تازہ تر ین

خواجہ اظہار پر قاتلانہ حملے کی تفتیش میں نیا موڑ القاعدہ،داعش سے رابطوں کا انکشاف

کراچی (آن لائن) خواجہ اظہار الحسن پر قاتلانہ حملے کی تفتیش میں نیا موڑآگیا،قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے حراست میں لئے گئے ملزم کے متعلق انکشاف ہوا ہے کہ وہ انصارالشریعہ پاکستان کا چیف ہے۔ملزم این ای ڈی یونیورسٹی کا ملازم ہے اور کراچی یونیورسٹی کے شعبہ فزکس سے ماسٹر کی ڈگری حاصل کرچکا ہے، انصارالشریعہ پاکستان کے چیف شہریار عبداللہ ہاشمی سمیت 6 ملزمان کو سیکیورٹی فورسز نے پیر کے روز کنیز فاطمہ سوسائٹی میں کارروائی کے دوران حراست میں لیا تھا۔ شہریار عبداللہ این ای ڈی یونیورسٹی کے آئی ٹی ڈیپارٹمنٹ کا ملازم تھا اور وہ کمپیوٹر کا ماہر ہے۔مزید ملزمان کی گرفتاری کیلئے چھاپے مارے جارہے ہیں ۔جبکہ سیکیورٹی ذرائع کے مطابق خواجہ اظہار الحسن پر حملے اور متعدد دہشت گردی کی وارداتوں میں اعلیٰ تعلیم یافتہ ملزمان ملوث ہیں۔ 2 ستمبر کو خواجہ اظہار پر حملے کے دوران پولیس کی جوابی فائرنگ سے مارا جانے والا دہشت گرد حسان اسرار بھی انجینئرنگ یونیورسٹی کا لیکچرار اور پی ایچ ڈی ہولڈر تھا۔اس کے علاوہ خواجہ اظہار پر حملے کا مبینہ ماسٹر مائنڈ عبدالکریم سروش صدیقی بھی کراچی یونیورسٹی میں شعبہ اپلائڈ فزکس کا طالبعلم ہے جو اب تک مفرور ہے۔واضح رہے کہ سانحہ صفورہ میں ملوث مجرمان سعد عزیز اور علی رحمان عرف ٹونا بھی انجینئرنگ یونی ورسٹی کے طالب علم تھے جوکہ خود بھی تعلیم یافتہ اور اعلٰی تعلیم یافتہ گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔جبکہ حال ہی میں جامعہ کراچی نے دہشت گردی کی وارداتوں کو دیکھتے ہوئے طلبہ کا ریکارڈ حساس اداروں کو دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ دریں اثناءکنیز فاطمہ سوسائٹی میں حسان کے 2 یا 3 دوست رہتے تھے وہ ان ہی کے ساتھ رہتا تھا۔حسان کا چچا پولیس افسرہے، اس سے ابھی پوچھ گچھ جاری ہے۔ذرائع کے مطابق انصار الشریعہ کے پمفلٹ کی تیاری میں استعمال لیپ ٹاپ برآمد کر لیا گیا ہے۔ اعلی سیکورٹی ذرائع نے بتایا کہ انصار الشریعہ پاکستان کا سربراہ گرفتار کرلیا گیا ہے اور یہ گرفتاری پیر کی شب کراچی سے عمل میں آئی۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو کافی عرصے سے کراچی یونیورسٹی میں قائم انتہا پسند نوجوانوں کے نیٹ ورک کی اطلاع تھی اس سلسلے میں کئی دفعہ بعض نوجوانوں کو حراست میں بھی لیا گیا تھا لیکن شواہد نہ ملنے پر چھوڑ دیا گیا تھا۔ خواجہ اظہار الحسن پر حملے کے بعد اہم ترین شواہد ملنے پر یہ گروہ بے نقاب ہوگیا جس کے بعد اہم گرفتاریاں عمل میں آئیں۔اعلی سیکورٹی ذرائع کے مطابق انصارالشریعہ پاکستان کے سربراہ کا نام ڈاکٹر عبداللہ ہاشمی ہے جو تنظیم کا ترجمان بھی تھا تاہم یہ اس کی عرفیت ہے، اصل نام کچھ اور ہے۔ڈاکٹر عبداللہ ہاشمی نے جامعہ کراچی سےاپلائڈ فزکس میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی ہوئی ہے۔ انصار الشریعہ پاکستان 10 سے 12 ارکان پر مشتمل تھی جو ماضی میں کالعدم القاعدہ، داعش اور لشکر جھنگوی سے منسلک رہے ہیں۔ گرفتار نوجوانوں میں برطانوی یونیورسٹی کا تعلیم یافتہ بھی شامل ہے۔تفتیشی ذرائع کا کہنا ہے کہ انصار الشریعہ پاکستان کے ارکان آپس میں رابطے کے لئے مخصوص موبائل فون ایپلی کیشن کا استعمال کیا کرتے تھے ¾یہ لوگ گلے میں تعویز بھی پہنا کرتے تھے جس میں اہم معلومات رکھنے والا میموری کارڈ چھپا ہوتا تھا۔دہشتگرد انتہائی منظم، تربیت یافتہ اور مکمل منصوبہ بندی سے اپنی کارروائیاں کرتے تھے جنہوں نے کراچی میں کی جانے والی تمام دہشت گرد کارروائیوں کی فلم بندی بھی کی تھی۔قانون نافذ کرنے والے اداروں نے دہشت گرد کارروائیوں کی ویڈیو برآمد کرلی ہیں۔ انصار الشریعہ کے ارکان نے عسکری تربیت افغانستان سے حاصل ہے۔ گرفتار ہونے والے نوجوانوں کے قبضے سے اسلحہ، انتہا پسندی کا لٹریچر اور بعض چندے کی رسیدیں بھی برآمد ہوئی ہیں۔ خواجہ اظہار پرحملہ کرنیوالے حسان کے بارے میں نئے انکشافات سامنے آرہے ہیں۔ کراچی میں رہائش پذیرحسان کے والد پروفیسر،والدہ ڈاکٹر،بہن میڈیکل کی طالبہ ہے۔ملزم حسان محلے داروں سے بہت کم میل جول رکھتا تھا۔ حساس اداروں نے ملزم کے گھر سے گاڑی تحویل میں لے لی ہے۔ علاقہ مکینوں کاکہنا ہے کہ حسان سے بڑی عمر کے افراد ملنے آتے تھے۔ حسان نماز کی ادائیگی کیلئے علاقے سے دور جاتا تھا۔ خواجہ الحسن پر حملے کے مبینہ ماسٹر مائنڈ عبدالکریم عرف سروش کے والد نے اپنا بیان ریکارڈ کرادیا،بیان میں کہا گیا ہے کہ سروش کی حرکات وسکنات کئی ماہ سے مشکوک تھیں۔ ایک سال قبل پتاہ چلا کہ بیٹا اپنے پاس اسلحہ رکھتا ہے۔ رات رات بھر جاگتا تھا میرے پوچھنے پر تسلیبخش جواب نہیں دیتا۔سروش کے والد نے بیان میں کہا کہ پولیس نے چھاپا ماراتو میں نے اسے ہتھیار چلانے سے منع کیا تھا۔ سروش کوہتھیار ڈالنے کے لیے کہا وہ نہیں مانا۔مجھے علم تھا کہ سروش پولیس مخالف ہے ۔مجھے اس بات کا علم ہوگیا تھا۔ کہ سروش کسی کالعدم تنظیم کے ساتھ کام کررہاہے۔ روکنے پر سروش مجھ سے بھی الجھ پڑتا تھا۔ سروش ایک سال میں دو دفعہ گھر سے غائب ہوگیا تھا۔ بعد میں پتا چلا سروش افغانستان گیا ہے۔ عید کے دن سے سروش جاگ رہاتھا۔ یقین تھا پکڑا جائے گا۔ علاوہ ازیں انصار الشریعہ کے سربراہ ڈاکٹر عبداللہ کے سنسنی خیز انکشافات سامنے آگئے،ڈاکٹر عبداللہ نے انکشاف کیا ہے کہ القاعدہ سے الحاق کے لیے عبداللہ بلوچ سے رابطہ کیا، میرا گروپ اعلیٰ تعلیم یافتہ لڑکوں پر مشتمل ہے،میرے گروہ نے افغانستان سے ٹریننگ لی ،ہلاک ملزم حسان عرف ولید کی عمر 27سال تھی،حسان آدھی تنخواہ گھر اور باقی تنظیم کو دیتا تھا۔


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain