تازہ تر ین

ناصر کھوسہ نہاتے دھوتے رہ گئے

لاہور (تجزیہ نگار) آج کے دن تک دو صوبوں میں تحریک انصاف کا عمل دخل ہے ایک صوبے میں وہ حکمران اوردوسرے میں اپوزیشن ہے۔ صوبہ خیبرپختونخوا میں اس کی حکومت ہے جبکہ صوبہ پنجاب میں وہ اپوزیشن کی قیادت کررہی ہے۔ کے پی کے میں جناب پرویز خٹک معاملات کے نگران جبکہ پنجاب میں میاں محمودالرشید کا عمل دخل ہے۔ ان دونوں صوبوں میں نگران حکومتوں کے قیام کیلئے انہیں کردار ادا کرنا تھا اور کرنا ہے لیکن دونوں میں اس جماعت نے جو کچھ کیا اس سے ظاہر ہی نہیں ثابت ہوگیا کہ اس جماعت میں ابھی تک سیاسی بالغ نظری کا شدید فقدان ہے۔ ن لیگ والے ان پر یوٹرن کا جو الزام عائد کیا کرتے تھے اور کرتے ہیں وہ انہوں نے سچ ثابت کردکھایا ہے۔ اس معاملے میں مذکورہ دونوں ہستیاں ہی نہیں ان کی پارٹی کے سربراہ یعنی عمران خان بھی برابر کے ذمہ دار ہیں۔ ہوسکتا کہ دونوں صوبوں میں نگران وزیراعلیٰ کے تقرر کا معاملہ ان کی مرضی اور مشاورت کے بغیر طے کیا گیا ہو اور پھر واپسی بھی ان کی رضا کے بغیر ہوئی ہو۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ کے پی کے میں جس شخص کو نگران وزارت اعلیٰ کا ہار ڈالا گیا وہاں کے وزیراعلیٰ اسے لے کر فوراً عمران خان کے پاس چلے گئے۔ مقصد سلام کرانا ہوگا۔ یہ بجائے خود ایک حماقت جس سے یہی تاثر ملا کہ نامزد نگران وزیراعلیٰ کسی حوالے سے بھی غیرجانبدار شخصیت نہیں بلکہ پی ٹی آئی کا اپنا آدمی ہے کچھ حلقے تو باقاعدہ الزام لگاتے رہے۔ خصوصاً سوشل میڈیا پر پچاس کروڑ بلکہ اس سے بھی زائد مسودے کی باتیں ہوتی رہیں۔ہمیں نہیں معلوم اور اہم نہیں سمجھتے کہ اس میں کوئی حقیقت ہوسکتی ہے لیکن جس طرح کا طرز عمل اختیار کیا گیا اس سے اس قسم کے تاثر کو تقویت ضرور ملی۔ تاہم بعد میں پی ٹی آئی نے یہ فیصلہ واپس لے لیا اور نامزد وزیراعلیٰ نہاتے دھوئے ہی رہ گئے۔ ان کی واپسی کی وجہ یہ تو نہیں ہوسکتی کہ سودا نہیں ہوا بلکہ یہاں بھی سیاسی کو تاہ نظری آڑے آئی ہوگی۔ لوگوں کی طرف سے کڑی تنقید کی بنیاد بھی یہی تھی۔ ابھی اس معاملے کی گرد بیٹھ ہی رہی تھی کہ پی ٹی آئی کے بلے سے ایک دوسرا چھکا پڑگیا۔ پنجاب میں جس نااپر میاں محمودالرشید کی میاں شہبازشریف کے ساتھ ملاقات میں جس شخصیت پر اتفاق ہوا تھا اور اس کا باقاعدہ اعلان بھی نہیں کردیا گیا دو روز تک یہ نام چلتا رہا اور ناصر کھوسہ ڈھیڑ ساری مبارکبادیں بھی قبول کرچکے ہونگے کہ میاں محمودالرشید یہاں بھی یوٹرن لے لیا۔ دو دن گزرنے کے بعد ان کی طرف سے جو اعلان کیا گیا وہ ان کے بچگانہ پن اور ناپختہ سیاسی سوچ اور شعور کا مظہر ہے۔ ایک تو انہوں نے ناصر کھوسہ کا نام واپس لینے کا اعلان کردیا اور ساتھ ہی یہ بھی بتادیا کہ وہ کتنے پانی میں ہیں۔ اعلان کی وجہ یہ بتائی گی عمران سے جلد بازی میں غلطی ہوگئی اور غلط فہمی میں یہ فیصلہ کرلیا گیا۔ جس پر عوام کی طرف سے کڑی تنقید ہوئی۔ تنقید تو آخر ہونا ہی تھی۔ تحریک انصاف کے کارکنوں پر یہ نام پر کیا بیتی ہوگی۔ اس سے تو بہتر تھا آپ نگران وزارت اعلیٰ کیلئے بھی میاں شہبازشریف یا ان کے صاحبزادے حمزہ شہباز کا نام ہی تجویز کردیتے کیونکہ کہا یہی جارہا ہے کہ ناصر کھوسہ بھی تو ایک طرح سے ان کے اپنے ہی آدمی ہیں۔ ہمیں نہیں معلوم اس کی آئینی اور قانونی پوزیشن کیا ہے لیکن جہاں تک ہم سمجھ سکے ہیں وہ یہی ہے کہ اب نام کی واپسی باہمی رضامندی کے ساتھ ہی ہوسکتی ہے۔ ورنہ تو تیر کمان سے نکل چکا ہے اور یہ پیپلزپارٹی والا تیر ہرگز نہیں بلکہ حقیقی تیر ہے انتخابات کی بالکل ابتدا میں ہی اس کے بنیادی فیصلوں میں اختیار کئے گئے۔ احمقانہ طرز عمل سے محسوس ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی قیادت کو سیاسی بالغ نظری کیلئے ابھی تک زیادہ تجربے کی ضرورت ہے۔ اسی نوعیت کے فیصلے کئے گئے تو اس ملک کا اللہ ہی حافظ ہے۔ اقتدار میں آکر بھی منظور آفریدی اور ناصر محمود کھوسہ جیسے فیصلے ہی کئے گئے اور پھر انہیں واپس بھی لے لیا گیا تو اس ملک کا کیا بنے گا۔ یہ کھسم (خاوند) والا معاملہ ہے کہ کھسم کیا تو برا کیا اور کرا کے چھوڑ دیا تو اور برا کیا…. کیا عوام یہ سوچنے پر مجبور ہوجائیں گے کہ غالباً ایک مبینہ کرپٹ ملک کیلئے اتنا خطرناک نہ ہو جس قدر خطرناک متوازن ذہن نہ رکھنے والا ہوسکتا ہے۔


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain