اسلام آباد (صباح نیوز) چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے راولپنڈی اسلام آباد میں عورتوں کی سمگلنگ کا ازخود نوٹس لے لیا ہے۔ انہوں نے اسلام آباد اور پنجاب کے انسپکٹرز جنرل پولیس سے 3 دن میں رپورٹ طلب کر لی ہے۔ جسٹس میاں ثاقب نثار نے یہ ازخود نوٹس ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والی ایک خبر پر لیا ہے جس کا عنوان تھا ”جڑواں شہروں میں خواتین کی بلاروک ٹوک سمگلنگ“ جبکہ اس حوالے سے ایک کالم ”سب گونگے کیوں ہو گئے ہیں“ کے عنوان سے شائع ہوا تھا جس میں راولپنڈی کی ایک چالیس سالہ خاتون جو 3 بچوں کی ماں تھی کو مختلف ہاتھوں میں فروخت کیا گیا اور وہ اس طرح افغانستان جا پہنچی اور پھر اغواءکاروں نے اس کی واپسی کیلئے 3 لاکھ روپے طلب کئے جبکہ پولیس نے تسلیم کیا کہ وہ اس حوالے سے کچھ نہیں کر سکتی۔ اس کہانی میں مزید بتایا گیا ہے کہ پاکستان سے ڈیڑھ سو سے زائد افراد پر مشتمل ایک منظم گینگ نے متعدد پاکستانی خواتین کو جعلی نکاح ناموں کے ذریعے افغانستان میں فروخت کیا اور کئی ایسے واقعات ہیں جن میں خواتین کو جنسی غلامی کے لئے استعمال کیا گیا۔ اس حوالے سے شائع ہونے والی خبر میں بتایا گیا ہے کہ یکم جنوری 2017ءکو راولپنڈی کے تھانہ ایئرپورٹ میں 40 سالہ پاکستانی خاتون کے حوالے سے ایف آئی آر درج کرائی گئی تھی لیکن اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا کیونکہ پولیس نے روایتی تاخیری حربے استعمال کئے۔ مغوی خاتون کے شوہر کو افغانستان سے ایک ایجنٹ کا فون آیا جس نے اس کی بیوی کی رہائی کے بدلے 3 لاکھ روپے طلب کئے اور کہا کہ اگر یہ رقم ادا نہ کی گئی تو وہ خاتون کو کسی اور کے ہاتھ فروخت کر دے گا۔ خاتون کا شوہر ایک دیہاڑی دار مزدور ہے جو بمشکل اپنے بچوں کا پیٹ پال سکتا ہے وہ اپنے بچوں کی ماں کو واپس لانے کے لئے اتنی بڑی رقم کا انتظام نہ کر سکا۔ خبر میں مزید بتایا گیا ہے کہ ایجنٹ نے اس کے شوہر کو 50 ہزار روپے دیئے اور کہا کہ وہ 15 دنوں میں پاکستان واپس آ جائے گی لیکن جب اس نے افغان ایجنٹس کو حقیقت بتائی کہ وہ شادی شدہ ہے اور بچوں کی ماں ہے تو افغان ایجنٹ نے اسے قیدی بنا لیا اور اب وہ اپنا نقصان پورا کرنے کے لئے پاکستانی ایجنٹس سے 3 لاکھ روپے مانگ رہا ہے۔ خبر میں مزید بتایا گیا ہے کہ کھنہ پل، فوجی کالونی، چوڑ، کوہ نور ملز کے راولپنڈی کے علاقے اس گینگ کے مرکز ہیں اور 150 افراد اس گینگ کے کارندوں کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ وہ غریب فیملیوں کی جوان لڑکیوں کو پھنساتے ہیں اور انہیں پرکشش رقم کی پیشکش کرتے ہیں کہ جب والدین اس پر راضی ہو جاتے ہیں تو وہ انہیں افغانستان یا ملک کے دوسرے حصے میں بیچ دیتے ہیں۔ یہ گینگ کئی پاکستانی لڑکیوں کو افغانستان میں اور اسی طرح سے افغان لڑکیوں کو پاکستان میں فروخت کر چکا ہے۔ انہیں دیہاتوں میں جعلی نکاح ناموں کی بنیاد پر فروخت کیا گیا ہے اور اس میں نکاح خواں بھی ملوث ہیں جو ایک نکاح نامے کے بدلے 5 ہزار روپے وصول کرتے ہیں۔ صوابی کی رہائشی ایک معمر خاتون ایک گینگ کی سرگرمیوں کی افغانستان میں قیادت کرتی ہے وہ لڑکیوں کو اپنے ساتھ جلال آباد لے جاتی ہے اور انہیں افغان ایجنٹوں کے ہاتھوں فروخت کرتی ہے۔ یہ گینگ اپنی رہائش تبدیل کرتا رہتا ہے تاکہ اس کی شناخت نہ ہو سکے۔ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے اس معاملے کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے۔ انسپکٹرز جنرل پولیس اسلام آباد اور پنجاب سے 3 دن میں رپورٹ طلب کر لی ہے۔
