واشنگٹن (سپیشل رپورٹر) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جنوبی ایشیا اور افغانستان کےلئے نئی امریکی پالیسی جاری کر دی ہے جس میں بھارت کو تھپکی دی گئی ہے جبکہ پاکستان کو سنگین نتائج کی کھلی دھمکی دی گئی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے افغانستان کےلئے مزید39فوجی بھیجنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہماری نئی حکمت عملی کا اگلا ستون یہ ہے کہ پاکستان سے معاملات نمٹانے کا طریقہ تبدیل کیا جائے ،پاکستان جان لے افغانستان میں ہمارا ساتھ دینے کا فائدہ ہوگا اور دہشتگردوں کی مدد جاری رکھنے سے بہت کچھ کھونا پڑے گا،پاکستان کو اربوں ڈال ردے رہے ہیں اور وہ اپنی سرزمین پر ان دہشتگردوں کو محفوظ پناہ گاہیں دے رہا ہے جو آئے روز ہمارے لوگوں کو مارنے کی کوششں میں ہیں ،خواہش ہے بھارت افغانستان کی معاشی ترقی میں کردار ادا کرے ،ہم عراق کی طرح افغانستان میں جلد بازی سے انخلا کی غلطی نہیں دھرائیں گے،عجلت میں انخلاءسے خلا پیدا ہو گا جسے دہشتگرد پر کریں گے۔فورٹ میئر آرلنگٹن کے فوجی اڈے سے ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے دور صدارت میں جنوبی ایشیا کے بارے میں اپنے پہلے خطاب میں پاکستان کو تنبیہ کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ ‘اب پاکستان میں دہشت گردوں کی قائم پناہ گاہوں کے معاملے پر مزید خاموش نہیں رہ سکتا۔ تقریبا آدھے گھنٹے تک کی گئی تقریر میں صدر ٹرمپ نے پاکستان، افغانستان اور انڈیا کے بارے میں اپنی انتظامیہ کی پالیسی کے بارے میں وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے معاملے میں امریکہ کے اہداف بالکل واضح ہیں اور وہ چاہتا ہے کہ اس خطے میں دہشت گردوں اور ان کی پناہ گاہوں کا صفایا ہو۔’ہماری پوری کوشش ہے کہ جوہری ہتھیار یا ان کی تیاری میں استعمال ہونے والا مواد دہشت گردوں کے ہاتھ نہ لگےں۔ امریکی صدر کے مطابق 20 غیر ملکی دہشت گرد تنظیمیں پاکستان اور افغانستان میں کام کر رہی ہیں جو کہ دنیا میں کسی بھی جگہ سے زیادہ ہیں۔پاکستان کے بارے میں مزید بات کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے کہا کہ امریکہ سے شراکت داری پاکستان کے لیے بہت سود مند ثابت ہوگی لیکن اگر وہ مسلسل دہشت گردوں کا ساتھ دے گا تو اس کے لیے مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔ماضی میں پاکستان ہمارا بہت اہم اتحادی رہا ہے اور ہماری فوجوں نے مل کر ہمارے مشترکہ دشمن کے خلاف لڑائی کی ہے۔ پاکستان کی عوام نے دہشت گردی کی اس جنگ میں بہت نقصان اٹھایا ہے اور ہم ان کی قربانیوں اور خدمات کو فراموش نہیں کر سکتے۔صدر ٹرمپ نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان اپنے ملک سے ان تمام شر انگیزوں کا خاتمہ کرے جو وہاں پناہ لیتے ہیں اور امریکیوں کو نشانہ بناتے ہیں۔ہم پاکستان کو اربوں ڈالر دیتے ہیں لیکن وہ دوسری جانب انھی دہشت گردوں کو پناہ دیتے ہیں جو ہمارے دشمن ہیں اور آئے روز ہمارے لوگوں کو مارنے کی کوششوں میں رہتے ہیں ۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان کے لیے اپنی انتظامیہ کی حکمتِ عملی وضع کرتے ہوئے کہا ہے کہ افغانستان اور اس سے ملحقہ خطے میں سکیورٹی خطرات بہت سنجیدہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ” آج افغانستان اور پاکستان میں بیس ایسی تنظیمیں سرگرم ہیں جنہیں امریکہ دہشت گرد قرار دے چکا ہے” انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان اکثر ایسی تنظیموں کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرتا ہے جو دہشت گردی، تشدد اور افراتفری پھیلاتی ہیں۔صدر ٹرمپ نے کہا کہ “افغانستان اور پاکستان میں امریکہ کے مفادات واضع ہیں۔ ہمیں ایسے دہشت گردوں کو محفوظ پناہ گاہیں حاصل کرنے سے روکنا ہو گا جو امریکہ کے لیے خطرہ ہیں۔ اور ہمیں یقینی بنانا ہو گا کہ ایٹمی ہتھیار دہشت گروں کے ہاتھوں تک پہنچنے نہ پائیں، جو ہمارے خلاف استعمال ہو سکتے ہیں۔ٹرمپ نے کہا کہ ان کی انتظامیہ افغانستان میں اپنی حکمتِ عملی کے لیے تاریخیں نہیں بتائے گی کہ ہم کب اور کہاںکے خلاف کاروائی کریں گے۔ٹرمپ نے کہا کہ ہماری نئی حکمتِ عملی کا ایک(اہم) ستون یہ ہے کہ ہم پاکستان کے ساتھ اپنے روابط میں تبدیلی لائیں گے۔ “ہم پاکستان میں دہشت گرد تنظیموں، طالبان اور ایسے گروہ جو اس خطے اور دیگر دنیا کے لیے خطرہ ہیں ان کی محفوط پناہ گاہوں پر مزید خاموش نہیں رہ سکتے۔ افغانستان میں ہماری کوششوں کا حصہ بن کر پاکستان بہت کچھ حاصل کر سکتا ہے۔ دہشت گردوں کا ساتھ دے کر اسے بہت نقصان ہو گا اور بہت کچھ کھونا پڑے گا۔انھوں نے کہا کہ جلد بازی میں امریکی فوجیوں کے انخلا کے باعث افغانستان میں دہشت گردوں کو دوبارہ جگہ مل جائے گی اور اس بارے میں وہ زمینی حقائق پر مبنی فیصلے کریں گے جس میں ڈیڈ لائن نہیں ہوں گی۔صدر ٹرمپ نے کہا کہ ان کا پہلے ارادہ تھا کہ وہ افغانستان سے فوجیں جلد واپس بلا لیں گے لیکن وہ عراق میں کرنے والی غلطیاں نہیں دہرائیں گے اور اس وقت تک ملک میں موجود رہیں گے جب تک جیت نے مل جائے عجلت میں انخلا سے خلا پیدا ہوگا جسے دہشتگرد پر کریں گے۔امریکہ افغان حکومت کے ساتھ تب تک مل کر کام کرے گا جب تک ملک ترقی کے راستے پر گامزن نہ ہو جائے۔امریکی صدر نے مزید39سو فوجی افغانستان بھیجنے کی بھی منظوری دی ۔گو ڈونلڈ ٹرمپ افغانستان میں تعینات کیے جانے والے امریکی فوجیوں کی کل تعداد سے متعلق خاموش رہے۔ تاہم وائٹ ہاس کے سینئر حکام کا کہنا ہے کہ امریکی صدر اپنے سیکرٹری دفاع کو افغانستان میں مزید 3900 فوجیوں کی تعیناتی کا اختیار دے چکے ہیں۔صدر ٹرمپ نے افغانستان کی ترقی میں بھارت کے کردار کی بھی تعریف کی اور واضع کیا کہ جنوبی ایشیا میں بھارت امریکہ کا ایک اہم اتحادی ہے اور کہا کہ بھارت کو افغانستان کی معیشت، امن اور سیکورٹی میں بہتری لانے کے لیے مزید کردار ادا کرنا چاہیے۔وزیردفاع James Mattis نے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کو فوری طور پر ہدایت کی کہ وہ فوجیوں کی تعداد میں اضافہ کرنے کے لئے حکمت عملی مرتب کریں۔واضح رہے کہ امریکی فوج نے افغانستان میں براہ راست فوجی کاروائی 2014 سے ختم کر دی ہے اور اس وقت ملک میں 8400 موجود ہیں جو کہ افغان فوج کی مدد کر رہے ہیں۔2001 میں ستمبر 11 کو ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر ہونے والے حملے کے بعد سے امریکہ کی فوج افغانستان میں موجود ہے اور ماضی میں صدر ٹرمپ فوج کے انخلا کا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔