تازہ تر ین

ن لیگ چھوڑنے والوں کی رفتار یہی رہی تو شہباز شریف کی مشکلات بڑھیں گی

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پرمشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ قانونی چارہ جوئی کا ہر شخص کو حق ہوتا ہے نواز شریف صاحب کو حق حاصل ہے کہ قانون جو بھی راستہ دیتا ہے اسے اختیار کریں ظاہر ہے اس کے بارے میں جو باتیں سامنے آ چکی ہیں ان کے مطابق محترم نوازشریف سپریم جوڈیشل کونسل میں ان کے خلاف کیس کرنا چاہتے ہیں اس کا جواب تو کوئی قانون دان ہی رائے دے سکتا ہے کہ اس کیس کے کتنے فیصد چانس نواز شریف کی کامیابی کے اور کتنے فیصد امکانات چیئرمین نیب جسٹس جاوید اقبال کے ہیں۔ لیکن یہ جب تک یہ کیس دائر نہیں ہوتا ہے جس کا ایک طویل طریق کار ہے ایک دن میں نہ تو کیس دائر ہو سکتا ہے نہ ایک دن میں سپریم جوڈیشل کونسل فیصلہ کر سکتی ہے تو ہمیں انتظار کرنا چاہئے کہ وہ کیس کب دائر کرتے ہیں اور کب فیصلہ ہوتا ہے۔ جہاں تک میاں نوازشریف کے اس موقف کا تعلق ہے کہ چیئرمین معافی مانگیں میں نہیں سمجھتا کہ کبھی عدالتیں بھی معافی مانگتی ہیں۔ نیب کا رول تحقیقات کرنے کا رول ہے اور اگر کسی کو بھی اس پر اعتراض ہے تو یقینا قانونی چارہ جوئی کر سکتا ہے اس سے بڑی عدالت میں کر سکتا ہے ظاہر ہے اس سے بڑی عدالت سپریم کورٹ اور اس سے بڑی عدالت سپریم جوڈیشل کونسل ہے جس میں میاں صاحب جا سکتے ہیں لیکن میں نہیں سمجھتا اور نہ ہی میں نے آج تک زندگی میں سنا ہے کہ کسی بھی ایسے شخص سے جس کو شکایت ہو لیکن جس پر دوسرے بعض مقدمات چل رہے ہوں اور اگر وہ یہ کہے کہ عدالت استعفیٰ دے دے تو کہیں عدالتوں نے بھی استعفے دیئے ہیں۔ جس شخص کو سزا ملنے کا امکان ہوتا ہے یا اس کی امید ہوتی ہے تو خطرہ ہوتا ہے جب سے دنیا بنی ہے عدالتی نظام آیا ہے ساری دنیا سے یہی باتیں ہوتی ہیں جو ملزم ہوتا ہے وہ کہتا ہے کہ میں عدالت پر اعتبار نہیں کرتا وہ اس پر مختلف قسم کے اعتراضات لگا دیتا ہے جب فیصلہ ہوتا ہے کہ خوب کھچائی ہوتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود ہم نے دیکھا ہے کہ بہرحال جو فیصلہ ہوتا ہے اس کو جب تک قانون یہ کہتا ہے آئین یہ کہتا ہے کہ جب تک عدالت کے کسی فیصلے کو اس سے پیشتر عدالت میں چیلنج کر کے ختم نہ کروایا جائے وہ فیصلہ موجود رہتا ہے۔ لہٰذا میں سمجھتا ہوں کہ میاں صاحب جو بھی کہیں جتنے بھی لوگوں کے کیس ہوتے ہیں وہ اپنا نقطہ نظر رکھتے ہیں۔ آزادی ہے۔ شاہد خاقان عباسی ہمیشہ کہتے رہے ہیں کہ ان کا تعلق ن لیگ سے ہے دوسرا یہ کہ جب وہ نوازشریف وزیراعظم تھے تو کابینہ کے رکن اور گیس کے محکمہ کے وزیر تھے۔ جب نوازشریف صاحب نااہل ہوئے تو انہوں نے انہیں وزیراعظم نامزدد کر دیا اس وقت تو وہ مسلم لیگ ن کے صدر تھے شاہد خاقان عباسی اب تک کہتے ہیں کہ جب عدالت نے ان کو نااہل کر دیا اور مسلم لیگ کے قائد کے طور پر ان کی تقرری کو ختم کر دیا ہے لیکن میرے قائد نوازشریف ہی ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی بات میں تو کوئی فرق نہیں۔ میاں نوازشریف کا کہنا ہے کہ آمروں کے دور میں اتنا کچھ نہیں ہوا آمروں کے دور میں بہت کچھ ہوتا رہا ہے ضیاءالحق کے دور میں سابق وزیراعظم پر قتل کا ایک مقدمہ چلا اس پر قانونی بچت کرتے ہیں کچھ کہتے ہیں سزا ٹھیک تھی کچھ کہتے ہیں سزا ٹھیک نہیں ہوئی۔ لیکن جیسے میں پہلے بھی کہہ رہا تھا لوگوں کے کہنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا عدالتوں سے جو سزا ہوتی ہے اس پر عملدرآمد ہوا۔ فی الحال وہ ملزم ہیں۔ فی الحال تو ان کو اپنے مقدمات کے سلسلے میں پیش ہونا پڑے گا۔ کسی کو کتنا اعتراض کیا ہو لیکن عملی طور پر ضیا دور میں سپریم کورٹ کے ججوں نے سزا سنائی کہ بھٹو صاحب کو پھانسی دے دی جائے تو معاف کیجئے اس ملک میں سابق وزیراعظم کو عدالت کے حکم پر پھانسی دے دی گئی تھی۔ لہٰذا میں نہیں سمجھتا کہ کسی کے اعتراض کرنے سے کیا فرق پڑتا ہے۔ عدالتیں جو سزا دیتی ہیں اس پر عملدرآمد ہوتا ہے۔ یہ بات سب کو معلوم ہے کہ اخبار پڑھنے والے ٹی وی دیکھنے والے سب لوگوں کو علم ہے کہ محترم شہباز صاحب جو آج کل پنجاب کے وزیراعلیٰ ہیں ساتھ ساتھ نواز شریف صاحب نے ہی انہیں پارٹی کا صدر بنایا ہے وہ ہمیشہ سے چودھری نثار کو سپورٹ کرتے آ رہے ہیں آج بھی کر رہے ہیں اس سے یہ ظاہر ہو رہا ہے کہ عملاً نوازشریف کے راستے سے شہباز شریف کافی ہٹتے جا رہے ہیں۔ کیونکہ نوازشریف چودھری نثارکو کسی قیمت پر معاف کرنے کو تیار نہیں۔ اور شہباز شریف نے ڈٹ کر کہہ دیا ہے کہ میں ان کو ٹکٹ دوں گا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں بھائیوں کے درمیان سیاسی اختلاف بھی شروع ہو گیا ہے۔ چودھری نثار کو ٹکٹ مل گیا شہباز شریف نے پھر سینے سے لگا دیا۔ باوجود اس کے کہ نوازشریف اور ان کی صاحبزادی کے بارے میں تو انہوں نے سیاسی ایشو پر بہت سخت زبان استعمال کی۔ اب اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ شہباز شریف کو چودھری نثار کا ساتھ دیتے ہیں۔ بظاہر تو نظر ااتا ہے کہ اس معاملے کی بنیاد پر دونوں بھائیوں میں اختلاف ہو سکتا ہے۔ چودھری نثار نے جو سخت سست باتیں کی تھیں اس کے علاوہ جن باتوں پر اختلاف ہوا تھا شہباز شریف کا اشارہ ان کی طرف ہے اس میں مریم نواز کے خلاف ان کی سیاسی مخالفت بھی ہے جو نوازشریف، ان کے سیکرٹری فواد حسن فواد دیگر لوگوں نے جو کچھ کہا تھا اس پر بھی ان کو اعتراضات ہیں، چودھری نثار کے اعتراضات اس پر بھی کافی زیادہ تھے کہ ڈان لیکس کے سلسلے میں بھی تھے۔ 22 ارکان صوبائی، قومی نے ن لیگ کو خیر باد کہہ دیا مسلم لیگ ن ایک زمانے میں ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کی جماعت گنی جاتی تھی۔ مختلف گروپ جب سے نوازشریف نے بطور وزیراعظم بھی اور وزارت عظمیٰ سے ہٹنے کے بعد عدلیہ اور فوج کو نشانہ بنایا ہے اور ان کی صاحبزادی نے بھی نشانہ بنایا ہے اس وقت سے محسوس ہو رہا تھا کہ ان کی جماعت پر گرفت ختم ہو جائے گی۔ جس فیکٹر کی بنیاد پر یہ لوگ اکٹھے ہوئے تھے وہ ایک ایک کر کے ختم ہوتے جا رہے ہیں اب ان کو ان کی جو حقیقی سطح پر آنا پڑے گا۔ پہلے جنوبی پنجاب میں بغاوت ہوئی۔ اور وہاں احساس محرومی کی وجہ سے 21 لوگ جو ان کی پارٹی سے نکل گئے۔ پھر اکا دکا مختلف لوگ ختم ہوتے گئے اور ایک اور بڑا دھچکا ہے اگر 22,21 لوگ مسلم لیگ ن سے الگ ہو جاتے ہیں۔ 20,15 الگ الگ بھی ساتھ چھوڑ گئے تھے تو مسلم لیگ ن کا ڈھانچہ تو بہت بری طرح متاثر ہو گا۔ سارا بوجھ شہباز شریف پر پڑ جائے گا۔ کیا وہ اتنی جلدی نئے لوگوں کو سامنے لا سکتے ہیں۔ جو لوگ گئے ہیں ان کو الیکشن کی اصطلاح میں ’الیکٹ ایبل“ کہتے ہیں یہ وہ لوگ گئے ہیں جو اپنے حلقوں میں اثرورسوخ رکھتے تھے کہ پارٹی کا تڑکا لگ جاتا تھا اور یہ الیکشن جیت جاتے تھے۔
بلوچستان اسمبلی سے بھی 4,3 ارکان نون لیگ کو چھوڑ کر بلوچستان پارٹی میں شامل ہو گئے۔ پنجاب سے باہر بھی تبدیلی کا عمل شروع ہے۔ ہر الیکشن سے قبل سیاسی جماعتوں میں زبردستی کی اکثریت بنائی جاتی ہے، پرندے اڑتے ہیں اب بھی یہی ہو رہا ہے۔ نوازشریف کا یہ کہنا کہ ”کارکن توڑے جا رہے ہیں“ درست نہیں، کوئی ثبوت ہے تو سامنے لائیں۔ وہ الزام لگا رہے ہیں جس کا سب کو حق حاصل ہے۔ سابق وزیراعظم پارٹی چھوڑنے والوں میں کسی ایک سے اپنی بات کی تصدیق کروا دیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ جب کوئی پارٹی چھوڑتا ہے تو اسے الیکشن جیتنے کے لئے ووٹوں کے ساتھ کسی سیاسی جماعت کی پشت پناہی بھی چاہئے ہوتی ہے، اس لئے لوگ پی پی یا تحریک انصاف میں جائیں گے کوئی دوسرا متبادل نہیں۔ جماعت اسلامی نے نوازشریف کے حلقے سے 6,5 سو ووٹ لئے تھے ادھر کون جانا پسند کرے گا۔ جے یو آئی بلوچستان و کے پی میں ہے لیکن لاہور میں اس کا وجود بھی نہیں۔ ہمیشہ یہی طریقہ کار رہا ہے، پارٹی چھوڑنے والے اپوزیشن کی ابھرتی ہوئی طاقت کے ساتھ ملتے ہیں، کمزور پارٹی میں کوئی نہیں جاتا۔ لوگوں نے جانا ہی پی ٹی آئی میں تھا۔ سندھ می پی پی تھوڑی مضبوط ہے اس لئے وہاں سے کچھ لوگ ادھر چلے گئے۔ جنوبی پنجاب کے کچھ حصوں میں بھی پی پی بہتر تھی لیکن اب پہلے جنوبی محاذ بنا، ذوالفقار کھوسہ اور ان کے صاحبزادے دوست محمد کھوسہ بھی نون لیگ میں تھے، حکومت میں بھی رہے وہ پی ٹی آئی میں چلے گئے۔ پنجاب میں جو نون لیگ چھوڑے گا وہ پی ٹی آئی میں جائے گا۔ نوازشریف مقدمات میں الجھے ہوئے ہیں۔ ٹوٹل شو شہباز شریف کے پاس ہے وہ کافی بھاگ دوڑ کر بھی رہے ہیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب پارٹی کے خلا کو پُر کرنے کی بھرپور کوشش کریں گے، وقت بتائے گا کہ کتنا کامیاب ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ خورشید شاہ کے بیان پر بڑی حیرت ہوئی کہ ”نگران منتظم کا اعلان کریں گے اور سب اتفاق بھی کریں گے“ اس کا مطلب ہے کہ بلاول و زرداری کی بات درست نہیں کہ نون لیگ و پی ٹی آئی میں خفیہ مفاہمت ہے اصل مفاہمت تو قومی اسمبلی میں نظر آ رہی ہے، عجیب بات ہے کہ خورشید شاہ نے اندر کھاتے نگران وزیراعظم کا امیدوار بھی چن لیا اور اس سے سب اتفاق بھی کریں گے۔ مفاہمت تو پی پی و نون لیگ میں آج بھی موجود ہے۔ پنجاب اسمبلی میں تو وزیراعلیٰ نے قائد حزب اختلاف سے ملاقات ہی نہیں کی، اگر زرداری کے مطابق نون و پی ٹی آئی میں مفاہمت ہوتی تو پنجاب کے نگران وزیراعلیٰ کے امیدوار پر بھی رضا مندی ہو گئی ہوتی۔ انہوں نے کہا کہ میری فیملی میں بہت ڈاکٹرز ہیں، ہمیشہ خواہش رہی ہے کہ ینگ ڈاکٹرز کے جائز مطالبات پر عمل ہونا چاہئے میں ڈاکٹرز کے خلاف نہیں ہوں لیکن انہوں نے جوطوفان مچایا ہوا ہے۔ آئے روز ہڑتال کر دیتے ہیں مختلف شہروں میں مریض خوار ہوتے رہتے ہیں۔ لوگوں کی جانوں سے کھیلنے کا کسی کو حق حاصل نہیں۔ میرے دیکھتے دیکھتے ڈاکٹروں و نرسوں کی تنخواہوں میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ اب ان کو کیا چاہئے۔ چاروں صوبوں کو چاہئے کہ ہسپتال کے عملے کی ڈیوٹی کو ”لازی سروس“ قرار دیں اور ہڑتال کرنے والے کے خلاف سخت ایکشن لینا چاہئے۔ ہڑتالوں کی وجہ سے کئی لوگ زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔

 


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain