تازہ تر ین

پو لینڈ کی گوری نے پاکستانی پرچم کیوں اوڑھا؟ کیا پی آئی اے کا جہاز اصلی تھا؟ آمد بارے مقصد جان کر آپ بھی کہہ دینگے واہ بھئی واہ

لاہور (ویب ڈیسک)پاکستان میں اس برس جشنِ آزادی کے موقعے پر پاکستانی پرچم اوڑھے پولینڈ کی شہری ایوا زوبیک پاکستانی ذرائع ابلاغ کی توجہ کا مرکز رہیں۔اس کی وجہ ان کی وہ ویڈیو بنی جس میں وہ جشنِ آزادی کے موقعے پر بظاہر پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز کے ایک طیارے میں کیکی چیلنج کرتی نظر آئیں۔اس پر قومی احتساب بیورو کے چیئرمین نے نوٹس لیتے ہوئے پی آئی اے حکام سے وضاحت طلب کی کہ ایک غیر ملکی خاتون کو طیارے تک رسائی کیسے حاصل ہوئی؟اس ویڈیو پر یہ اعتراض بھی کیا گیا کہ اس میں پاکستانی پرچم کی بےحرمتی ہوئی ہے۔ ایوا کی جانب سے ایک ویڈیو سامنے آئی جس میں انھوں نے وضاحت کی کہ ان کا مقصد پاکستان میں سیاحت کا فروغ تھا اور کچھ نہیں اور ان کے پاس تمام تر اجازت نامے موجود تھے۔ اس کے بعد کہیں جا کر معاملہ رفع دفع ہوا۔ وہ جہاز تو اصلی تھا ہی نہیں۔ مگر پہلے یہ تو معلوم ہو کہ وہ خود ہیں کون اور پاکستان میں کر کیا رہی ہیں؟پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات اور امن و امان کی خراب صورت حال خراب ہونے کے باعث گذشتہ کئی برسوں سے پاکستان میں غیر ملکی سیاحوں کی آمد میں واضح کمی ہوئی ہے۔ایوا اس بات کو مانتی ہیں: ’یہاں آنے سے پہلے میں نے بھی پاکستان کے بارے میں جو سن رکھا تھا وہ زیادہ اچھا نہیں تھا۔‘ایوا پہاڑی علاقوں سے خاص طور پر متاثر نظر آتی ہیںایوا کا آبائی ملک پولینڈ ہے جبکہ وہ برطانیہ میں ایک لمبے عرصے تک مقیم رہی ہیں جہاں کی آکسفرڈ یونیورسٹی سے انھوں نے فرانسیسی اور جرمن زبانوں میں بی اے کی ڈگری لے رکھی ہے۔ گذشتہ چار برس تک وہ برطانیہ ہی میں کلچر ٹرپ نامی ایک کمپنی میں کام کرتی تھیں۔یہ کمپنی سیرو تفریح کے مواقع کے حوالے سے معلومات فراہم کرتی ہے۔ ایوا کے مطابق اس کی ویب سائٹ پر پہلے ایک برس کے دوران ہی موجود ویڈیوز کو ایک کروڑ مرتبہ دیکھا جا چکا تھا جبکہ اس کو سوشل میڈیا پر نظر رکھنے والوں کی تعداد 50 لاکھ سے زیادہ تھی۔اس کمپنی میں کام کرنے والی پہلی اہلکار ہونے سے قبل ایوا بیلجیئم کے شہر برسلز میں واقع یورپین پارلیمان میں بھی کام کر چکی ہیں۔ اس طرح وہ انگریزی اور پولش کے علاوہ اطالوی بھی بول سکتی ہیں۔وہ پاکستان کب اور کیسے پہنچیں؟ایوا نے اس برس کے آغاز میں سب کام وام چھوڑ چھاڑ بستر باندھا اور لندن چھوڑ دنیا کی سیر پر نکل پڑیں۔ وہ اب تک چالیس سے زائد ممالک میں گھوم چکی ہیں۔میں زیادہ تر ایسی جگہوں کا انتخاب کرتی ہوں جو خوبصورت مگر نظروں سے بظاہر اوجھل ہوں اور زیادہ لوگ اس طرف نہ جاتے ہوں۔‘سب سے پہلے انھوں نے اپنے آبائی ملک پولینڈ کو نئے سرے سے دریافت کیا۔ پولینڈ کے سیاحتی بورڈ کے ساتھ اشتراک میں انھوں نے سیاحت کے فروغ کے لیے مہم چلائی۔ایوا ایک وی لاگر ہیں یعنی وہ تصویروں اور ویڈیوز کے ذریعے ان مقامات کی کہانیاں سناتی ہیں جہاں وہ سیاحت کے لیے جاتی ہیں۔ اپنے وی لاگ کو وہ سوشل میڈیا خصوصا انسٹا گرام، فیس بک اور یو ٹیوب کے ذریعے ان کو فالو کرنے والے ہزاروں افراد تک پہنچاتی ہیں۔صرف انسٹا گرام پر ان کے فالو کرنے والوں کی تعداد 70 ہزار سے زائد ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان میں سے 30 ہزار انھیں پاکستان آنے کے بعد ملے ہیں۔ایوا پہاڑوں سے خاص طور پر متاثر نظر آتی ہیں۔ شاید یہی وجہ تھی کہ انہوں نے پولینڈ کے بعد سیدھا نیپال کا رخ کیا اور ماو¿نٹ ایورسٹ کے بیس کیمپ تک جا پہنچیں۔وہاں سے اس برس اپریل میں وہ پہلی دفعہ اپنے سکول کی زمانے کی دوست کے کہنے پر پاکستان آئیں۔ایوا سیاحت کے لیے ایسی جگہوں کا انتخاب کرتی ہوں جو خوبصورت مگر نظروں سے بظاہر اوجھل ہوں، اور جہاں زیادہ لوگ نہیں جاتے’یہاں آ کر مجھے معلوم ہوا کہ پاکستان اس کے بالکل برعکس ہے جو مغربی ذرائع ابلاغ میں ہمیں دکھایا جاتا ہے۔‘پاکستان آنے سے قبل ان کا تصور یہ تھا کہ یہاں سیاحوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے اور ’ویسے بھی یہاں دیکھنے کو کیا ہے، سوائے صحرا کے۔‘مگر ان کی دوست نے انہیں تصویریں بھیجیں اور اصرار کیا کہ وہ پاکستان ضرور آئیں۔ ’وہ خود کافی برس یہاں رہ چکی تھی۔ ھر میں نے خود بھی تحقیق کی تو مجھے اشتیاق ہونا شروع ہوا۔‘یہاں پہنچ کر وہ سب سے پہلے وادءہنزہ گئیں۔ ’آپ میری حیرت کا اندازہ نہیں کر سکتے۔ میں پاکستان سے محبت میں گرفتار ہو گئی۔ دو ہفتے قیام کے بعد وہ آگے بڑھ گئیں۔ انھوں نے چین، ویتنام اور انڈیا کا سفر کیا۔ جون کے آخر میں تاہم وہ دوبارہ پاکستان واپس آ گئیں اور تب سے یہیں موجود ہیں اور پاکستان کے حوالے سے ان کے وی لاگ کافی مشہور ہو رہے ہیں۔ایوا دوبارہ واپس کیوں آئیں؟ ان کی پاکستان واپسی کی وجہ پاکستان میں سیاحت کے حوالے سے بین الاقوامی سطح پایا جانے والا وہ منفی تاثر ہے جس کو بدلنے میں وہ اپنا کردار ادا کرنا چاہتی ہیں۔’میں نے جتنے ملک گھومے ہیں مجھے محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان ان میں سب سے زیادہ توجہ کا حقدار ہے کیونکہ یہ وہ ملک ہے جہاں سیاحت کے لیے بے شمار مواقع موجود ہیں مگر اس کے بارے میں غلط فہمیاں کافی زیادہ ہیں۔‘وہ لاہور اور کراچی سمیت کئی شہروں میں جا چکی ہیں۔ اور وہاں سے وی لاگ کر چکی ہیں اور چند ابھی منظرعام پر آنا باقی ہیں۔جشن آزادی پر کیا جانے والا کیکی چیلنج بھی پاکستان میں سیاحت کے فروغ کے سلسلے کی ایک کڑی تھاایوا کا کہنا ہے کہ کسی سے مالی امداد حاصل نہیں کرتیں اور اب تک وہ اپنا تمام کام خود کر رہی ہیں۔ تاہم مستقبل میں وہ اپنی ٹیم قائم کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔ایوا سمجھتی ہیں کہ پاکستان کے پہاڑی سلسلوں میں کوہ پیمائی، مہم جوئی اور پہاڑی علاقوں کی سیاحت کے مواقع موجود ہیں۔’یہ سب کچھ پہلے ہی سے پاکستان میں موجود ہے مگر شاید غیر ملکی سیاحوں کے لیے اس کی صحیح طریقے سے تشہیر نہیں کی جاتی یا پھر وہی پاکستان کا منفی تاثر آڑے آ جاتا ہے کہ یہ بین الاقوامی سیاحوں کے لیے محفوظ نہیں۔‘ پہاڑی سلسلوں کی سیاحت کو فروغ دینے سے آغاز کرنے کے بعد مہم کو پاکستان کے دوسرے شہروں اور علاقوں تک پھیلایا جا سکتا ہے۔’ذاتی طور پر مجھے یہاں کے کھانے، ثقافت اور لوگ بے حد پسند آئے ہیں۔ جس طرح مجھے یہاں خوش آمدید کہا گیا مجھے اس پر بہت خوشی ہے۔ پاکستان کے حوالے سے ان کی تصاویر اور ویڈیوز دیکھ کر بہت لوگوں نے ان سے رابطہ کیا اور پاکستان آنے کے حوالے سے معلومات لی ہیں۔ ان کے کام اے پہلے ہی مثبت نتائج حاصل ہو رہے ہیں۔وہ اس کام کو مزید بڑھانے کا ارادہ رکھتی ہیں۔ حال ہی میں انہوں نے پاکستان میں سیاحت کے فروغ کے لیے ایک منصوبے کا اعلان کیا تھا جس میں وہ مقامی شخصیات یا اداروں کے ساتھ مل کر کام کریں گی۔جشن آزادی پر کیا جانے والا کیکی چیلنج بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھا۔ ’اگر آپ غور سے دیکھیں تو وہ ایک ایسا جہاز اور اس کا وہ حصہ تھا جو ٹریننگ کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ ہم نے سوچا کیکی چیلنج ان دنوں مقبول ہے اس سے ایک منفرد انداز میں لوگوں کی توجہ حاصل کی جا سکتی ہے۔‘ اس ویڈیو نے ان کی توقعات سے کہیں زیادہ پذیرائی حاصل کی۔ ’میں بتا نہیں سکتی کہ مجھے کتنے زیادہ محبت اور لوگون کے پیار بھرے پیغامات موصول ہوئے۔‘

 


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain