لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ زیراعظم چیف جسٹس سے ملنے شاید اس لئے گئے کہ انہوں نے سوچا ہو گا کہ کافی اوور جا رہے ہیں۔ اب وزیراعظم لاہور آتے ہیں تو ان کا پروٹوکول بھی تبدیل ہو گیا ہے۔ ایک زمانے میں وزیراعلیٰ وزیراعظم سے ملنے جایا کرتے تھے لیکن شاہد خاقان عباسی نے خود ہی وزارت عظمیٰ کا لیول اس قدر گرا دیا ہے کہ وہ وزیراعلیٰ سے ملنے جاتے ہیں۔ اٹھتے بیٹھتے حقیقی قائد نوازشریف ہیں کہ گن گاتے رہتے ہیں۔ ملاقات کے 2 ہی طریقے تھے یا تو ان کو طلب کیا جاتا لہٰدا وہ خود ہی چلے گئے، اگر طلب کیا جاتا تو چیف جسٹس ثاقب نثار کو شاید سبکی محسوس ہوتی ان کے پاس پہلے ہی بہت سارے کیسز ہیں۔ شاہد خاقان سیانے ہیں۔ بیچ میں سے کوئی راستہ نکالنے کی کوشش کریں گے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ شہباز شریف نے جو جرنیل، جج و سیاستدان کے درمیان ملاقاتیں ہونے کا نیا فارمولا دیا ہے اس حوالے سے وزیراعظم نے چیف جسٹس سے ملاقات کی ہو۔ سیاستدان وو چیف جسٹس تو مل گئے ہو سکتا ہے کہ وہ اس کوشش میں بھی کامیاب ہو جائیں کہ کسی روز آرمی چیف کو بھی چائے پینے کے لئے شریک کر لیں۔ مجھے یہ نہیں پتتہ کہ یہ بارش کا پہلا قطرہ ہوں گے بعض لوگ کہتے ہیں آخری قطرہ ہوں گے۔ آرمی چیف و چیف جسٹس سیاستدان نہیں ہیں لہٰذا لگتا نہیں کہ یہ ملاقاتیں دیر تک چلیں۔ ملاقاتوں کے حوالے سے ایک بڑا خوبصورت مصرہ ہے کہ: ”اور کھل جائیں گے دو چار ملاقاتوں میں“ اگر شاہد خاقان عباسی کی واقعی چیف جسٹس سے ملاقاتیں تسلسل پکڑ گئیں تو ہر فیصلے سے پہلے تبادلہ خیال ہو گا۔ اگر چیف جسٹس نے ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رکھا تو پھر ان کے ساتھ والی کرسی پر کوئی اور جسٹس نہیں بلکہ ایک جانب شاہد خاقان عباسی اور دوسری طرف قمر باجوہ صاحب سپریم کورٹ میں بیٹھے فیصلے کر رہے ہوں گے۔ میموگیٹ سکینڈل بارے نوازشریف کا اپنی غلطی تسلیم کرنے کے بیان پر انہوں نے ایک شعر سنایا۔
”وہ مجبوریوں پر میری مسکرائے
یہاں تک تو پہنچے، یہاں تک تو آئے“
لگتا ہے کہ نوازشریف کو مجبوری کچھ زیادہ ہی آن پڑی ہے لہٰذا وہ یہاں تک تو آئے کہ مجھ سے غلطی ہو گئی ہے ابھی کچھ اور غلطیوں کے بارے میں بھی انہوں نے معذرت کرنی ہے۔ سیاسی شعور رکھنے والا ایک لسٹ بنا سکتا ہے کہ آئندہ 3 مہینوں میں نوازشریف کون کون سی غلطیوں کی معافی مانگنی ہے۔ میموگیٹ سکینڈل یہ تھا کہ حسین حقانی نے ایک چٹ لکھی تھی اور خفیہ طور پر امریکی صدر تک پہنچائی تھی۔ چٹ پر کسی کا نام نہیں لکھا ہوا تھا۔ اس میں لکھا تھا کہ ”پاکستان میں فوج سیاستدانوں کو بڑا تنگ کرتی ہے لہٰذا افواج پاکستان کے سربراہان امریکہ کی کلیئرنس یعنی ٹھپے سے مقرر ہوں۔ اگر ایسا ہو جائے تو مسئلہ ہی حل ہوجائے گا۔“ فوج نے اس کو بڑی سنجیدگی سے لیا پھر یہ کیس چلا۔ اس کیس میں سارے ننگے ہیں۔ اس وقت نوازشریف اپوزیشن لیڈر تھے، کوٹ پہن کر فوج کی حمایت میں چلے گئے آصف زرداری پرالزام لگایا کہ سب کچھ یہ کروا رہے ہیں۔ آج نوامشریف فوجی قیادت کے برعکس کھڑے ہیں لہٰذا انہوں نے تسلیم کر لیا کہ میرا کوٹ پہن کر جانا ٹھیک نہیں تھا۔ ایک طرف معذرت کی دوسرے لفظوں میں اعتراف کیا کہ حسین حقانی ٹھیک کر رہا تھا۔ حسین حقانی کی بیگم فرح اصفہانی کو پہلے ایم این اے بنایا پھر انٹرنیشنل میڈیا کا انچارج بنایا گیا اور ان کا دفتر بھی ایوان صدر میں ہونا تھا جہاں زرداری بیٹھتے تھے۔ حقانی جب فرح اصفہانی سے شادی کی تھی تو وہ خاتون بہت پڑھی لکھی، مشہور و مالدار تھیں جبکہ ناہید خان مڈل کلاس سے تھیں اور وفاداریوں کے سبب بے نظیر کی مشیر بنی تھیں، ان کی چھوٹی بہن سے بھی حقانی نے شادی کی تھی۔ حقانی کو اگر ٹرمپ کی بیٹی سے شادی کا موقع مل جائے تووہ فرح اصفہانی کی شکل بھی نہ دیکھیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پنجاب حکومت کی ایک شاندار تاریخ ہے جب کسانوں کی بڑی تعاد لاہور پہنچ کر دھرنا دے دیتی تھی تب ان کو پتہ چلتا تھا۔ ایک بار کسان یونین کے رہنما محمد انور سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ ہم ملتان سے چل پڑتے ہیں راستے میں کوئی پوچھتا ہی نہیں۔ جب لاہور پہنچ کر سڑک بند کر دیتے ہیں تو رانا ثناءکا فون آتا تھا کہ دو آدمی آ جاﺅ بات کر لیتے ہیں اور کچھ بات مان بھی لی جاتی تھی۔ ایسا ہی کرنا ہے تو پہلے ہی مان جاﺅ۔ نابینا افراد پربھی 7 کلب روڈ کی طرف سے جانے پر تشدد کیا گیا، ان بے چاروں کی تو آنکھیں بھی نہیں تھیں ادھر تو آنکھوں والوں کو بھی نہیں جانے دیا جاتا۔ اب مال روڈ پر لیڈی ہیلتھ ورکرز دھرنا دیئے بیٹھی ہیں، مانا وزیراعلیٰ پنجاب یہاں نہیں لیکن ولی عہد سلطنت حمزہ شہباز ہی اگر ان سے بات کر لیتے تو بے چاری خاتون نہ مرتی۔ ہر حکومت میں دیکھا کہ لوگ احتجاج کرتے کرتے مر جاتے ہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا، کوئی مقدمہ نہیں ہوتا، کبھی کسی حکومت کو انصاف کی نظر سے بات چیت کرتے نہیں دیکھا۔ شہباز شریف کو واقعی تکلیف ہے۔ وہ علاج کے لئے لندن جاتے رہتے ہیں۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ وہ وائٹ سیل تبدیل کراتے ہیں۔ وہ اخراجات برداشت کر سکتے ہیں چلے جاتے ہیں جو نہیں کر سکتا وہ یہیں مر جاتا ہے۔ شہباز شریف کی صحت یابی کے لئے دُعا گو ہوں لیکن ان سے گزارش ہے 3 دن سے مال روڈ پر احتجاج کے باعث ملحقہ سڑکیں بند ہیں، وہاں خواتین دھرنا دیئے بیٹھی ہیں۔ گواہی دیتا ہوں کہ شریف برادران کے والد محمد شریف انتہائی شریف، نیک و مذہبی خیال رکھتے تھے۔ میری اہلیہ بھی ان کے گھر مذہبی تقاریب میں جاتی تھیں۔ شریف فیملی شروع سے ہی مشہور تھی کہ یہ ذاتی طور پر رحم دل، نیک و مذہبی لوگ ہیں لیکن کیا شہباز شریف کو لندن میں خبر نہیں کہ لاہور مال روڈ پر خواتین بیٹھی ہیں۔ دو دو وزیر صحت ہیں انہوں نے بھی بات کرنا پسند نہیں کیا۔ حکمران بھول گئے ہیں کہ انہیں بھی جواب دینا ہے۔ دونوں ہاتھ جوڑ کر وزیراعلیٰ پنجاب سے گزارش کرتا ہوں کہ مظاہروں، جلسے و جلوسوں کے مسائل کا حل نکالو۔ انہوں نے کہا کہ نوازشریف بھی اور جو ان پر مقدمات چلا رہے ہیں وہ بھی جواب دہ ہیں، سب نے ایک دن مرنا ہے۔ 50 سال میں متعدد واقعات سنا سکتا ہوں، بڑے بڑے دب دبا رکھنے والے لوگ بھی نہیں رہے۔ ایک مثال دیتا ہوں کہ امیرمحمد خان جو مغربی پاکستان کے گورنر ہوا کرتے تھے اس وقت ون یونٹ ہوتا تھا۔ بڑے بڑے افسروں کی طلبی ہوتی تھی۔ مجھے ایک دن ایک بوڑھے افسر نے بتایا کہ ان کی پتلون خراب ہو گئی تھی جب انہیں پتہ چلا کہ ان کو اندر بلا رہے ہیں اور بہت ناراض ہو رہے ہیں۔ تاریخ بڑی ظالم، قدرت کا نظام اس سے زیادہ خوفناک ہے۔ امیر محمد خان کو نواب آف کالا باغ کے سگے بیٹے نے ان کے بیڈ روم میں گھس کر گولیاں ماری تھیں۔ حکمرانوں، بیوروکریٹس، پولیس سب سے کہتا ہوں کہ اللہ سے ڈریں۔ اسلام کے ابتدائی دنوں میں لوگ حکمرانی لینے سے ڈرتے تھے کہ انہیں جواب بھی دینا پڑے گا۔ حضرت عمرؓ کہا کرتے تھے کہ اگر دریا کنارے ایک کتا بھی مر گیا تو مجھ سے پوچھ گچھ ہو گی۔ افسوس آج کے حکمرانوں کو معلوم نہیں کیا ہو گیا ہے۔