لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) کالم نگار خالد چودھری نے کہا ہے کہ پہلے بھی چند روز خبریں چلیں تھیں عابد باکسر کو پاکستان لایا جارہا ہے اس کے بعد خاموشی چھا گئی پھر پتہ نہیں چلا وہ آیا کہ نہیں آیا۔ چینل ۵ کے پروگرام ”کالم نگار“ میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ماضی میں بھی اس قسم کے بہت سے کردار تھے لیکن ان سب کا گارڈ فادر رانا مقبول تھا جو بعد میں آئی جی ہو گیا تھا اب جس نے عابد باکسر سے کام کرائے ان کو پکڑا جائے اور اپن کورٹ ٹرائل ہونا چاہیے۔ اگر جیلیں بہتر بنائی ہوتیں تو آج نواز شریف کو شکایت نہ ہوتی قانون سب کیلئے برابر ہے۔ عمران خان نے جو گزشتہ روز الیکشن کے حوالے سے شکوک کی بات کی یہ بہت اہم بات ہے۔ کالم نگار میاں سیف الرحمان نے کہا کہ ماضی میں اس قسم کے جعلی مقابلے ہوتے رہے لیکن یہ قانون کی عملداری کے خلاف ہے اس سے غلط تاثر جاتا ہے اور عوام میں بے چینی ہو جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ باہر کی جیلوں میں جو باہر سے آتے ہیں ان کی تلاشی کی جاتی ہے اس میں کچھ غلط بات نہیں۔ ایاز صادق کو اڈیالہ جیل کے باہر تلاش کا برا نہیں منانا چاہیے تھا۔ کالم نگار توصیف احمد خان نے کہا ہے کہ ایک دور میں عابد باکسر دہشت کی علامت تھا اس کے کھاتے میں کئی بے گناہوں کا قتل ہو گا ہو سکتا ہے جو وہ کہہ رہا ہو درست ہو بہرحال جو عابد باکسر نے کہا وہ بہت غلط ہے اب جس نے بھی اس سے کام کرائے اس کو تو پکڑا جائے لیکن عابد باکسر کو بھی سزا دی جائے۔ 25 جولائی سے قبل اس ویڈیو کو سامنے لانے کا کوئی مقصد ہے۔ انہوں نے کہا الیکشن کے حوالے سے عمران خان کی بات کو سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے۔ کالم نگار خالد فاروقی نے کہا کہ عابد باکسر جیسے کرداروں کی تاریخ 70 سالوں تک جاتی ہے جو ناپسندیدہ کردار سامنے آئے ان کو مار دیا جاتا تھا۔ عابد باکسر پر الزام ہے اس لیے سیاسی بنیاد پر قتل کرائے گئے۔ اس سلسلے کو اب ختم ہونا چاہیے اور تحقیقات کی جائیں عدلیہ کو چاہیے اس معاملے کا بھی نوٹس لے۔ انہوں نے کہا کہ اگر اڈیالہ جیل جو قدرے بہتر ہے وہاں بنیادی سہولیات نہیں تو باقی جیلوں کا کیا حال ہو گا۔