لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ خواجہ آصف کے ڈومورکرنے کے بیان سے سنگین صورتحال پیدا ہو گئی ہے۔ ان کا بیان قومی غیرت و حقائق کے برعکس ہے۔ آرمی چیف کہتے ہیں کہ دنیا ڈومور کرے جبکہ وزیرخارجہ برعکس بیان دے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حافظ سعید کے بارے میں عدالتیں کہہ چکی ہیں کہ ان کے خلاف کوئی ثبوت نہیں پھر بھی ان کو گھر پر نظر بند کر دیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ امریکہ کے دباﺅ پر کیا۔ کیا ہمارا آئین اجازت دیتا ہے کہ امریکہ جسے کہے اسے پکڑ لو؟ نون لیگ کے حکمرانوں کا نقطہ نظر ہے کہ ٹرمپ نے ٹھیک کہا ہے ہم مزید ڈومور کریں گے۔ وزیرخارجہ بتائیں کہ حافظ سعید کس طرح بوجھ بن گئے ہیں؟ اگر ایسا ہے تو ہمارے آئین میں بھی اس کی گنجائش ہونی چاہئے۔ امریکہ میں جا کر یو این او میں یہ کہنے کی کیا ضرورت ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ملی مسلم لیگ نئی پارٹی ہے۔ اس سے پہلے ایم کیو ایم نے حق پرست اور پیپلزپارٹی نے پیپلزپارٹی پارلیمنٹیرین کے نام سے پارٹی رجسٹرڈ کروائی تھی۔ اگر کسی جماعت پر اعتراضات ہوں تو وہ نئے نام سے پارٹی رجسٹرڈ کروا سکتا ہے حالانکہ سب جانتے ہیں کہ صرف نام تبدیل ہوا ہے لوگ سارے پہلے والے ہی ہیں۔ لگ رہا ہے کہ پاکستان میں ہر چیز ٹوٹ رہی ہے۔ نوازشریف نااہل ہو گئے، زرداری پر دوبارہ مقدمات کھول دیئے گئے، اب کہا جا رہا ہے کہ عمران خان بھی نااہل ہو جائیں گے اور زرداری بھی قابو آنے والا ہے ان کے بارے میں پہلا عدالتی فیصلہ غلط تھا یہ سارے معاملات سمجھ سے بالاتر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اسحاق ڈار جس طرح بڑے مجمع کے ساتھ عدالت گئے، اس سے سخت اذیت ہوئی۔ چھوٹے ملزموں کو دیوار سے لگا دیا گیا، سارے آداب بڑے ملزم کیلئے ہیں۔ وزیرخزانہ دندناتے ہوئے بڑی شان سے عدالت آئے اور چلے گئے۔ اسحاق ڈار کو مخاطب کر کے کہتا ہوں کہ آپ نے ہجویری ٹرسٹ بھی بنایا ہوا ہے۔ داتا دربار بھی باقاعدگی سے جاتے ہو کیا آپ کے ذہن میں اسلام کا یہی تصور ہے۔ عمران خان کی بہت ساری باتوں سے اختلاف ہے لیکن ایک بات وہ ٹھیک کرتا ہے کہ اگر بڑے ملزموں کو چھوڑنا ہے تو پھر جیلیں کھول دو، وہ تو بہت چھوٹے ملزم ہیں۔ جس طرح نااہل نوازشریف اور اسحاق ڈار بڑے ہجوم کے ساتھ عدالت میں پیش ہوئے اس پر جج حضرات کیوں ایکشن نہیں لیتے، ایسی عدالتیں کیا انصاف کریں گی؟ جو عدالت اپنے کمرے میں نظم و ضبط قائم نہیں کر سکتی وہ ملک میں کیا کرے گی۔ عدالت خود توہین عدالت کر رہی ہے۔ جج حکم دے سکتا ہے کہ کمرہ عدالت میں ملزم اور اس کا وکیل آئے باقی سب باہر رہیں، حکمران پارٹی کو 7 قتل معاف ہیں، وہ ٹھاٹ باٹھ سے عدالت جاتے ہیں جیسے وہ کچھ بھی نہیں۔ ایسا معاشرہ نہیں چل سکتا، اس دن سے ڈریں جب عوام غصے میں نکلیں گے۔ فرانس کا انقلاب اس طرح آیا تھا۔ خونی انقلاب کی طرف کیوں بڑھ رہے ہیں۔ لوگ اس سارے نظام سے سخت نفرت کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومتی پارٹی کے ساتھ اپوزیشن پارٹیوں میں بھی اتنا ہی گند ہے۔ اس حکام میں سب ننگے ہیں۔ اپوزیشن جماعتوں کو بھی کوئی اچھا نہیں سمجھتا۔ حساس اداروں نے کہا ہے کہ جب الیکشن ہوں گے تو کسی پارٹی کے پاس اکثریت نہیں ہو گی۔ پیپلزپارٹی دو ٹرمز سے سندھ میں حکومت چلا رہی ہے لیکن وہاں کچھ نہیں کیا۔ عمران خان کے پی میں کوئی واضح تبدیلی نہیں لا سکے۔ جمہوری نظام والے تلے ہوئے ہیں کہ کسی طرح مارشل لا لگ جائے۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان کے اپوزیشن لیڈر بننے میں کوئی حرج نہیں۔ ان سے کئی دفعہ کہا کہ جلسے، جلوسوں کے بجائے اسمبلی میں جنگ لڑیں۔ ملتان میں سب جانتے ہیں کہ جہانگیر ترین بے تحاشہ پیسہ خرچ کرنے کی وجہ سے جیتا، اب تک لوگوں کو وظیفے مل رہے ہیں۔ پی ٹی آئی کے ایک سینئر رہنما نے مجھ سے کہا تھا کہ قومی اسمبلی تو نہیں البتہ صوبائی اسمبلی کی سیٹ کا انتظام کر لیا ہے۔ میں نے پوچھا کہ وہ کیسے تو انہوں نے کہا کہ میں نوٹوں کی بوریاں کھول دوں گا۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم اور خواجہ آصف کو چاہئے کہ حالات کو بہتر کریں۔ خورشید شاہ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان پر کرپشن سمیت جتنے بھی کیسز تھے، ان کے اپوزیشن لیڈر بننے کے بعد نون لیگ کی حکومت سے مک مکا ہو گیا اور مقدمات ختم ہو گئے۔ ایسی سیاست ختم ہونی چاہئے۔