تازہ تر ین

میرے خیال میں 110 سے لے کر 120 سیٹیں عمران کو ملیں گی: ضیا شاہد ، جب 110 سیٹوں کی پہلے ہی سلیکشن ہو چکی تو الیکشن بے معنی ہونگے : پرویز رشید ، چینل ۵ کے پروگرام ” ضیا شاہد کے ساتھ “ میں گفتگو

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پرمشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ آج کا ایک ہی موضوع ہے کہ الیکشن کون جیتے گا؟پرویز رشید نے کہا کہ اب گھنٹے رہ گئے انتظار کریں پاکستان کے عوام انہی جذبات کی ترجمانی کریں گے جن جذبات کو جی ٹی روڈ پر دیکھا تھا جن جذبات کو ہم نے جنوبی پنجاب کے دوران دیکھا ہے۔ ہر جگہ پاکستان کے عوام ایک نعرہ ضرور بلند کرتے ہیں کہ ان کے ووٹ کو عزت دی جائے۔ اور ان کے ووٹ کو حیلے بہانے سے یا سازش سے مسترد نہ کیا جائے۔ حکومتیں ووٹ سے بنیں ووٹ کے ذریعے ہی ختم ہوں۔ضیا شاہد: ضیاءالحق نے 10 سال کے بعد جونیجو کی حکومت کو برطرف کرنے کے بعد مختلف سینئر اخبار نویسوں اور اخبارات کے ایڈیٹروں کو جن کی تعداد 40 کے لگ بھگ تھی 7 گھنٹے تک طویل ترین بریفنگ دی تھی اور اس میں اعلان کیا کہ اب وہ نیا سسٹم لا رہے ہیں اسلامی نظام کا۔ میں میر خلیل الرحمن صاحب کا اسسٹنٹ ہوتا تھا۔ میں نے ہاتھ کھڑا کیا اور کہا کہ آپ پہلے سال اعلان کرتے تو لوگ یہ بات توجہ سے سنتے۔ 10 سال کے بعد آپ اعلان فرما چکے ہیں ایک منتخب حکومت کو توڑنے کے بعد جو3 دن پہلے آپ نے توڑی ہے اب آپ کہہ رہے ہیں کہ اسلامی نظام لائیں گے۔ اب میراآپ سے سوال یہ ہے اس لئے میں نے بات کی کہ شہباز شریف دس سال سے بڑے صوبے میں مکمل بااختیارات رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اب میں نیا نظام لاﺅں گا۔ سارا سسٹم ان کے پاس رہا۔ اب وہ کون سی بات ہے جو تبدیلی لا رہے ہیں۔ تین دن پہلے میں ایک نوجوان کا انٹرویو سن رہا تھا جس نے میٹرک میں اول پوزیشن حاصل کی اور وہ ایک یتیم بچہ ہے اور ایک پاکستان کے غریب ترین گھر سے اس کا تعلق ہے وہ بتا رہا تھا کہ اگر دانش سکول نہ ہوتے تو وہ آج اس مقام پر کھڑا نہ ہوتا۔اور نہ ہی وہ پنجاب بھر کے طالب علموں سے زیادہ نمبر حاصل کر سکتا۔ دانش سکول جب سے بنے ہیں۔ اس وقت سے آج تک ان سکولوں سے ہزاروں بچے جن کا تعلق پاکستان کے پسماندہ ترین علاقوں سے ہے اور ہر پسماندہ علاقوں کے غریب ترین گھرانوں سے ہے۔ یہ وہ بغاوت ہے جس کا شہباز شریف صاحب ذکر کر رہے ہیں۔ اور یاد کریں جب یہ سکول بنے تھے تو ان کا مذاق اڑایا گیا تھا اور تنقید بھی کی گئی تھی۔ شہباز شریف انقلابی ذہن رکھنے والے لیڈر ہیں اور وہ انقلابی اقدامات کرتے رہتے ہیں۔ کیا 70 سالوں میں آپ بھی شامل ہیں میں بھی شامل ہوں جو اپنے بچوں کو ایئرکنڈیشنڈ گاڑیوں میں بٹھاتے ہیں، کیا شہباز شریف نے ان شہروں میں جن لوگوں کے پاس سائیکل بھی نہیں ہے ایئرکنڈیشنڈ بسیں چلا دی ہیں یا نہیں۔ ایئرکنڈیشن ٹرین لائے ہیں یا نہیں تا کہ وہ اس میں عزت سے جائیں۔ضیا شاہد:میرے دوست نوازشریف کے بارے میں اچھی خبر سنائی ہے کہ جو وزراءنے مل کر پریس کانفرنس کی ہے۔ ایک تو ان کو اے سی وغیرہ بہم پہنچا دیئے گئے ہیں دوسرا انہوں نے کہا کہ اگر وہ اپنی تسلی کے مطابق جس ہسپتال میں بھی جانا چاہیں ہم ان کے لئے بندوبست کرنے کو تیار ہیں۔ سیاسی لیڈروں کا عزت و احترام ہونا چاہئے اور کسی قسم کی تنگ نظری نہیں ہونی چاہئے دوسری اور آخری بات یہ کہ اگرچہ آپ اس سے متفق نہیں ہوں گے کہ میرا فرض بنتا ہے کہ میری معلومات کے مطابق کل ہو سکتا ہے نتائج اس کے بالکل برعکس ہوں۔ الیکشن رزلٹ کا کچھ پتہ نہیں ہوتا لیکن کہا جاتا ہے کہ تحریک انصاف کو 110 سے 115 سیٹیں ملیں گی۔ مسلم لیگ ن کو 50 سے 55 اور زیادہ 60 سیٹیں مل سکتی ہیں۔ پیپلزپارٹی کو 55 سیٹیں، ایم ایم اے کو 8 یا 10 سیٹیں، تحریک لبیک کو 10,8 سیٹیں اور پہلی مرتبہ پاکستان میں سب سے بڑی تعداد میں 45 سے 50 کے لگ بھگ کہی جا رہی ہے وہ آزاد امیدوار ہوں گے اب تک جو پراپیگنڈہ ہو رہا تھا کہ مختلف لوگوں کو مختلف سیاسی نشانوں پر الیکشن لڑوایا جا رہا ہے اور لگتا ہے الیکشن کے جو بھی نتائج ہوئے الیکشن کے بعد ایک مرتبہ پھر کوشش کی جائے گی مختلف قوتیں جو ہیں ان کی طرف سے کہ جو آزاد امیدوار ہیں ان کو ساتھ مل کر اور اپنی مرضی کے لوگوں کو ملا کر ایک کلین سویپ ہوتی ہے اس کی بجائے مینجڈ حکومت بننے جا رہی ہے کیا فرماتے ہیں۔پرویز رشید: چند نتائج کا آپ ذکر کر رہے ہیں ان سے پوچھا جائے کہ پاکستانی قوم کا اربوں روپیہ کیوں ہم انتخابات پر صرف کرتے ہیں اور پاکستان کے عوام کو 3.2 مہینے کی کش مکش میں رکھتے ہیں جو نتائج انہوں نے مرتب کئے ہیں اس کا نوٹی فکیشن جاری کر دیا کریں۔ اگر سلیکشن ہی کرنی ہے اور سیٹوں کی بندر بانٹ کرنی ہے تو بیٹھے بندر بانٹ کر رہا ہے بیٹھا ہوا وہ عوام کو کیوں اذیت میں ڈالتا ہے۔ جب آپ نے پہلے سلیکشن کر لی ہوتی ہے تو الیکشن کی کیا ضرورت ہے۔ضیا شاہد: آپ کی بات میں وزن ہے واقعی ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ دس سال سے تو پنجاب میں پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے اور سب سے بڑی آبادی ہے یہاں سے جیتنے والے کی بنیاد پر وزیراعظم بنتا ہے اور یہاں شہباز شریف پورے کروفر سے، اس کے باوجود رزلٹ اس کے خلاف آتا ہے تو کیا اس کو یہ سمجھا جائے کہ آپ کی پوری تگ و دو، لوگوں سے ہاتھ کھڑا کرے آپ نے ہمارے محترم نواز نوازشریف نے ان کی صاحبزادی ہماری بیٹی محترمہ مریم نواز نے پوچھا کہ کیا آپ نے ووٹ دیئے تھے تو انہوں نے دیئے تھے تو انہوں نے کہا کہ یہ کون ہوتا ہے آج کوئی آپ کے ووٹوں کی تذلیل کرنے والا۔ آپ بتائیں اگر رزلٹ آپ کی حکومت کے سوچے اور سمجھے منصوبے کے مطابق نہ ہوئے اس کے خلاف ہوئے تو کیا آپ تسلیم کریں آپ کی حکومت کی پالیسیاں جو تھیں ان کو عوام نے پسند ہیں کیا۔پرویز رشید: پہلی بات تو آپ نے الفاظ استعمال کئے کروفر الفاظ۔ تین چار اور الفاظ استعمال کئے۔ضیا شاہد: پرویز رشید! آپ اس طرح گڑ بڑ نہ کریں سب جانتے ہیں کہ ہمارے دوست شہباز شریف صاحب نے بڑے اچھے طریقے سے اپنا دور گزارا۔ وہ کوئی کمزور وزیراعلیٰ نہیں تھے۔ سب جانتے ہیں وہ رگڑے وزیراعلیٰ تھے۔ اور ماشاءاللہ بڑے مستعد تھے پانی میں گھس جاتے تھے ہر جگہ پر میں نے خود ان کو راتوں کو یہ جو میٹرو ہے اس میں رات کو 3,3 بجے میں نے ان کو اس کی نگرانی کرتے دیکھا ہے۔پرویز رشید: اب آپ نے درست الفاظ استعمال کئے ہیں۔ پہلے جو آپ نے الفاظ استعمال کیا میں ان سے اتفاق نہیں کرتا۔ سنا ہے کہ سندھ والے کہتے ہیں کہ یار ہمیں بھی پنجاب کی طرح کا بتاﺅ، خیبرپختونخوا وہی کہتا ہے۔ ہم فخر سے سندھ اور خیبر پختونخوا میں کہتے ہیں کہ تم اگر ہمیں ووٹ دو گے تو پنجاب میں جو ترقی ہوئی ہے وہ تمہارے صوبے میں بھی ہو گی۔ کسی سندھ کے حکمرانوں نے کبھی نہیں کہا پنجاب والو ہمیں ووٹ دو میں تمہیں سندھ کی طرح بناﺅں گا۔ نہ عمران نے کبھی کہا ہے کہ مجھے ووٹ دو میں تمہیں خیبر پختونخوا کی طرح بنا دوں گا۔ اگر انتخاب کا نتیجہ عوام کی ترجمانی نہیں کرے گا تو میں خاموش بھی رہوں گا تو عوام بولیں گے۔ میرے بولنے یا خاموش رہنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ جب لوگوں کے جذبات کی ترجمانی ہو گی امن رہے گا سکون رہے گا چین رہے گا ترقی ملے گی۔ اگر ترجمانی نہیں ہوئی تو بے چینی پھیلے گی۔ضیا شاہد: پاکستان کے عوام کا مطالبہ ہے پاکستان کی دولت بیرونی ممالک سے واپس لا کر کون ہمارے قرضے اتار سکتا ہے۔ ان تینوں سربراہوں میں سے جو جیت جائے گا۔ آپ مجھے بتایئے کیا آپ کی پارٹی کے پاس ایسا کوئی پروگرام ہے۔ ہماری ایکسپورٹ کا ستیا ناس، رپورٹ پڑھ لیں، ہم بھیک مانگنے کے لئے آئی ایم ایف کے پاس جانے کے لئے مجبور ہیں۔ آپ فرمایئے کہ گر ہم اپنا لوٹا ہوا سرمایہ جو اس ملک کے جرنیلوں، بیوروکریٹس، صنعتکاروں، سرکاری ملازموں نے، سیاستدانوں، ایم این ایز، ایم پی ایز نے خواہ وہ کسی جماعت سے ہوں، میں کسی کی ذات پر نہیں کلاس پر الزام لگا رہا ہوں۔ پچھلے اتنے برسوں آپ بھی چپ کر کے بیٹھے ہیں۔ ہم وہ پیسا کیوں نہ واپس لائیں۔ جب ہم نے پہلی مرتبہ تجویز دی تھی جناب نوازشریف نے خود یہ سکیم کی تھی قرض اتارو ملک سنوارو۔ اگر ہم اپنے ملک کے قرصے اتار دیں تو ہم خوشحال ملک بن سکتے ہیں۔ آپ کو اتنی دیر حکومت ملی، آپ نے دولت واپس لا کر قرضے کیوں نہیں اتارے؟پرویز رشید:نوازشریف کے علاوہ باقی 65 سال جو حکومتیں رہیں، کسی نے سنجیدگی سے کام نہیں کیا۔ قومی اسمبلی میں ہم نے قوانین منظور کرائے جس کے نتیجے میں سوئٹزرلینڈ کے بینکوں میں پڑے پیسے واپس آ سکتے ہیں، ان قوانین کے ذریعے دنیا کے ساتھ خفیہ معلومات کا تبادلہ کیا جاتا ہے اگر ہم یہ نہ کرتے تو باہر پڑی دولت کا پتہ ہی نہ چلایا جا سکتا۔ یہ ایک پیچیدہ عمل ہے لیکن ہم نے یہ قوانین منظور کروا لئے ہوئے ہیں۔ اب جو منتخب ہو کر آئے گا اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان قوانین پر عمل کرے۔ضیا شاہد نے کہا کہ الیکشن بند مٹھی کی طرح ہوتے ہیں، کوئی پتہ نہیں کون جیت جائے لیکن اطلاعات ہیںکہ لاہور سے شہباز شریف و حمزہ شہباز کامیاب ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ ایاز صادق کا معاملہ مشکوک، سعد رفیق کے بجائے عمران کی جیت کے بہت زیادہ امکانات ہیں۔ یاسمین راشد نے بڑی محنت کی ہے۔ ان کے سست پنجاب کے وزیر تعلیم ہوتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ احسن اقبال و خواجہ آصف بھی جیت جائیں گے۔ فردوس عاشق اعوان اگرجیتی تو کہا جاتا ہے کہ مشکل سے جیتے گی تحریک انصاف اور نون لیگ کا کافی ٹف مقابلہ ہے۔ جنوبی پنجاب میں ایک بڑی تبدیلی آئی ہے اور اس میں خبریں کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ 20 سال سے ہم لگے ہوئے تھے کہ اس کو الگ صوبہ بنا دیں لیکن کسی حکمران نے نہیں سنا وہاں ”اساں قیدی تخت لاہور دے“ کے عنوان سے ایک نظم مفت تقسیم ہوتی تھی۔ نون لیگ نے پہلی مرتبہ پنجاب اسمبلی میں بہاولپور کی صوبائی حیثیت بحال کرنے کی قرارداد پیش کی تھی لیکن عمل نہیں کیا گیا۔ جھوٹ بولتے ہیں لوگ کہ جنوبی پنجاب میں آئی ایس آئی کے کہنے پر لیگی رہنماﺅں نے پارٹی چھوڑی، یہ لوگوں کا دکھ و تکلیف ہے۔ شہباز شریف نے کہا تھا کہ ملتان میں ایڈیشنل چیف سیکرٹری، ایڈیشنل آئی جی و سیکرٹری تعلیم و صحت بٹھا دیں گے اس پر بھی عمل نہیں ہوا۔ جنوبی پنجاب سے لوگ ٹوٹ کر تحریک انصاف میں کم گئے جبکہ آزاد زیادہ ہیں۔ انتخابی نتائج بتائیں گے کہ وہاں سے پی ٹی آئی سے زیادہ آزاد امیدوار کامیاب ہوں گے۔


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain