تازہ تر ین

سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو کو مارنے میں کس کا کیا کردار ؟ تہلکہ خیز انکشاف

راولپنڈی (ویب ڈیسک) سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو کے قتل کیس میں ایف آئی اے کے پراسیکیوٹرز نے اپنے حتمی دلائل مکمل کرلیے جس کے ساتھ یہ اہم ترین مقدمہ 9 سال 7 ماہ 27 روز بعد حتمی مرحلہ میں داخل ہوگیا ہے اور عید قربان سے دو روز قبل جمعرات 31 اگست کو اس کا فیصلہ آرہا ہے۔ کل پیر 28 اگست سے ملزمان کے وکلاءحتمی دلائل کا آغاز کریں گے جو منگل کے روز مکمل ہو جائیں گے۔ انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت کے جج محمد اصغر خان اس مقدمہ کی سماعت کررہے ہیں۔ پراسیکیوٹرز چودھری اظہر اور خواجہ امتیاز نے سرکار کی طرف سے حتمی دلائل پیش کرتے ہوئے کہا کہ تمام ملزمان نے گھناو¿نا جرم کرتے ہوئے بینظیر بھٹو سمیت 23 افراد کو شہید اور 27 کو زخمی کیا، انہیں سخت ترین سزائیں دی جائیں۔ بینظیر بھٹو کا قتل ایک منظم سازش تھی، گرفتار ملزمان نے بھی اقبالی بیانات میں سازش کی تصدیق کی ہے۔ بینظیر بھٹو کی باکس سکیورٹی سی پی او سعود عزیز نے دانستہ ختم کرکے حملہ آوروں کو آسان ٹارگٹ فراہم کیا۔ کرائم سین دانستہ طور پر فوری دھو کر شواہد مٹائے گئے، باکس سکیورٹی کے ذمہ دار ایس پی اشفاق انور تھے جو بینظیر بھٹو کو صرف 13 منٹ میں فیض آباد سے لیاقت باغ تک لائے مگر جلسہ کے دوران اسلام آباد کی حدود میں نوازشریف کے جلوس پر مسلم لیگ (ن) اور مسلم لیگ (ق) کے کارکنوں میں مسلح تصادم کے بعد باکس سکیورٹی توڑتے ہوئے سی پی او نے ایس پی اشفاق انور کو نفری کے ساتھ کورال اسلام آباد بھیج دیا، وہاں اسلام آباد پولیس پہلے سے ہی موجود تھی جس پر اشفاق انور کو وہاں سے صادق آباد بھیج دیا گیا جہاں ایس پی ایوب طاہر اور ایس پی جاوید موجود تھے۔ اگر سی پی او باکس سکیورٹی نہ توڑتے تو یہ حادثہ نہ ہوتا۔ باکس سکیورٹی توڑنے کی تصدیق اپنے بیانات اور جرح میں 3 ایس پی افسران اشفاق انور، طاہر ایوب اور جاوید خان نے کی ہے۔ ڈاکٹروں کی ٹیم کے سربراہ ڈاکٹر مصدق نے اپنے بیان میں تصدیق کی ہے کہ سی پی او سے انہوں نے تین بار پوسٹ مارٹم کرنے کی اجازت مانگی۔ تیسری بار انہوں نے سخت ترین جملے کہتے ہوئے روک دیا جبکہ گواہان نے کرائم سین بھی جبری دھونے کے بیانات دیئے ہیں۔ کرائم سین دھونے کے تیسرے دن جے آئی ٹی نے وہاں سے پستول کا خول برآمد کیا۔ فرانزک رپورٹ میں اس کی تصدیق ہوگئی کہ یہ وہی خول ہے جس پستول سے بینظیر بھٹو پر فائرنگ کی گئی تھی۔ سرکاری دلائل میں کہا گیا ہے کہ استغاثہ نے جرم شواہد کے ساتھ ثابت کردیا ہے اور ملزمان اس وقت کے سی پی او سعود عزیز، ایس پی خرم شہزاد، اعتزاز شاہ، شیرزمان، رفاقت، حسنین، عبدالرشید کو سخت ترین سزائیں دینے کی سفارش کی ہے۔


اہم خبریں
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain