تازہ تر ین

ہم ای سی ایل کا معاملہ آئین کیمطابق کرتے ہیں

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ضیا شاہد کے ساتھ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف صحافی وتجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے حلقوں میں یہ احساس ہے کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف کو وہ سب اپنا قائد مانتے ہیں۔ میاں شہباز شریف بھی کہہ چکے ہیں کہ وہ ان کے قائد ہیں۔ شاہد خاقان عباسی بھی کہتے ہیں کہ اصل وزیر اعظم وہ ہیں یہ ایک انا کا مسئلہ ہے۔ احسن اقبال مسلم لیگ (ن) کی ٹکٹ پر نارووال سے منتخب ہوئے تھے۔ ایسی حکومت کے جس کے سربراہ شاہد خاقان عباسی صاحب نواز شریف کو حقیقی وزیر اعظم کہتے ہوں اور شہباز شریف بھی انہیں قائد تسلیم کرتے ہوں۔ احسن اقبال صاحب آپ کی رہنمائی چاہیے آج کل یہ بحث چل نکلی ہے۔ پی پی پی کے نوید قمر صاحب نے کہا ہے کہ اگر کوئی اور لیڈر ہوتا تو وزارت داخلہ نے کب کا نام ای سی ایل پر ڈال دیا ہوتا۔ مختلف طریقوں سے اس پر عمل کر دیا جاتا۔ آپ براہ راست اور ذمہ دار کی حیثیت سے وزیر داخلہ ہیں کیا آپ کوشش کر رہے ہیں کہ نواز شریف کا نام ای سی ایل پر نہ آئے یا قانون اور ضابطوں میں تبدیلی لائی جا رہی ہے؟ کیا قانون اور ضابطے ان کیلئے بدلے جا رہے ہیں؟۔ ایک اور مسئلہ گرم ہے وہ سابق صدر پرویز مشرف کی واپسی کا ہے۔ مسلم لیگ (ن) اور دیگر جماعتوں کی طرف سے یہ بھی پوچھا جاتا ہے کہ آخر پرویز مشرف باہر کیسے چلے گئے۔ اب ان کے گرد عدالتی گھیرا تنگ ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ سکیورٹی فراہم کی جائے تو واپس آنے کو تیار ہوں۔ حکومت کی اصل پوزیشن کیا ہے بطور وزیر داخلہ مشرف کے باہر جانے اور اب واپس آنے کی پیشکش کو کس طرح سے لیتے ہیں۔ خاص طور پر عدالت کی طرف سے جو اقدامات سامنے آئے ہیں ان کو کس نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں۔ پرویز مشرف کے بارے میں سیاسی حلقوں میں یہ رائے موجود ہے کہ ان کو فوج کے پریشر کی وجہ سے باہر جانے دیا گیا لیکن پچھلے دنوں آرمی چیف نے ایک بریفنگ کیلئے 30-40 اخبارنویسوں کو بلایا میں خود بھی شامل تھا۔ ان سے سوال کیا گیا کہ پرویز مشرف کیسے باہر چلے گئے۔ قمر جاوید باجوہ صاحب کا کہنا تھا اس معاملے کا ہم سے کوئی تعلق نہیں ہے جبکہ سیاسی حلقوں میں یہ بات عام ہے کہ فوج بڑی صفائی سے بچا کر انہیں باہر لے گئی پہلے اپنے ہی ہسپتال میں انہیں داخل کیا گیا آپ فرمائیں صحیح اور اصل صورتحال کیا تھی؟ آپکی حکومت مسلم لیگ (ن) نے جہاں وزیر اعظم آپ کا ہے کابینہ آپ کی ہے اس جماعت اور حکومت نے فیصلہ کیا۔ علی جہانگیر صاحب امریکہ میں پاکستان کے سفیر ہونگے۔ ان پر آج ایک بھاری رقم کا الزام لگایا گیا ہے۔ 40 یا 400 ارب روپیہ؟؟ کیا آپ نے اس کی تحقیق نہیں کی تھی۔ آرمی چیف سے یہ سوال بھی کیا گیا تھا کہ کیا ایجنسیاں ایسے معاملات کی دیکھ بھال نہیں کرتیں جہاں اتنے حساس ملک میں سفارتکاری کیلئے کس کو منتخب کیا جاتا ہے۔ آپ سے بہتر کون جا سکتا ہے کہ اس قسم کی سول ایجنسیاں آپ کے ماتحت کام کرتی ہیں۔ اگر آپ کے پاس اطلاعات تھیں انہیں سفارتکار کیوں مقرر کیا گیا۔ اگر اطلاعات نہیں تھیں اور الزامات غلط تھے کہ آج نیب کی طرف سے اتنی بھاری رقم انکی طرف کیوں نکال دی گئی۔ محترم راجہ ظفر الحق نے ایک رپورٹ بنائی تھی جب بھی ختم نبوت پر کوئی بات ہوتی ہے یہ کہا جاتا ہے کہ وہ رپورٹ منظر عام پر نہیں آئی اس پر آپ تو بخوبی باخبر ہونگے۔ انکوائری کی کوئی رپورٹ اگر بنتی تھی تو کیا حرج کہ وہ سامنے آ جائے جو بندہ حکومت میں ہوتا ہے وہ شیر ہوتا ہے ان کی پارٹی کا نشان بھی شیر ہے شیر انڈہ دے یا بچے کون پوچھ سکتا ہے۔ نواز شریف اور مریم نواز پر کیسز ہیں ۔ کیپٹن صفدر یا نواز شریف کے دونوں صاحبزادوں حسن اور حسین پر ساری دنیا میں بھی اس طرح ہوتا ہے جب کیسز چلتے ہیں تو ان سے پوچھا جاتا ہے۔ ”گلٹی اور نان گلٹی؟“ برطانوی قانون جو ہمیں وراثت میں ملا کیپٹن کوڈ جو ہمیں ملا ہمارا حق ہے کہ ہم کہہ دیں گے (لف گلٹی) اگر وہ سارے کہہ رہے ہیں کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ غلط ہے تو انہیں حق حاصل ہے کہ وہ یہ کہیں ”نان گلٹی“۔ بطور تجزیہ کار میں انکی بات کو قبول نہیں کرتا۔ چارجز جب تک عدالت میں ثابت نہ ہو جائیں کہ وہ الزامات درست ہیں ابھی تو ایک فریق استغاثہ کی طرف سے ہوتا ہے وہ الزام لگاتا ہے کہ آپ پر یہ الزام ہیں پروسی کیوشن کا فرض ہوتا ہے کہ وہ ان الزامات کو ثابت کرے۔ کتاب یہ کہتی ہے کہ جب تک عدالت مجاز یہ ثابت نہ کر دے کہ نواز شریف کے خلاف الزامات درست ہیں۔ تحقیق کے بعد ثابت ہوا کہ وہ قصوروار ہیں۔ میاں نواز شریف ہوں یا کوئی اور ملزم کا کام ہے یہ کہنا کہ الزامات درست نہیں ملزموں کے ساتھ انکی پارٹیوں کے لوگوں کو ہمدردی ہے۔ اس ملک میں دونورں پارٹیوں کو جمع کر لیا جائے۔ مسلم لیگ (ن) کے مقابلے میں پی پی پی کو اور تحریک انصاف کو تو اسمبلیوں کے اندر بھی باہر بھی اینٹی گروپ اور پرو نواز شریف گروپ ایک دوسروں کے خلاف صف آراءہیں تقریباً برابر تھیں۔ قانونی ماہرین کے مطابق صدر مملکت آئین کے حساب سے سزا معاف کر سکتے ہیں لیکن نااہلیت کو معاف نہیں کیا جا سکتا۔ رفیق تارڑ صاحب نے نواز شریف کی ہائی جیکنگ کی سزا معاف کر دی تھی۔ جسٹس (ر) ناصرہ جاوید کیا صدر مملکت قانون کے تحت دی جانے والی سزا کو معاف کر سکتے ہیں ہم نے 9 دن پہلے اسی میز پر ایک پروگرام کیا تھا۔ نامور قانون دانوں نے یہ کہاتھا کہ سزا تو معاف کی جا سکتی ہے اسکی مثالیں موجود ہیں لکین نااہلی ختم نہیں ہو سکتی۔ جرمانے یا قید کی سزا معاف ہو سکتی ہے تاہم آپ لیگل پوزیشن کی وضاحت فرما دیں؟ نواز شریف جب سعودی عرب تشریف لے گئے تھے اس وقت کے صدر رفیق تارڑ نے ہائی جیکنگ کے سلسلے میں انکی سزا معاف کر دی تھی اور پڑھا ہے کہ آصف زرداری نے بطور صدر، احمد ریاض شیخ جو ایف آئی اے کے ڈائریکٹر تھے انکی سزا عدالت نے معاف کر دی تھی مثالیں تو موجود ہیں لیکن پچھلے ساڑھے چار سالوں میں ابھی تک انہوں نے کوئی سزا معاف نہیں کی۔ آپ سمجھتی ہیں کہ اگر صدر پریشر کی وجہ سے مکمل حالات کے پیش نظر اسے معاف کر سکتے ہیں یا کوئی ”باﺅنس بیک“ تو نہیں ہو گا۔ آئین میں یہ کیوں درج کیا گیا اسلام میں اس قسم کی سزا کی معافی کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ پاکستان کے آئین کے دیباچے میں قرارداد مقاصد کو شامل کیا گیا ہے۔ اسلام کے خلاف کوئی ترمیم یا قانون سازی نہیں ہو گی۔ اسلامی تاریخ میں کس خلیفہ یا سربراہ مملکت نے دی جانے والی سزاﺅں کو معاف نہیں کیا تھا ہمارے آئین میں اسے کیوں قبول کیا جاتا ہے۔ زیادتی کا جو واقعہ گزشتہ روز قصور کے گردونواح میں ہوا۔ بتایا جاتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے صدر بتائے جاتے ہیں۔ ان کی تصویر کے ساتھ نواز شریف اور شہباز شریف کی تصاویر ہیں۔ ان صاحب کے والد صاحب کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ 65 سال عمر ہے لیکن انہوںنے 12 سال کی بچی جسے کام کاج کیلئے گھر میں رکھا تھا اسے زیادتی کا نشانہ بنایا گیا یہ مقدمہ درج کروانے لوگ گئے ملزمان دو تین دن پولیس کی دست ترس میں نہ آ سکے کیونکہ تگڑے آدمی تھے مسلم لیگ ن کے مقامی صدر تھے۔ وہ رانا ایاز ایم این اے فرسٹ کزن ہیں رانا اقبال صاحب کے جو آج کل پنجاب اسمبلی کے سپیکر ہیں۔ اپنے نمائندے قصور سے پوچھتے ہیں کہ کل تک کچھ کہہ رہے تھے اب کہتے ہیں کہ غلط فہمی سے ہم نے لیگی کارکنوں کا نام دے دیا۔ کیا عوامی حلقوں میں اس بات کو تسلیم کیا جا رہا ہے کہ ریمنڈ ڈیوس کے کیس میں خون بہا دیا گیا تھا۔ راتوں رات وہ فیملی ویزے لگ کر پاکستان سے غائب بھی ہو گئی۔ پیسے بھی وصول کر لیے کہ اس طرح کراچی کے واقعہ میں خون بہا ادا کر دیا گیا تھا۔ ایک امیر فیملی کے چشم وچراغ کو بچا لیا گیا تھا۔ ہمارے ہائیکورٹس نے خون بہا کے باوجود اس رہائی کو قبول نہیں کیا انکی گرفتاری کا حکم دے دیا گیا۔ قصور کا واقعہ کس طرح پیش آیا یا بڑی رقم دے دی گئی ہے اور مقدمہ واپس لے لیا گیا ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال نے کہا ہے کہ محترم ضیا صاحب اصل بات یہ ہے کہ ہم چاہتے ہیں کہ ہم کام کو آئین اور قانون کے دائرے میں کیا جائے ہم شخصیات یا وابستگی کے ساتھ کام نہیں کرتے۔ ڈاکٹر عاصم، راجہ پرویز اشرف کو قانونی ریلیف لینے سے نہیں روکا گیا۔ چاہتے تو پیچیدگیاں پیدا کر سکتے تھے۔ اگست 2016ءمیں سپریم کورٹ نے ایک فیصلہ دیا تھا جس میں یہ کہا تھا کہ جہاں حکومت پاکستان کا نام درج ہے اس کا مطلب وزیر اعظم کی تشہیر نہیں بلکہ کابینہ ہے اس کے بعد سے تمام ای سی ایل کے کیسز کابینہ کو بھیجے جانے چاہیے تھے منظوری کیلئے اس قانون میں درج ہے کہ یہ حکومت پاکستان کی اجازت کے بعد ہی نام لسٹ کیا جائے گا لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔ یہ سلسلہ پرانے ڈگر پر چلتا رہا ہم نے جائزہ لیا اور سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق کابینہ کو منظوری کیلئے بھیج دیئے ہیں۔ عدالت نے پرویز مشرف کے خلاف کارروائی کا جو حکم دیا تھا ہم نے من وعن تسلیم کیا فوراً وزارت داخلہ کو لکھ دیا کہ اگر وہ پیش نہیں ہوتے تو انکا شناختی کارڈ اور پاسپورٹ فوری منسوخ کر دیا جائے۔ ان کے ریڈ وارنٹ بھی جاری کیے جائیں لیکن عدالت کے حکم میں یہ کہا تھا کہ اگر وہ ایک ہفتے کے اندر عدالت میں پیش ہونے کی رضا مندی دے دیں تو پھر ان کو مہلت دی جائے ہمیں ان کی طرف سے نوٹس آ گیا ہے کہ وہ عدالت میں پیش ہونے کیلئے آنا چاہتے ہیں ہم نے فی الوقت اس کارروائی کو معطل کیا ہے اگر وہ پیش ہوتے ہیں تو ان کے خلاف کارروائی نہیں کی جائے گی ورنہ ان کا شناختی کارڈ اور پاسپورٹ ضبط کر لیا جائے گا اور ریڈ وارنٹ جاری کر دیئے جائیں گے۔ پرویز مشرف کو باہر جانے کی اجازت میرے وزارت سنبھالنے سے پہلے کی ہے میں اس سارے معاملے سے باخبر نہیں لیکن اب میں اتنا کہہ سکتا ہوں کہ ہم قانون کے مطابق چل رہے ہیں ہماری نظر میں جنرل مشرف اور عام شہری میں کوئی فرق نہیں۔ اگر پاکستان کے سابق وزیر اعظم نواز شریف عدالت میں روزانہ پیشیاں دے سکتے ہیں تو جنرل (ر) پرویز مشرف جو سابق صدر ہیں اور اب ایک سیاسی پارٹی کے سربراہ ہیں وہ کیوں عدالت میں پیش نہیں ہوتے انہیں بھی پاکستانی آئین اور قانون کا پاس کرناچاہیے اور اس طرح پیش ہونا چاہیے۔ تاکہ قانونی تقاضے پورے کیے جا سکیں۔ میرے اوپر کوئی پریشر نہیں آیا کہ مشرف کے مسئلہ کو کس طرح ڈیل کرنا چاہیے لہٰذا میں تو کسی قسم کے پریشر کو نہیں دیکھتا۔ سفیروں کی تقرری میں وزارت داخلہ کا کوئی رول نہیں ہوتا۔ وزارت خارجہ کے فرائض میں شامل ہے۔ خواجہ آصف اس پر بہتر تبصرہ کر سکیں گے۔ علی جہانگیر کے بارے میں کوئی شکایت میرے علم میں نہیں تھی کہ یہ پوزیشن ان کو بتائے لہٰذا میں تبصرہ کرنے سے قاصر ہوں۔ راجہ ظفر الحق کی رپورٹ پارٹی کاڈاکو مینٹ تھا وہ پارٹی کے صدر کو پیش کیا گیا تھا لیکن اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس صدیقی صاحب نے بھی اس کی کاپی طلب کی تھی ہم نے وہ عدالت میں جمع کروا دی ہے لہٰذا اس کی کسی بات کو مختص نہیں رکھا گیا۔ مقدمہ اسلام آباد ہائکیورٹ میں چل رہا تھا۔ اس کے حوالے سے رپورٹ کاپی عدالت میں جمع کروا دی گئی ہے۔ میرا خیال ہے کہ عدالت نے بھی اس میں کوئی قابل اعتراض چیز نہیں دیکھی۔ ماہر قانون جسٹس (ر) ناصرہ جاوید نے کہا ہے کہ ماہرین نے آپ کو درست رائے دی ہے نااہل بٹ نہیں سکتی سزا کی معافی کا اختیار ان کے پاس موجود ہے لیکن نااہل کو ہٹایا نہیں جا سکتا۔ اگر وہ نظریاتی کی اپیل ہو تو ممکن ہو سکتا ہے لیکن وہ تو نظر نہیں آ رہی ۔ فیکٹس سیٹ کی سائیڈ نہیں کیے جا سکتے سزا تو معاف کی جا سکتی ہے۔ آئین میں اسلامی شعار کو مولوی ضیاءالحق نے اجاگر کیا تھا اس وقت اس بات کو ہٹایا جا سکتا تھا اب بھی ہٹایا جا سکتا ہے۔ہر چیز عدالت میں آرٹیکل 183-184 کے تحت جاتی ہے اگر یہ شقیں نکال دی جائیں جو اسلامی نظریات کے خلاف ہیں یا شریعت کورٹ میں چلے جائیں وہاں تو پہلے ہی اختیارات موجود ہیں جو چیزیں اسلامی قوانین کے خلاف ہے وہ اسے کہہ سکتے ہیں کہ یہ غلط ہے۔ نمائندہ خبریں قصور جاوید ملک نے کہا ہے کہ قصور کے زیادتی کیس میں ملزم یا اگر امیر آدمی ہے اس کا بیٹا کو ٹ رادھا کشن کا مسلم لیگ ن کا صدر ہے ممبر ضلع کونسل ہے اور تمام اثر ورسوخ والوں کے ساتھ رابطے میں ہے۔ کل کورٹ رادھا کشن میں نوجوانوں نے ایک احتجاجی جلوس نکالا مسلم لیگ ن کے صدر اور اس کے والد کے خلاف جس نے مبینہ طور پر بچی کے ساتھ زیادتی کی۔ پولیس نے روایتی انداز میں اسے ٹال دیا جس طرح حسین آباد میں 288 بچوں کے ساتھ زیادتی ہوئی ویڈیوز بنائی گئیں ان کے تمام ملزمان کو پولیس نے ایک ایک کر کے رہا کرا لیا۔ زینب کیس میں بھی 12 بچیوں کے ساتھ زیادتی ہوئی انہوں نے 126 بندے مار دیئے تھے۔

 


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain