ڈھاکہ، کاکس بازار(خصوصی رپورٹ)برما نے کھلم کھلا اپنے جرائم کا اعتراف کرتے ہوئے چین کی حمایت ملنے کا دعویٰ کیا ہے۔ برمی حکومت کے ترجمان زاہٹائے نے ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ رخائن میں روہنگیا کے 471 دیہات میں فوجی آپریشن کیا گیا، جس دوران 176 کو مکمل خالی کرا لیا گیا ہے۔ ترجمان کے مطابق 34دیہات جزوی خالی ہوچکے ہیں، جبکہ 45 کو آگ لگائی گئی۔ ترجمان نے دعویٰ کیا کہ جو لوگ بنگلہ دیش بھاگ رہے ہیں ان میں مبینہ عسکریت پسند، عورتیں اوربچے شامل ہیں۔ برمی ترجمان کے بیان سے روہنگیا مسلمانوں کو محصور کرنے اور ان کے وحشیانہ قتل عام کی تصدیق بھی ہوگئی ہے۔ رخائن میں 25اگست سے شروع ہونے والے فوجی آپریشن میں اب تک 3ہزار سے زائد بے گناہ افراد شہید کئے جاچکے ہیں، جبکہ لاکھوں کو نقل مکانی پر مجبور کردیاگیا ہے۔ عالمی تنظیموں کے مطابق برمی فوج اور بودھ دہشت گرد دیہات کو آگ لگانے ، مسلمانوں کو زندہ جلانے، سرقلم کرنے اور خواتین سے زیادتی میں ملوث ہے۔ ایک منظم منصوبے کے تحت مسلمانوں کو ملک سے نکالا جارہا ہے۔ دوسری جانب برمی سرکاری اخبار گلوبل نیو لائٹ نے دعویٰ کیا ہے کہ چین نے مبینہ باغیوں کے خلاف فوجی ایکشن کی حمایت کردی ہے۔ اخبار کے مطابق چینی سفیر نے رخائن کی صورتحال کو برما کا اندرونی معاملہ قرار دیتے ہوئے حکام کو بتایا کہ چین روہنگیا باغیوں کے خلاف برمی فوج کی کارروائی اور آپریشن سے متاثر ہونے والے افراد کی امداد کا خیر مقدم کرتا ہے۔ دریں اثناءبرما سے بنگلہ دیش نقل مکانی کرنے والیے روہنگیا خواتین کا کہنا ہے کہ فوج نے ان کی بے حرمتی کی ہے۔ وہ تو اپنی جان بچانے میں کامیاب رہیں، لیکن بے شمار خواتین کو بے حرمتی کے بعد زندہ جلادیاگیا۔ بی بی سی کے مطابق بنگلہ دیش میں ڈاکٹروں کا کہناہے کہ بہت ساری روہنگیا خواتین انتہائی خوفزدہ ہیں اور شرم کی وجہ سے علاج سے بھی کترا رہی ہیں۔ اکھیا سے سرحد عبور کرکے کاکس بازار پہنچنے والی ہاجرہ بیگم نے بتایا برمی فوج نے ان کے گھروں کا محاصرہ کیا، جو لوگ بھاگنے میں کامیاب ہوگئے اور بچ گئے، جو نہیں بھاگ سکے وہ مرچکے ہیں۔ بے حرمتی کے بعد وہ خود کو بچانے میں کامیاب رہی، لیکن وہاں بہت ساری لڑکیاں ہیں، جن کو جلادیاگیا۔ بے حرمتی کا شکار ایک اور خاتون ریحانہ بیگم نے نومولود بچے کے ساتھ سرحد پارکی۔ اس کی 15سالہ بیٹی لاپتہ ہے۔ ریحانہ کو خدشہ ہے کہ اس کی بیٹی کو برمی فوجیوں نے اغوا کرلیا ہوگا۔ روہنگیا پناہ گزین محمد الیاس کے مطابق اس کے سامنے برمی فوجیوں نے ایک خاتون کی بے حرمتی کی، جس کے بعد اسے اور اس کے بچے کو زندہ جلادیاگیا۔ اس نے خواتین کی 5 سوختہ لاشیں دیکھیں۔ کوکس بازار میں بنگلہ دیشی ڈاکٹر اور کئی بین الاقوامی تنظیمیں روہنگیا خواتین اور بچوں کو طبی امداد فراہم کررہی ہیں۔ اکھیا میں بنگلہ دیشی ڈاکٹر مصباح الدین احمد نے بتایا کہ ان کے سامنے بے حرمتی کے 18کیسز آئے، لیکن ان کی تعداد کہیں زیادہ ہوسکتی ہے۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے اگر متاثرہ خواتین کی نشاندہی اور طبی سہولیات فراہم نہ کی گئیں تو ان کی صحت پر طویل المدت اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔برمی فوجیوں کی سرپرستی میں بودھ انتہاپسندوں نے جیانگ بانگ کے مسلم اکثریتی علاقے میں ہزاروں مسلمانوں‘ 200 مساجد و مدارس کو شہید کیا۔ 500 افراد فوجیوں کی گولی کا نشانہ بنے‘ کئی مسلمان زندہ جلائے گئے۔ تفصیلات کے مطابق میانمار کی ریاست اراکان سے نقل مکانی کرکے بنگلہ دیش کے کتوپالنگ کیمپ پہنچنے والے 63 سالہ عالم دین مولانا دل محمد نے مسلم اکثریتی علاقے جیانگ بانگ میں تباہی کے دل دہلانے والے انکشافات کئے ہیں۔ مولانا دل محمد نے بتایا کہ وہ جیانگ بانگ نامی علاقے کے مکین ہیں اور وہ اسی علاقے کی جامعہ اسلامیہ خدام الاسلام نامی مدرسے میں تدریس سے وابستہ تھے۔ ہمارا علاقہ مکمل طور پر مسلم آبادی پر مشتمل تھا جہاں 10 ہزار گھروں میں پچاس ہزار سے زائد مسلمان آباد تھے۔ 25 اگست کو میانمار کے فوجیوں و بودھ انتہاپسندوں نے فوجی سرپرستی میں آبادی پر حملہ کیا۔ پہلے بھی متعدد بار بدھ مت کے پیروکار آبادی پر حملے کرتے رہے ہیں۔ ہر حملے میں انتہاپسند بدھ کہتے کہ تم بنگلہ دیش سے آئے ہو۔ تمہیں یہاں رہنے کا کوئی حق نہیں‘ واپس جاکر اپنے ممالک میں رہو۔ جیانگ بانگ نامی علاقے کے مسلمانوں سے لوٹ مار بھی جاری رکھی جاتی۔ 25 اگست کو سرکاری سرپرستی میں کئے گئے حملے میں تمام گھروں کو آگ لگا دی گئی۔ علاقے میں موجود 300 سے زائد مساجد و مدارس کو بھی جلایا گیا۔ بیشتر شہادتیں مسلمانوں کو زندہ جلانے و ذبح کرنے کے باعث ہوئیں جبکہ پانچ سو سے زائد مسلمان فوج کی فائرنگ سے شہید ہوئے۔ حملے کے وقت لاﺅڈ سپیکر پر مسلمانوں کو علاقہ خالی کرنے کیلئے کہا جاتا رہا۔ ابتدا میں مسلمانوں نے ڈنڈوں و لاٹھیوں سے انتہاپسند بدھوں سے مزاحمت کی کوشش کی جس پر میانمار کی فوج نے شدید فائرنگ شروع کردی۔ برمی فوج کی فائرنگ سے کئی مسلمان موقع پر ہی شہید ہوئے۔ جان بچا کر بھاگنے والی مسلم خواتین اور بچوں کو انتہاپسندوں نے پکڑ کر گھروں میں بند کرکے آگ لگانا شروع کردی۔ اسی طرح سینکڑوں خواتین و بچے ہماری آنکھوں کے سامنے زندہ جلائے گئے۔ ہماری بستی پہاڑی علاقے کے درمیان تھے۔ یہ علاقہ بنگلہ دیشی بارڈر سے قریب واقع ہے‘ ہمیں اپنے علاقوں میں پکے گھر بنانے کی اجازت نہیں تھی۔ پوری آبادی کچے گھروں پر مشتمل تھا جو بانس اور لکڑیوں سے بنائے گئے۔ اراکان سے ہجرت کرنے والوں پر بھی راستے میں مختلف مقامات پر گھات لگا کر بدھ انتہاپسند حملے کرتے رہے۔ لوگوں کو پکڑ کر خواتین و بچوں کے ساتھ ذبح کیاجاتا رہا۔ برمی فوج کی سرپرستی میں شہید کئے جانے والوں کی حتمی تعداد بتانا ممکن نہیں۔ ایک اندازے کے مطابق صرف جیانگ بانگ کے علاقے میں تین سے چار ہزار مسلمان شہید کئے گئے۔ یہ شہادتیں فائرنگ‘ زندہ جلائے جانے اور ذبح کئے جانے سے ہوئیں۔ شہداءمیں سے بیشتر خواتین و بچے ہیں۔ ان لوگوں کی بہت بڑی تعداد بھی اب تک لاپتہ ہے جو حملے کے بعد محفوظ مقامات پہنچنے کیلئے گھر والوں کو لے کر بارڈر گئے تھے۔ لوگ اپنے پیاروں کو اب بھی ایک سے دوسرے کیمپ میں دیوانہ وار تلاش کررہے ہیں۔ لوگوں کو خدشہ ہے کہ ان کے پیارے بھی کہیں راستے میں ہی شہید نہ کردیئے گئے ہوں۔