لاہور (خصوصی رپورٹ) مقبوضہ کشمیر میں تحریک آزادی کی لہر کا تسلسل توڑنے اور شہریوں خصوصاً خواتین کو خوفزدہ کرنے کی خاطر بھارتی فورسز نے گیسوتراشی یعنی خواتین کی چٹیا کاٹنے کی مہم شروع کروائی کیونکہ تحریک کی حالیہ لہر میں سب سے متحرک کردار خواتین ادا کر رہی ہیں۔ سرینگر کے میڈیا اور تحریک حریت نے ایسے شواہد پیش کئے ہیں جن کی بنیاد پر یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ اس غیراخلاقی فعل میں بھارتی فورسز براہ راست ملوث ہیں۔ اب تک جتنے لوگوں کو بھی موقع واردات پر رنگے ہاتھوں پکڑا گیا ان سب کا تعلق فوج یا پولیس سے نکلا اور انہیں بیگناہ قراردے کر رہا کردیا گیا۔ ایک ماہ میں 150سے زائد وارداتوں کے باوجود فرانزک تجزیہ کیلئے صرف 5سے 6کیسز کا انتخاب کیا گیا اور ان پر بھی کام نہیں کیا جا رہا۔ وارداتیں صرف ان علاقوں میں ہو رہی ہیں جہاں تحریک کی شدت حکومتی کنٹرول سے باہر رہی۔ سرینگر میڈیا کے مطابق وادی میں نامعلوم افراد کی طرف سے پراسرار طور پر خواتین کی بال تراشی کے واقعات میں بتدریج اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ایسے واقعات کی تعداد 150سے تجاوز کر گئی ہے۔ اعدادوشمار سے ظاہر ہو رہا ہے کہ شہر سرینگر میں ہر روز جوان سال خواتین اور چھوٹی لڑکیوں حتیٰ کہ عمررسیدہ خواتین کو بھی نشانہ بنانے کا گھناﺅنا فعل انجام دیا جا رہا ہے تاہم اس دوران کئی مقامات پر ایسی کوششوں کو ناکام بھی بنایا جا چکا ہے۔ اس امر کے باوجود کہ پولیس نے کسی بھی ملوث شخص کو پکڑنے کیلئے 6لاکھ کا انعام بھی رکھا ہے‘ خواتین کی مبینہ چوٹیاں کاٹنے کے واقعات سب سے زیادہ سرینگر میں رونما ہو رہے ہیں جن کی تعداد 35تک پہنچ گئی ہے جبکہ ضلع شوپیاں میں سب سے کم 3واقعات پیش آئے ہیں۔ اس کے بعد جنوبی ضلع کولگام کا نمبر آتا ہے جہاں ایسے 27واقعات رونما ہو چکے ہیں۔ فی الحال بارہ مولا تیسرے نمبر پر ہے جہاں اب تک 23خواتین کو نشانہ بنایا جا چکا ہے۔ کئی جگہوں پر خواتین کی 2مرتبہ بھی چوٹیاں کاٹی گئیں۔ ادھر سرینگر کے علاوہ قصبہ جات میں رضاکارانہ طور پر نوجوان نے شبانہ گشتوں کا سلسلہ شروع کیا ہے اور کئی لوگوں کو رنگے ہاتھوں پکڑ کر پولیس کے حوالے بھی کیا گیا ہے۔ سرینگر کے علاقہ وکی بل‘ سلرپہلگام‘ بونیار‘ کولگام اور گاندربل میں مقامی لوگوں نے میڈیا کو بتایا کہ جن لوگوں کو پکڑا گیا وہ فوج یا پولیس کے اہلکار نکلے۔ شہریوں کا مزید الزام یہ بھی ہے کہ جس جگہ یہ واقعات پیش آتے ہیں اور مقامی لوگ ملزموں کا تعاقب کرتے ہیں‘ وہاں نزدیک ہی فوج یا پولیس اہلکار پائے جاتے ہیں تاہم فوج اور پولیس ان الزامات کو مسترد کر رہی ہے۔ پولیس نے کئی نوجوانوں کو مبینہ افواہیں پھیلانے کی پاداش میں حراست میں بھی لیا ہے۔ وزیراعلیٰ نے گیسوتراشی کے واقعات میں ملوث افراد کو بے نقاب کرنے کا اعلان کیا ہے‘ وہیں مزاحمتی جماعتوں کا الزام ہے کہ سرکار ان واقعات کے پیچھے ہے۔ پچھلے ایک ماہ میں وادی میں گیسوتراشی کے کم و بیش 140واقعات میں سے صرف 6کیسز میں متاثرین کے بالوں کے نمونوں کی تحقیقات کیلئے فرانزک سائنس لیبارٹری سرینگر بھیجا گیا ہے۔ یہ واقعات کاﺅ محلہ خانیار اور اننت ناگ میں پیش آئے ہیں۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ فرانزک سائنس لیبارٹری سرینگر نے پہلے ہی جموں صوبے میں ہوئے گیسوتراشی کے 5واقعات کی تحقیق کر کے اسپرے کے استعمال کو مسترد کیا ہے تاہم وادی میں گیسوتراشی فرانزک ماہرین کیلئے ایک معمہ بنی ہوئی ہے۔ سائنسی بنیادوں پر کیسوں کی تحقیق کرنے والی فرانزک سائنس لیبارٹری سرینگر ابھی تک گیسوتراشی کے معاملے میں کوئی بھی ثبوت جمع کرنے میں ناکام رہی ہے۔ باوثوق ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ وادی میں پچھلے ایک ماہ کے دوران رونما ہونے والے 140واقعات میں سے 6کیسوں کی تحقیقات کیلئے بالوں کے نمونے فرانزک سائنس لیبارٹری کو منتقل کئے گئے ہیں لیکن فرانزک ماہرین اب تک کسی بھی کیس میں اسپرے کے استعمال کی تصدیق نہیں کرسکے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ متاثرہ افراد کے چہروں سے اسپرے کے نمونے حاصل کرنا کافی مشکل ہے کیونکہ زیاد تر اسپرے غیرمستحکم (Volatile) کیمیائی ادویات کا بنا ہوتا ہے اور ایسے اسپرے کے نمونے حاصل کرنا کافی مشکل ہوتا ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ اسپرے کیونکہ غیرمستحکم ہوتے ہیں‘ اس لئے نمونے جتنی جلد حاصل کئے جائیں نتیجے بھی بہتر سامنے آتے ہیں۔ واضح رہے کہ اس سے قبل جموں صوبے میں پیش آئے گیسوتراشی کے واقعات میں سے 5کیسوں کے نمونے فرانزک سائنس لیبارٹری بھیجے گئے تھے تاہم تحقیق کے دوران فرانزک ماہرین نے جموں صوبے میں اسپرے کے استعمال سے انکار کیا تھا۔