کرنے پرعدالت نے غیر سرکاری تنظیم کے نمائندے کو کالعدم تنظیموںکے بارے میں موقف ا ور دیگر مواد تحریری طور پر عدالت میں پیش کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے غیر سرکاری تنظیم کو مقدمہ میں فریق بننے کی استدعا مسترد کردی تاہم عدالت کا کہنا تھا آپ کے مواد کا جائزہ لیا جائے گا تاہم اگر کیس میں فریق بنانا شروع کردیا تو ہر کوئی درخواست لے کر آجائے گا۔عدالت نے کہا ہے کہ کمیشن کی رپورٹ سفارشات کا درجہ رکھتی ہے یہ عدالتی حکم نہیں ہے۔جسٹس امیر ہانی مسلم کی سربراہی میں جسٹس مشیر عالم اور جسٹس مظہر عالم میاں خیل پر مشتمل عدالت عظمی کے تین رکنی بنچ نے بلوچستان سول اسپتال خودکش حملہ کے حوالے سے لئے گئے از خود نوٹس کی سماعت کی۔سماعت کا آغاز ہوا تو فاضل بینچ کو بتایا گیا کہ وزارت داخلہ نے کمیشن کی رپورٹ پر اعتراضات جمع کرادیئے ہیں۔ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان نے بتایا کہ حکومت کی جانب سے سیکرٹری کمیونیکیشن اینڈ ورکس رحمت اللہ زہری، سیکرٹری صحت عمر بلوچ، شیخ نواز سیکرٹری پبلک ہیلتھ کو عہدوں سے ہٹایا گیا جن میں سے رحمت اللہ زہری نے سروسز ٹریبونل سے رجوع کیا جبکہ سیکرٹری صحت عمر بلوچ، شیخ نواز سیکرٹری پبلک ہیلتھ نے بلوچستان ہائیکورٹ سے رجوع کیا تو ٹریبونل اور ہائیکورٹ نے حکومت کی جانب سے جاری نوٹیفیکیشن معطل کردیئے، عدالت نے ان افسران کو طلب کرتے ہوئے وضاحت طلب کرلی ہے کہ سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود انہوں نے عدالت عالیہ سے رجوع کیوں کیا۔ ایڈووکیٹ جنرل کا کہنا تھا کہ صوبائی حکومت کوئٹہ کمیشن کی تمام تجاویز پر عمل درآمد کرے گی۔ جسٹس امیر ہانی مسلم نے ریمارکس دیتے ہوئے کہاکہ سروسز ٹریبونل اور ہائیکورٹ نے کس طر ح ا ن افسران کو ہٹائے جانے کے نوٹیفیکیشن کس قانون کے تحت معطل کردیئے حالانکہ سپریم کورٹ تو 2013میںیہ فیصلہ دے چکی ہے کہ کیڈر پوسٹ کے حوالے سے معاملات کاہائیکورٹ اور ٹریبونل جائزہ نہیں لے سکتے۔اس موقع پر حامد خان نے کہاکہ وزیراعلی بلوچستان نے سانحہ کوئٹہ کے وقت اعلان کیا تھا کہ متاثرین کے لواحقین کو نوکریاں دی جائیں گی اور بچوں کو مفت تعلیم دلوائی جائے گی لیکن ابھی تک ان اعلانات پر عمل نہیں کیا گیا جسٹس امیرہانی مسلم نے کہاکہ یہ معاملات چیف سیکرٹری اور ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان وکلا کے نمائندوں سے مل کر طے کریںاگر معاملہ وہاں حل نہ ہو تو عدالت میں لائیں۔ جب مخدوم علی خان نے کہاکہ انہوں نے ریکارڈ حاصل کرنے کیلئے درخواست دائر کی ہے تو جسٹس امیر ہانی مسلم نے استفسا رکیا کہ کیا وزارت داخلہ کو کمیشن کے اختیارات پر اعتراض ہے، جس پر مخدوم علی خان نے کہا کہ کمیشن کی سفارشات و اختیارات پر کوئی اعتراض نہیں تاہم اگر سفارشات کو عدالتی حکم کا درجہ مل جائے تو سب کیلئے ان سفارشات کو عدالتی حکم کا درجہ مل جائے تو اس پر عمل کرنا سب کیلئے لازمی ہوجائے گااس کیلئے شواہد کے حوالے سے عدالت کا موقف بھی ریکارڈ پر آنا ضروری ہے ۔ اس موقع پر عدالت نے شہادتوں کے حوالے وزارت داخلہ کو 12روز میںاپنا موقف پیش کرنے کی ہدایت کردی۔مخدوم علی خان کا کہنا تھا کہ کوئٹہ کمیشن نے اپنے سفارشات میں وزیر داخلہ کیخلاف جو آبزرویشن دی ہے جو ریکارڈ کے مطابق نہیں ہے ۔ جسٹس امیر ہانی مسلم نے سوال اٹھایا کہ کالعدم تنظیموں پر پابندی کیلئے تین ماہ کیوں لگے صوبائی حکومت کی فہرست پر کالعدم تنظیموں پر پابندی کیوں نہیں لگائی گئی ، مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ صوبائی حکومت کا خط ملنے کے بعد خفیہ اداروں سے تنظیم کے بارے میں رپورٹ منگوائی جاتی ہے رپورٹس آنے کے بعد ان پر تنظیم کو کالعد م قراردیا جاتاہے ۔ جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہاکہ پھر تو ہمیں آپ سے یقیننا پوچھنا پڑے گا کہ تنظیم کیخلاف درخواست کب آئی اور اداروں نے رپورٹ کب دی۔مخدوم علی خان نے کہاکہ اگر عدالت کمیشن کے ریمارکس وزیرداخلہ کیخلاف نہیں سمجھتی تو الگ بات ہے لیکن وزیرداخلہ خود کالعدم تنظیم کے رہنما سے نہیں ملے۔دفاع پاکستان کونسل کا وفد وزیرداخلہ سے ملاقات کیلئے آیا اس میں مولانا محمداحمد لدھیانوی بھی شریک تھے تاہم ملاقات سے قبل وزیرداخلہ کو کوئی فہرست نہیں دی گئی تھی کہ کون ملاقات کیلئے آرہا ہے ،اس وفد کے ارکان نے وزیرداخلہ سے مطالبہ کیاکہ ان کے کارکنان کے شناختی کارڈز بلاک نہ کئے جائیں تاہم وزیرداخلہ نے ان کا مطالبہ نہیں مانالیکن رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وزیرداخلہ نے ان کا مطالبہ مان لیا، جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہاکہ کیا ہم اس کمیشن کی محنت کو نہ سراہیں جوکام ادارون نے کرنا تھے وہ کمیشن نے کئے کیا آپ کمیشن کی رپورٹ سے اختلاف ہے ۔بدقسمتی سے افسر ایماندار اور اہل نہیں آپ دیکھیں کہ کمیشن کی تشکیل سے پہلے کیسے تحقیقات ہوئیںاور کمیشن نے کیسے کام کیا لیکن حکومت نے تو صرف دو لفظوں میں کمیشن کی تعریف کی ۔مخدوم علی خان نے کہا کہ آپ کہتے ہیں تو دو سو صفحات لکھ دیتے ہیں۔اصل میں ذاتی انا ہوتی ہے ۔آپ کہتے ہیں کہ کمیشن نے غلط کہا لیکن یہاں دیکھیں ایک جج نے اپنے کام سے ہٹ کر وہ کام کیا جو اس کی ذمہ داری نہیں بنتی تھی کیاحکومتی اداروںکے کام کمیشن نے کرنا ہیں؟آپ آبزرویشن اور فیصلہ مین فرق رکھیں ، کمیشن کی رپورٹ سفارشات کا درجہ رکھتی ہیں یہ عدالتی فیصلہ نہیںرپورٹ میں وزارت اور وزیر داخلہ کیخلاف آبزرویشن ہے تو کیا اس کو الگ کردیا جائے ۔ مخدوم علی خان نے کہا کہ کمیشن کے سفارشات پرکھنے کیلئے مروجہ طریقہ کار نہیں اپنایا۔لیکن رپورٹ یہ بتاتی ہے کہ وزیرداخلہ نے کالعدم تنظیموں سے سماجی روابط رکھے۔جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہاکہ پنجاب میں کچھ علاقے ایسے ہیں جہاں حالات اچھے نہیں لیکن کوئی نوٹس نہیں لیتا ہم ابھی ان معاملات پر رائے زنی نہیں کرنا چاہتے۔اور نہ ہی وفاق کے کام پر بات کرنا چاہتے ہیں۔ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ ملک کے وسیع تر مفاد میں معاملات بہتر ہوں ورنہ تمام شواہد دیکھ کر اگر کسی نتیجہ پر پہہنچے تو ہو سکتا ہے مزید سخت بات کہہ دی جائے ۔ مقصد یہ ہے کہ مستقبل میں بہتری ہو ۔مخدوم علی خان نے کہاکہ عدالت نے احکامات دیئے تو عمل کیا جائے گا۔دوران سماعت غیر سرکاری تنظیم کے نمائندے ناصر جبران نے کہا کہ وہ اس مقدمہ میں فریق بننا چاہتے ہیں ان کی تنظیم نے کالعدم تنظیموں کے بارے میں جو مواد اکٹھا کیا ہے حکومت کی طرف سے کالعدم تنظیموں کو نہ صرف سہولت دی گئی بلکہ قومی و صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات میں ان کی معاونت بھی کی،عدالت نے کہا کہ آپ کے پاس جو تحریری مواد موجود ہے وہ عدالت میں جمع کرائیں تاہم ہم آپ کو فریق نہیں بناسکتے ہیں ،عدالت نے وزارت داخلہ کے وکیل مخدوم علی خان کو ماسوائے خفیہ اور سر بمہر رکارڈ وزارت سے متعلق دستاویزات قیمت ادا کرکے فراہم کرنے کا حکم دیا اور حامد خان کو وزارت داخلہ کے اعتراضات پر جواب داخل کرنے کے لیے بارہ دن کی مہلت دیتے ہوئے سماعت پندرہ دن کے لیے ملتوی کر دی ۔جسٹس امیر ہانی مسلم نے مخدوم علی خان کی طرف سے سماعت 28فروری تک ملتوی کرنے کی درخواست پر کہا کہ کیا پ چاہتے ہیں کہ بینچ کی تشکیل نو ہو جائے ۔ جس پر عدالت میں قہقہہ لگا واضح رہے جسٹس امیر ہانی مسلم مارچ میں بطور جج سپریم کورٹ ریٹائر بھی ہو رہے ہیں۔


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain