تازہ تر ین

زرداری کا آرمی چیف کیخلاف بیان ، نواز کی عوام رابطہ مہم سیاسی محاذ آرائی کا پیش خیمہ :ضیا شاہد ، طالبان سے مذاکرات ہی امریکہ کی افغانستان سے واپسی کا واحد راستہ : سردار آصف ، چینل۵ کے پروگرام ” ضیا شاہد کے ساتھ “ میں گفتگو

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پرمشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ وفاقی وزیراطلاعات نے اخبارات کے ایڈیٹروں کو بلایا تھا اخباری صنعت کے مسائل کے بارے میں ان سے دو تین گھنٹے تک مذاکرات رہے اور کافی پیش رفت ہوئی کیونکہ جب حکومت اور نئی حکومت آئی تو اس حکومت کا کہنا ہے کہ پچھلی حکومت بہت زیادہ بوجھ چھوڑ گئی ہے اشتہارات انہوں نے چھپوائے اور پیسہ ہمیں دینا پڑ گئے ہیں بہرحال اب دوبار کچھ اشتہار شروع ہوئے ہیں لگتا ہے کچھ نہ کچھ معاملات سنبھل جائیں گے۔اپوزیشن نے داخلہ، خارجہ امور کی قائمہ کمیٹیوں کی سربراہی مانگ لی اور حکومت نے انکار کر دیا ہے اور حکومت اور اپوزیشن کے درمیان تناسب معاملہ طے پایا تھا جس کے مطابق حکومت کو 20 اور اپوزیشن کو 19 کمیٹیوں کی سربراہی ملنا تھی۔ اپوزیشن کے بڑے مطالبے پر گفتگوکرتے ہوئے ضیا شاہد نے کہا کہ پچھلی 7,6 حکومتوں سے روایت چلی آ رہی تھی کہ اپوزیشن لیڈر ہی پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی کا چیئرمین بنتا چلا آ رہا تھا اس کے لئے شہباز شریف کو بنا دیا گیا اگرچہ کئی وزراءبشمول شیخ رشید نے اعتراض کیا۔ فواد چودھری نے اعتراض کیا یہ غلط ہوا ہے لگتا تھا معاملہ ٹل گیا ہے اور باقی معاملات سدھر جائیں لیکن اپوزیشن کے آج کے مطالبہ سے تو لگتا ہے کہ اپوزیشن میں نہ مانوں والی پر قائم ہے انہیں ایک اور عذر مل گیا ہے قائمہ کمیٹیوں میں نہ آنے کا عذر مل گیا ہے انہو ںنے اپنی مرضی کی کمیٹیاں مانگ لی ہیں۔ جہاں تک میری معلومات کا تعلق ہے میں نے اس سے قبل یہ مطالبے نہیں سنے تھے۔ اور اب یہ معاملہ کسی عدالت میں ہی حل ہو سکتا ہے۔ خورشید شاہ نے کہا ہے کہ انہیں کسی کمیٹی کی سربراہی نہیں چاہئے اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ اس معاملہ پر اپوزیشن بکھر جائے گی مسلم لیگ اپنا مطالبہ دہرائے گی کہ مرضی کی کمیٹیوں کی سربراہی رہ جائے۔ فی الحال تو پیپلزپارٹی نے مختلف لائن لی ہے آگے جا کر پیپلزپارٹی ن لیگ کے ساتھ شامل ہوتی ہے یا نہیں۔افغانستان میں امن کے لئے مذاکرات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ضیا شاہد نے کہا کہ پاکستان کی معاونت سے ابوظہبی میں افغان امن بیٹھک ہوئی ہے۔ امریکی معاون خصوصی زلمے خلیل زاد بھی شریک تھے۔ سب سے پہلے عمران خان کا جملہ مجھے یاد ہے چند روز پہلے انہوں نے کہا تھا کہ ہماری خواہش پر طالبان نے یہ مان لیا ہے کہ وہ مذاکرات کریں گے اور پھر یہی ہوا۔ یہ بات پوری دنیا کے لئے بہت دلچسپی کا باعث ہے کہ امن مذاکرات جو اتنے برسوں سے رکے ابوظہبی میں شروع ہو گئے ہیں اور پاکستان سہولت کار ہے اس میں زلمے خلیل زاد کو جس مشن پر مقرر کیا تھا امریکہ کی طرف سے افغان طالبان سے امن مذاکرات شروع ہو گئے ہیں اگر امن مذاکرات کامیاب ہو جاتے تو اس علاقے کی قسمت بدل جائے گی یہ بہت بڑی تبدیلی ہو گی۔ اس صورت میں امریکہ مزید فوج بھی افغانستان سے واپس لے جائے گا اور افغانستان کو خود مختار ریاست کی حیثیت مل جائے گی۔ میرے خیال میں یہ بہت بڑی خبر ہے جس کا گزشتہ کئی سال سے جس کا انتظار تھا۔ میں سمجھتا ہوں کہ نیب نے جو کیسز بنائے ہیں۔ یہ زیادہ اچھا ہوا ہے کہ بجائے معاملہ لٹکتا رہے وہ کیس بنا کر دیں تاکہ کیسز شروع ہو اور شہباز شریف جو دعویٰ کر چکے ہیں کہ ایک پائی بھی کمائی ہو تو سیاست چھوڑ دوں گا۔ پہلے وہ کہا کرتے تھے میں اپنا نام تبدیل کر دوں گا۔ لگتا ہے کہ شہباز شریف کا جو چیلنج ہے کہ میرے اوپر ایک بات بھی ثابت ہو گئی جو بددیانتی کے ذیل میں آتی ہو تو میں بڑی سے بڑی سزا بھگتنے کو تیار ہوں گا سیاست چھوڑ دوں گا یہ ان کا بڑا دعویٰ ہے اور اس دعوے کی وجہ سے ایک ایسی صورت حال پیدا ہو گئی ہے کہ ان کے خلاف جو ثبوت سامنے آئیں گے جناب شہباز شریف اور ان کے وکلاءاس کا پورا دفاع کریں گے۔نیب نے خواجہ سعد رفیق کے خلاف ریلوے کے مہنگے انجن خریدنے کے الزام میں تحقیقات شروع کر دی ہے جو بھارت نے انجن 25 کروڑ میں خریدے ہیں پاکستان میں وہ سعد رفیق نے وہ انجن 40 کروڑ میں خریدے ہیں۔ ضیا شاہد نے کہا ہے کہ اگر ایک الزام بھی ثابت ہو جائے تو خواجہ سعد رفیق کے لئے بھی بڑی مشکل پیدا ہو گی اور خود شہباز شریف کے لئے بھی مشکل پیدا ہو جائے گی کیونکہ شہباز شریف بھی اسی حکومت کا حصہ تھے خواجہ سلمان رفیق کے خلاف مہنگی ادویات خریدنے کا کیس کر دیا گیا ہے اس پر گفتگوکرتے ہوئے ضیا شاہد نے کہا کہ الزام لگنا الگ بات ہے اس کا فیصلہ عدالت کو کرنا ہے کہ یہ درست ہیں یا غلط ہیں۔نوازشریف نے اجلاس کی صدارت کی اوربیان دیا ہے کہ موجودہ حکومت نے 100 دن میں معیشت کا بیڑا غرق کر دیا ہے۔ اس پر گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ نوازشریف کم عرصہ کے لئے خاموش ضرور تھے لیکن یہ ان کی حکمت عملی ہو سکتی ہے اب ان کو بہت زیادہ موقع مل گیا ہے کہ ان کے ہاتھ پوائنٹ لگ گیا ہے کہ تین ماہ میں حالات عوام کے لئے مشکل ہو گئے ہیں دوسری طرف سے پی ٹی آئی کے لوگ کہتے پھر رہے ہیں کہ ہم پچھلی حکومتوں کی طرح لوٹ مار کر کے یا قرضہ لے کر ملک کا نظام نہیں چلا رہے۔ نوازشریف کے ساتھیوں کا کہنا ہے کہ وہ قرضہ لیتے تھے یا کسی سے مانگتے تھے بڑے منصوبے تو بنائے تھے روزگار بھی دیتے تھے۔خواجہ سعد رفیق کی خالی کی گئی نشست پر ن لیگ کا ہارنا ثابت کر رہا ہے کہ اپوزیشن کا یہ دعویٰ کہ عوام تحریک انصاف حکومت سے تنگ آ چکے ہیں غلط ہے۔ آصف زرداری کیخلاف کیسز سامنے آئے ہیں جس پر وہ فوج کے خلاف بیان بازی کر رہے ہیں جو محض بیان بازی ہی ہے اس میں کوئی حقیقت نظر نہیں آتی۔ حکومت کو محض 100 دن بعد ہی ناکام قرار دے دینا بھی غلط ہے ابھی اس کے پاس 57 ماہ مزید باقی ہیں، حکومت اگر اب تک نااہل ثابت ہوئی تو سعد رفیق کی نشست پر اپوزیشن کامیاب ہوتی ن لیگ اور پیپلزپارٹی اندر سے ایک ہیں، دونوں پارٹیوں کے رہنماﺅں پرکرپشن کے الزامات ہیں اس باعث زرداری کا لب و لہجہ سخت ہو گیا ہے اور وہ آرمی چیف کو للکار رہے ہیں۔ نیب ایک سول ادارہ ہے جس کا فوج سے کوئی تعلق نہیں، نیب اگر زرداری یا شریف برادران پر کوئی الزام لگاتا ہے تو اس سے فوج کا کیا تعلق بنتا ہے۔ آرمی اپنا کام کر رہی ہے، آج تک کسی عدالت میں آرمی کا حاضر سروس یا سابق فوجی افسر نظر نہیں آیا۔ بلاول بھٹو کا پلس پوائنٹ یہ تھا کہ اگر ان کی والدہ محترمہ بینظیر بھٹو کی بڑی عزت کرتے اور بلاول کے پاس کبھی کوئی حکومتی عہدہ نہیں رہا اس لئے ان پر کرپشن کا الزام بھی نہیں لگایا جا سکتا۔ اب اگر آصف زرداری اوربلاول بھٹو کے خلاف منی لانڈرنگ کی شہادتیں سامنے آ جاتی ہیں تو پھر معاملہ الجھ جائے گا اور بلاول کے خلاف الزامات بھی درست تصور کئے جائیں گے۔ شیخ رشید ایک زیرک سیاستدان ہیں۔ سیاسی طبع آزمائی پیشگوئی کرتے رہتے ہیں۔ نوازشریف کا لہجہ جتنا تلخ ہوتا جا رہا ہے شیخ رشید کا لہجہ بھی اتنا ہی تلخ ہوتا جا رہا ہے پانامہ کیس بھی شیخ رشید نے دائر کیا تھا جس کے باعث آج شریف خاندان مشکلات کا شکار ہے۔ نوازشریف کھل کر سامنے آنے والے ہیں انہوں نے عوامی جدوجہد کااعلان کر دیا ہے جس سے لگ رہا ہے کہ ملک میں ایک بڑی محاذ آرائی شروع ہونے والی ہے۔ حکومت کے وزراءاکثر عجلت میں بیان دے دیتے ہیں جن کی بعد میں تردید کرنا پڑتی ہے۔ عمران خان کو چاہئے کہ اپنی ٹیم کو اس حوالے سے تھوڑی ٹریننگ دیں کہ سوچ سمجھ کر بیان دیا جائے اور ایسی بات نہ کی جائے جس کی بعد میں تردید کرنی پڑے۔سابق وزیرخارجہ سردار آصف احمد علی نے کہا کہ افغانستان میں امن کیلئے مذاکرات کا شروع ہونا خوش آئند ہے پچھلے کئی سال سے وہاں جنگ وجدل جاری ہے۔ پاکستان کا ہمیشہ موقف رہا ہےکہ طاقت کا استعمال افغان مسئلہ کا حل نہیں ہے اب پہلی بار واشنگٹن کو بھی سمجھ آ گئی ہے کہ یہی موقف درست ہے۔ امریکہ اس جنگ میں ڈیڑھ کھرب ڈالر خرچ کر چکا ہے اور بدلے میں صرف امریکی فوجیوں کی لاشیں اٹھائی ہیں۔ امریکہ کو سمجھ آ گئی ہے کہ پاکستان کو ”ڈو مور ڈومور“ کہنے کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ پاکستان افغانستان میں امن کیلئے مثبت کردار ادا کرنے کو تیار ہے۔ امریکہ اور طالبان کے مذاکرات میں بنیادی معاملات طے پا گئے جن میں سیز فائر، فوج کو نکالنا وغیرہ شامل ہوں گے۔ تمام معاملات طے پا سکتے ہیں۔ سو یہ جرگہ بلا کر فارمولہ طے کیا جا سکتا ہے کہ پاور شیئرنگ کیسے کی جائے ریاستی معاملات میں طالبان کو کتنا حصہ دیا جائے۔ امن کی جانب شروعات ہو گئی ہے۔ طالبان لیڈر شپ کو بھی سمجھ آ گئی ہے۔ امریکہ ورلڈ پاور ہے وہ افغانستان سے کسی طرح نہیں نکلنا چاہتا کہ اسے شکست ہو گئی۔ امن مذاکرات کا مقصد ہی یہی ہے کہ امریکہ کو بھی باعزت واپسی کا راستہ ملے اور طالبان بھی راضی ہوں کیونکہ طالبان لیڈر شپ کو بھی اپنے ووٹروں کو مطمئن کرنا ہو گا۔ افغانستان میں برسرپیکار دونوں دھڑوں کو باعزت راستہ میسر ہو گا تو ہی امن کے لئے جگہ بنے گی۔


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain