تازہ تر ین

علاﺅ الدین نے 319 فلموں میں لازوال اداکاری سے انمٹ نقوش چھوڑے

لاہور(شہزاد فراموش)درد بھری آواز‘ جذبات سے بھر پور اداکا ری‘دکھوں اور مصیبت میں پھنسے ہوئے کسی شخص کا تذکرہ ہو توپاکستان کے پہلے عوامی اداکار کا خیال آتا ہے۔جونہی ماضی کے اوراق کی ورق گردانی کی جائے تو تو پتہ چلتا ہے کہ علاﺅالدین کو صرف درد بھرے مناظر کا اداکار کہنا ان کے ساتھ ناانصافی ہے ‘وہ حقیقی ورسٹائل اداکار تھے۔احمد رشدی کے گیت ”گول گپے والا آیا“میں ان کی اداکاری کا مزا الگ ہے ۔راولپنڈی میں1923ءکو پیدا ہوئے۔اداکاری کیلئے لاہور میں آن بسے۔یہاں کام نہ ملا توبمبئی کا رخ کیا۔شوق کی تکمیل کیلئے ہوٹلوں میںملازمت بھی کی۔وہاں ان کی ملاقات عبدالرشید کاردار سے ہو گئی جو خود بھی فلموں کے چکر میں لاہور سے بمبئی گئے تھے اور اپنا پروڈکشن کا ادارہ بنا چکے تھے۔انہوں نے گلوکاری کا شوق دیکھ کر ان کی ملاقات موسیقار نوشاد سے کرادی جنہوں نے انہیں اپنی ایک فلم کے گیت کے کورس میں ان کی آواز کو بھی شامل کیا۔اے آر کاردار سے بار بار ملاقاتو ں نے انہیں انیس برس کی عمر میںپہلی بارفلم”سنجوگ“میں کام کروایا پھردلیپ کمار اور نرگس کی فلم ”میلہ“ میں کام ملا جہاں سے انہیں شہرت ملی۔عہد شباب میں بوڑھے آدمی کا کردار کر کے علاﺅالدین نے اپنا آپ منوایا۔ تحریک پاکستان زوروں پر تھی جب علاﺅالدین بمبئی سے لاہور واپس آگئے۔اب لاہورپاکستان کا حصہ بن چکا تھا۔ فلم انڈسٹری کو بہت سی مشکلات کا سامنا تھا۔ تکنیک کاروں کی کمی تو کہیں اداکاروں کی۔ اسی دور میں فلم ”تیری یاد “ بنی جو ناکام ہوئی۔ پھرپہلی پاکستانی پنجابی فلم ”پھیرے“بنی تو علاﺅالدین کو بھی رول ملا لیکن اس میں وہ ولن کا کردار نبھاتے دکھائی دیئے ۔ یہ ڈائریکٹر نذیر کی بیوی سورن لتا کی بطور ہیروئن پاکستانی پہلی فلم بھی تھی۔”پھیرے“ کے بعد علاﺅالدین کو ہر فلم میں ولن میں لیا جانے لگا۔انہوں نے کریکٹر رول ہی نہیں لیڈنگ رول بھی کئے۔بطور ولن ان کی یادگار فلموں میں”انوکھی‘شہری بابو‘ انتقام‘پاٹے خان‘ محبوبہ‘ پینگھاں‘ محل اور وعدہ “ کے نام آتے ہیں ۔پھر ایک ایسا دور بھی آیا جب ان کا ستارہ با م عروج پر پہنچ گیا اوریہ وہ دور تھا جب ان کی شخصیت کو سامنے رکھ کر کردار لکھے جانے لگے۔یہ وہ زمانہ تھا جب ان کی اردو فلم ”آس پاس“ کی شہرت ہوئی ۔ ”آدمی ‘بنجارن‘ نیند ‘بھروسہ‘راز‘ہڈ حرام‘ جھومر‘ کوئل‘ سسرال میں ان کی اداکاری روایت سے ہٹ کر دکھائی دیتی ہے۔جب سیف الدین سیف کی فلم ”کرتار سنگھ“ میں وہ پہلی بار ہیرو کے روپ میں نظر آئے تو ان کا ایک نیاروپ لوگوں کے ذہنوں پر نقش ہو گیا اور اس فلم نے انہیں ہمیشہ کیلئے بڑے اداکار کے طور پر منوالیا۔تجزیہ کار ان کی فلم ” فر نگی ،کرتار سنگھ‘زرقا ،پھنے خان‘سلمیٰ اوررازدیکھنے کا مشورہ دیتے ہیں۔وقت کی دھول ہٹا کر ماضی کی سپر ہٹ فلم ”بدنام“ کا ذکر ہو تو اس میں ان کا ڈائیلاگ”کہاں سے آئے ہیں یہ جھمکے“گونجتا دکھائی دیتا ہے۔ یہ آج بھی اتنا ہی مقبول ہے جتنا کبھی ہوا کرتا تھا لیکن اب اوراق گردانی کا شوق رہا ہے نا فلم بینی کا ۔گڈریا بن کر بھی علاﺅالدین کی اداکاری مثالی تھی ۔ یہ فلم ”انتقام “ تھی جس میں انہوں نے سنتوش کمار کیساتھ کام کیا۔ علاﺅالدین کا فلم ”کرتار سنگھ “ میں سکھ کا کردار ان کو ایسا بھایا کہ بعد میں آنے والوں نے اسے بہت کاپی کرنے کی کوشش کی لیکن ان جیسا کام نہ کر سکے۔مہدی حسن کی گائی غزل” گلوں میں رنگ بھرے“ علاﺅالدین پر فلم ”فرنگی“ میں عکسبند ہوئی جس نے مقبولیت کے کئی ریکارڈ بنائے۔”تیس مار خان‘ان پڑھ‘نظام لوہار‘اور پھنے خان “ بھی ان کی بے مثال اداکاری کی وجہ سے یاد رہ جانے والی فلمیں ہیں۔ فلم ”راز“ میں ان کاجرائم پیشہ اپاہج کا کردار بھی مثالی نوعیت کا حامل ہے۔فلم ”آس پاس“ میں بطور ولن لازوال اداکار ی پر انہیں 1957ءمیں پہلا نگار ایوارڈ ملا۔ان کا پہلا ہیرو کا رول شباب کیرانوی کی فلم ” مہتاب“ میں تھا۔علاﺅالدین فلم ”پھنے خان“ میں بھی ہیرو کے روپ میں دیکھے گئے ۔سعادت حسن منٹو کے افسانے ”جھمکے“کو اقبال شہزاد نے فلم”بدنام “ کا نام دیکر فلمایا جس میں علاﺅالدین کی ایکٹنگ دیکھنے تعلق رکھتی ہے۔ انہوں نے8مرتبہ نگار ایوارڈ حاصل کیا ۔ ان کی319 فلموں میں سے 194 اردو اور 125 پنجابی تھیں۔ان کی کچھ ایسی فلمیں جنہیں بھلایا یانظر انداز نہیں کیا جاسکتا ان میں” پھیرے،دو آنسو ،گھبرو،غیرت بھیگی پلکیں ،تڑپ ،دیدار ،رات کی بات ،مجرم،پتن ،محفل ،خزاں کے بعد ،پینگاں ،مرزا صاحباں ،باغی، آس پاس ،پھولے خان ،شیخ چلی ،کچیاں کلیاں،حسرت ،چھومنتر، بھروسہ ،دربار،آخری داو¿،آخری نشان ،تیرے بغیر ،کر تار سنگھ،راز، جائیداد ‘ جھومر ،گلشن ،کوئل،سلمیٰ،ساحل ،ڈاکو کی لڑکی، منگول،تین پھول،بارہ بجے ،شہید، مہتاب، بنجارن، سسرال، برسات میں ،قانون ،تیس مار خان‘جھلک ،ایک مٹیار ،ملنگ، لائی لگ،ہڈ حرام ،پھنے خاں،اک سی چور،زمین، ،ان پڑھ ،جنج،انسان،لاڈو ،نظام لوہار ،نغمہ صحرا ،کوہ نور، پارمالا، یتیم، دوروٹیاں،مہندی ،باو¿ جی ،چالباز ،گھر پیارا گھراور رنگو جٹ کے نام قابل ہیں۔یہ عظیم فنکار انہی غموں سے لڑتا 13مئی 1983 ءکو ساٹھ برس کی عمر میں انتقال کر گیا۔لیکن ان کی اداﺅں کے چھوڑے ہوئے نقوش کے سحر میں نئے فنکار اب تک مبتلاءہیں۔


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain