تازہ تر ین

عدالت نہال ہاشمی، طلال چودھری، دانیال جیسے چھوٹے موٹوں کو پکڑتی ہے لیڈرکونہیں پوچھتی جو عدلیہ کیخلاف بغاوت کی بات کرتا ہے

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ دانیال عزیز جوش جنون میں بہت کچھ کہہ جاتے ہیں۔ انہوں نے ایک مرتبہ پی آئی ڈی میں گفتگو کرتے ہوئے ایک صحافی کو کہا ”عمران آپ کا جوائی لگتا ہے“ اس کو توڑ کر دیکھیں کسی کو یہ کہنا کہ تو نے اپنی لڑکی عمران خان کو دی ہوئی ہے۔ میں نے اس واقعہ کے اگلے دن ان کے والد کو فون کیا اور ان سے کہا کہ کچھ تو خدا کا خوف کریں۔ صحافی کی بے عزتی کرنے کا اسے کیا حق حاصل ہے۔ وہ اپنے آپ کو حدا سمجھتا ہے؟ کس قسم کی گفتگو کرتا ہے وہ اس پر اس کے والد صاحب خاموشی سے سنتے رہے۔ میں نے ان سے کہا کہ اسے تمیز سکھاﺅ۔ اس کے والد نے باہر شادی کی تھی۔ یہ حضرت (دانیال عزیز) باہر ہی رہے۔اور جتنی تمیز سیکھی ہو گی اتنی ہی بات کریں گے۔ انہوں نے مشرقی ماحول کا تقدس نہیں دیکھا۔میرے سامنے بات کرتا میں سالے کو ایک تھپڑ دیتا۔ جھوٹبولتے ہیں اور بات سے مکر جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں مسئلہ ہے لوگ بھول جاتے ہیں سابق وزیراعظم کا یہ کہنا کہ لوگ نکل آئیں۔ اس پر بغاوت نہیں کہیں گے؟ بڑے بڑے قانون دان چپ بیٹھے ہیں۔ میں نہ چیف جسٹس کی حمایت کر رہا ہوں نہ نوازشریف کی مخالفت کر رہا ہوں۔ کسی سوسائٹی عدلیہ ایسی بے عزیت کیوں ہے؟ 1973ءکے قانون میں بھٹو صاحب نے بنایا۔ اس کے دیباچہ میں قرارداد مقاصد کو رکھا گیا۔ مثال کے طور پر جرمنی میں قانون ہے کہ مرد کی مرد سے شادی ہو سکتی ہے۔ پاکستان میں یہ قانون نہیں بنایا جا سکتا چاہے ساری کی ساری پارلیمنٹ الٹی ہو کر کھڑی ہو جائے۔ اس لئے کہ دیباچہ میں لکھا ہوا ہے اسلامی شعائر کے خلاف قانون سازی ہی نہیں ہو سکتی۔ اسلام ”ہوموسیکس“ کی اجازت نہیں دیتا۔ قوم لوط تباہ ہو گئی تھی۔ اس پر پتھروں کی بارش ہوئی تھی۔ اسلامی تاریخ بھری پڑی ہے۔ چوتھی صدی میں جب مسلمان افریقہ پہنچ گئے۔ مراکش، ہسپانیہ اور تیونس وغیرہ فتح ہو گئے۔ وہاں بادشاہ اپنا محل بنانا چاہتا تھا راستے میں ایک بوڑھی عورت کی جھونپڑی آ گئی۔ بادشاہ نے اسے ہٹانے کی بہت کوشش کی۔ لیکن وہ عورت اسے بیچنے کو تیار نہ ہوئی۔ بادشاہ نے بہت زور لگایا لیکن وہ نہ مانی نوازشریف صاحب بھی آپ کی طرح حکمران تھا۔ وہ تو بادشاہ، ابن بادشاہ، ابن بادشاہ تھا۔ آپ تو چنے ہوتے ہیں۔ قاضی نے بادشاہ کو بلایا اور کہا کہ آپ جھونپڑا نہیں گرا سکتے قاضی نے تاریخی فیصلہ دیا کہ یہ عورت گھر نہیں بیچے گی۔ بادشاہ اپنی دیوار کو ٹیڑھا کرے اور محل مکمل کرے۔ چیف جسٹس صاحب بہادر لوگ باتیں کرتے ہیں۔ جب آپ کہتے ہیں خدا کی قسم میں سیاست نہیں کر رہا۔ تو آپ چھوٹے چھوٹے آدمی کو دوسری دفعہ بلا لیا ہے نہال ہاشمی کا وڈا جو روز کہتا ہے کہ بغاوت کرو۔ نکلو۔ عدالتوں کے خلاف، آپ ان کو کچھ نہیں کہتے۔ آئین اور قانون میں کوئی شق نہیں کہ سابق وزیراعظم کا قتل معاف ہے۔ چورے کرے تو معاف ہے۔ نوازشریف صاحب عدالتوں سے فیصلے طلب کریں۔ لوگوں کو اکٹھا کر کے یہ پوچھیں بتاﺅ۔ بھئی بتاﺅ۔ جس کے مامے چاچے کو آپ نے نوکری دی ہے۔ وہ آپ کے خلاف ہاتھ کیسے اٹھا سکتے ہیں۔ اگر لوگ کچھ عرصہ بعد باہر آ گئے اور عدالتوں میں گھس گئے اور عدلیہ کو مارا پیٹا۔ انہوں نے پہلے بھی یہ روایت قائم کی تھی۔ کیا کوئی شخص ایسے ملک میں عزت بچا کر رہ سکتا ہے۔ سندھ میں آصف زرداری، کے پی میں عمران خان ان سے زیادہ بندے نکال سکتا ہے۔ مولانا فضل الرحمن اس سے زیادہ بندے نکال سکتا ہے۔ ہر آدمی کا دائرہ کار ہوتا ہے۔ یہاں جو دو دھرنے ایک اسلام آباد اور دوسرا لاہور میں ہوا۔ اس کے کتنے لوگ ماننے والے تھے۔ اس کا مطلب ہم کیا کریں۔ وہ گالیاں بکتے تھے۔ خادم صاحب نے جو کچھ کہا کہ ہم لوگوں کی سریوں کو مروڑتے ہیں۔ ان کو مروڑ دو۔ چیف جسٹس صاحب آپ کیوں خاموش ہیں؟؟ میں تو معمولی آدمی ہوں مجھے آپ توہین عدالت میں بلا سکتے ہیں۔ میں چیخ چیخ کر کہوں گا۔ میں نے توہین عدالت نہیں کی۔ میں نے توجہ دلائی ہے۔ عدالت توہین عدالت کرنے والے کو کچھ کیوں نہیں کہتی۔ ان کے چمچوں کڑچھوں کو تو بلاتے ہو ان کو کیوں چھوڑ دیتے ہو۔ کہتے ہیں آرمی میں ایک ”جیک برانچ“ ہوتی ہے۔ اس میں بڑے بڑے قانون دان بٹھائے جاتے ہیں۔ہمارے آرمی چیف صاحب قمر جاوید باجوہ کو چاہئے کہ وہ جیک برانچ کو ریفر کریں۔ کیا کسی ملک میں موجود قانون کے خلاف یہ کہنا کہ بغاوت کر دو۔ کیا درست ہے؟ اگر جیک برانچ کہتی ہے کہ درست ہے تو ہم مان لیں گے۔ آج نوازشریف صاحب فیصلہ کر رہے ہیں کہ کون چیئرمین سینٹ ہو گا۔ ماہر قانون خالد رانجھا سے پوچھتے ہیں۔ وزراءحضرات جو بے ہودہ زبان بولتے ہیں پھر جب ان کی پکڑ ہوتی ہے تو کہتے ہیں ہمارے بیان کو توڑا مروڑا گیا۔ چیف جسٹس صاحب نے قسم بھی کھائی تھی کہ میرے سیاسی عزائم نہیں ہیں۔ چھوٹے موٹے ورکروں کو تو بلا لیا جاتا ہے۔ عدالت نے نہال ہاشمی کو دوبارہ طلب کر لیا ہے کہ آپ نے سزا کے بعد پھر ویسا ہی عمل کیا ہے۔ چیف جسٹس کے نااہل وزیراعظم کو ایک مرتبہ بھی طلب نہیں کیا ہے؟ کیا عدالتوں کی بجائے عوام سے صحیح یا غلط کا فیصلہ لیا جانا چاہئے کیا عدالتوں کو بند کر دینا چاہئے۔ میں نے راجہ ظفر الحق کی بہت تعریف کی۔ وہ آئین کے پابند ہیں۔ ان کا سیاسی کردار بہت اچھا ہے۔ فیصلہ تو ان کی پارٹی نے کرنا ہے ۔ لیکن انہیں بنا دیتے تو بہت اچھا تھا۔ جس طرح سینٹ کے الیکشن میں سب ننگے ہو گئے ہیں اور ایم کیو ایم کی خاتون نے ڈٹ کر کہہ دیا ہے کہ ہاں میں نے پی پی پی کو ووٹ دیا ہے۔ اس طرح سے سب لوگ اگر سیاسی جماعتوں کی حدود و قیود تور کر پیسے کی بنیاد پر ووٹ دیتے ہوئے۔ سینٹ کے الیکشن میں بہت ٹوٹ پھوٹ ہوئی ہے۔ ایم کیو ایم کے لوگ اور پی ٹی آئی کے ارکان نے لیڈروں کی بات نہیں مانی۔ پنجاب میں سرور صاحب مسلم لیگ (ن) کے ووٹوں کی حمایت کی وجہ سے جیت گئے ہیں۔ سرفراز بگٹی صاحب آپ کا صوبہ تو سب سے نمبر لے گیا ہے۔ جہاں آزاد حیثیت سے اتنے ارکان کامیاب ہو گئے ہیں۔ وہاں اتنا پیسہ کہاں سے آ گیا ہے۔ ان کے پاس اربوں روپیہ کہاں سے آ گیا ہے۔میٹرو منصوبے لاہور اور اسلام آباد بہت زیادہ کامیاب ہیں۔ بے تحاشا لوگ ان پر سفر کرتے ہیں۔ ملتان میں اس کا روٹ اس طرح منتخب کیا گیا۔ لاہور میٹرو کا روٹ، گنجان ترین علاقوں سے گزرتا ہے۔ اس سہولت سے بہت زیادہ مسافر فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ لیکن ملتان میٹرو کا روٹ عجیب ہے۔ وہاں کا روٹ کاروباری نکتہ نظر سے کامیاب نہیں رہا۔ اپنے نمائندے سے پوچھ لیتے ہیں ایسا کیوں ہوا؟ ماہر قانون خالد رانجھا نے کہا ہے کہ مجھے یاد نہیں کہ نوازشریف اور مریم نواز کا کو پبلک ایڈریس توہین عدالت سے بھرا ہوا نہ ہو۔ عدالت کو انہیں بلا کر ضرور پوچھنا چاہئے۔ میں اتنا ہی کہہ سکتا ہوں کہ عدالت ان کو ضرورت سے زیادہ رعایت دے رہی ہے ایسا کیوں ہے میں نہیں جانتا۔ کوئی شخص بڑا ہو یا چھوٹا۔ اسے عدالت کی بے عزتی نہیں کرنی چاہئے۔ یہ عدالت کے وقار پر اثر انداز ہوتی ہے۔ عدالت کو سب کے ساتھ برابری کا سلوک کرنا چاہئے۔ وزیرداخلہ بلوچستان، سرفراز بگٹی نے کہا ہے کہ انتہائی دکھ سے کہنا پڑ رہا ہے کہ آپ کے جیسا کہنہ مشق صحافی بھی یہ اندازہ لگا رہا ہے کہ یہ پندرہ لوگ کہاں سے پیسہ لگا کر کامیاب ہو گئے ہیں ان میں سے چھ آزاد ہیں۔ یہاں کل گیارہ سیٹیں تھیں۔ وہ دھڑا مسلم لیگ کا جس کو آپ لوگوں نے باغیوں کا لقب دیا۔ منحرف بھی کہا۔ جس کا میں بھی عام سا رکن ہوں۔ اس کے بعد ہمارے دو رکن پشتونخواہ میپ کے ہیں۔ جو خان محمود خان کی جماعت ہے۔ ان کی پارٹی کے لوگ آزاد حیثیت سے الیکشن لڑتے ہیں۔ ہم نے تحریک چلائی تو ہم پر بغاوت کا الزام لگا۔ یہ اسمبلی توڑ دیں گے سینٹ کا الیکشن رک جائے گا۔ لیکن سینٹ کا الیکشن ہو گیا اور بلوچستان اسمبلی مدت پوری کر رہی ہے۔ چھ امیدوار جو آگے ہی اس میں ہمیں جمعیت العلمائے اسلام کی سپورٹ حاصل رہی۔ پی این پی کی سپورٹ حاصل رہی۔ ہم نے مل کر یہ الیکشن لڑا ہے۔ انوارالحق کاکڑ جیسا آدمی جو مڈل کلاس سے ہے۔ وہ بھی جیت گیا ہے۔ اس لئے آپ سمجھ سکتے ہیں کہ بلوچستان میں تو سب کچھ سنیٹر ہے۔ ریذیڈنٹ ایڈیٹر خبریں ملتان میاں غفار نے کہا ہے کہ میٹرو ملتان کا روٹ ہی غلط تھا۔ اس کے راستے میں کچہری، سرکاری دفاتر اور اہم عمارتیں آتی ہی نہیں صرف ایک یونیورسٹی آتی ہے جہاں جا کر اس کا روٹ ختم ہوتا ہے۔ جبکہ بس اسٹینڈ سے یہ شروع ہوتا ہے۔ اس کا روٹ فزیبل نہیں تھا جس کی وجہ سے یہ ناکام ہوا۔ دوسرے نمبر پر تنگ گلیاں ہیں۔ گرمیوں میں لوگ اے سی گاڑی سے نکل کر گرمی میں جانا پسند ہی نہیں کرتے۔ اب نئی فزیبلٹی بنائی گئی کہ روزانہ 96000 مسافر اس میں سفر کریں گے جبکہ یہ تعداد 5 سے6 ہزار ہے۔ یہ منصوبہ آغاز میں ہی ناکام ہو گیا۔ اس کی لاگت کا تخمینہ 22 ارب تھا لیکن یہ 87 ارب میں بنا ہے۔ 32 ارب تو لوگوں کو پراپرٹی کا ادا کیا گیا۔ ڈیل میں پٹواری، اہلکار اور دیگر لوگ آ گئے۔ پھر رجسٹریاں چیلنج ہو گئیں۔ یہ پرانا شہر ہے اکثر لوگوں کے پاس کاغذات ہی نہ تھے۔ یوسف رضا گیلانی دور میں 100 ارب روپیہ صرف پلوں پر لگایا گیا میٹرو ملتان شہباز شریف کے دور میں شروع ہوا۔ میاں شہباز شریف نے جب یہاں میٹنگ کی تو سب نے اس منصوبے کی مخالفت کی سوائے ایک آدمی کے۔ بہت ہی کم لوگ یہاں نظر آتے ہیں۔ جب کہ اکا دکا لوگ اس کے ایسوویٹر چڑھ رہے ہوتے ہیں۔

 


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain