تازہ تر ین

چاند کے قدرتی وسائل پر کس کا حق ہے؟

لاہور (ویب ڈیسک ) کچھ کاروباری کمپنیاں آج کل نادر معدنیات کی تلاش میں چاند پر کان کنی کے بارے میں سوچ رہی ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ چاند کے ان قدرتی وسائل پر حق کس کا ہے اور کیسے؟
چاند پر پہلے انسانی قدم کو تقریباً 50 برس گزر چکے ہیں، نیل ا?رمسٹرانگ کا وہ ’پہلا چھوٹا سا قدم‘ جسے انھوں نے ’انسانیت کے لیے ایک بہت بڑی چھلانگ‘ کہا تھا۔ اس تاریخی قدم کے تھوڑی دیر بعد ہی نیل ا?رمسٹرانگ کے ہمسفر بز ایڈرن بھی اس پرسکون سمندر‘ میں قدم رکھ چکے تھے۔
چاند گاڑی ایگل کی سیڑھیوں سے اترتے ہوئے جب بز ایڈرن نے چاند کی دور دور تک خالی سطح پر نظر دوڑائی تو اسے ایک ’شاندار ویرانی‘ سے تعبیر کیا تھا۔ جولائی سنہ 1969 کے اِس اپالو 11 مشن کے بعد سے چاند انسانی ہاتھوں سے زیادہ تر دور ہی رہا اور سنہ 1972 کے بعد کوئی انسان وہاں نہیں اترالیکن اب صورت حال تبدیل ہو سکتی ہے کیونکہ اب کئی ایک کمپنیاں نہ صرف چاند کی سطح کے بارے میں مزید کھوج لگانے میں دلچسپی ظاہر کر رہی ہیں بلکہ اسے کھود کر وہاں سے سونا، پلاٹینم اور الیٹکرونکس میں استعمال ہونے والی دیگر معدنیات نکالنے کا بھی سوچ رہی ہیں۔
پچھلے ہی ماہ چینی ماہرین نے چاند کے اس حصے پر اپنا خلائی مشن اتارا جو ہمیں زمین سے دکھائی نہیں دیتا اور وہاں کپاس کا بیج اگانے میں بھی کامیاب ہو گئے۔ لگتا ہے اب چین وہاں ایک تحقیقی مرکز بھی قائم کر دے گا۔ اس کے علاوہ ایک جاپانی کپمنی ’ا?ئی سپیس‘ زمین اور چاند کے درمیان ا?مد و رفت کے لیے ایک پلیٹ فارم تعمیر کرنے کے علاوہ چاند پر پانی کی تلاش کا کام شروع کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔
ایسے میں کیا کوئی قوانین یا اصول موجود ہیں جن کے اطلاق سے یہ یقینی بنایا جا سکے کہ ایڈرن کی ’شاندار ویرانی‘ اپنی جگہ پر قائم رہے؟
مغرب اور سوویت یونین کے درمیان سرد جنگ کے دنوں سے خلا میں چھان بین اور خلائی اجسام پر پائے جانے والے ممکنہ قدرتی وسائل پر حق کے حوالے سے بحث ہوتی رہی ہے۔ اقوام متحدہ نے سنہ 1967 میں امریکہ، برطانیہ اور سوویت یونین سے ایک ایسے معاہدے پر دستخط کروائے جب امریکہ کا خلائی ادارہ ناسا چاند پر انسانی مشن بھیجنے کی تیاری کر رہا تھا۔ اقوام متحدہ میں ہونے والے اس معاہدے کو ‘ا?و?ٹر سپیس ٹریٹی’ کے طور پر جانا جاتا ہے۔ اس معاہدے میں واضح کیا گیا کہ کوئی بھی ملک چاند یا دوسرے خلائی اجسام پر موجودگی کی بنیاد پر اس کی ملکیت اور حاکمیت کا دعوی نہیں کر سکتا۔
خلا سے متعلق کمپنی ایلڈن ایڈوائزر کی ڈائریکٹر جان ویلر کہتی ہیں ‘ا?و?ٹرسپیس ٹریٹی’ کو خلا کا میگنا کارٹا بھی گردانا جا سکتا ہے۔ جان ویلر کہتی ہیں ‘چاند پر جھنڈا لہرانا، جیسے نیل ا?رمسٹرانگ اور اس کے جانشینوں نے کیا، بے معنی عمل ہے کیونکہ ایسے کرنے سے کسی فرد، کمپنی یا ملک کو اس خلائی جسم کے مالکانہ حقوق نہیں مل جاتے۔’
لیکن سنہ 1969 میں عملی لحاظ سے یہ بات اتنے معنی نہیں رکھتی تھی کہ چاند کی زمین کی ملکیت یا اس پر کان کنی کا حق کس کے پاس ہے اور کس کے پاس نہیں۔ تاہم جوں جوں ٹیکنالوجی میں ترقی ہوئی ہے چاند کے ممکنہ وسائل سے منافع کمانے کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔ اب بھی یہ بات ہے تو مستقبل بعید کی لیکن اس کے امکانات بہرحال زیادہ ہوتے جا رہے ہیں۔اسی خیال کے پیش نظر اقوام متحدہ نے ’میثاقِ قمر‘ کے نام سے ایک معاہدہ جاری کیا تھا جس کا مقصد چاند اور دیگر ا?سمانی اجسام پر مختلف ممالک کی سرگرمیوں کو قانونی دائرے میں رکھنا ہے۔ اس معاہدے کے مطابق خلائی وسائل کے لیے ضروری ہے کہ انھیں پ?ر امن مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے اور ہر ملک کے لیے ضروری ہے کہ وہ اقوام متحدہ کو بتائے کہ وہ خلا میں کس جگہ کوئی سٹیشن تعمیر کرنا چاہتا ہے اور کیوں کرنا چاہتا ہے۔
معاہدے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’چاند اور اس کے قدرتی وسائل انسانیت کا مشترکہ اثاثہ ہیں‘ اور ایک ایسا بین الاقوامی معاہدہ ہونا چاہیے جس کا اطلاق اس وقت شروع ہو جانا چاہیے جب ’ اس قسم کے وسائل سے فائدہ اٹھانا ممکن نطر ا?نے لگے۔‘ لیکن ’میثاق قمر‘ میں مسئلہ یہ ہے کہ ابھی تک اس پر صرف 11 ممالک نے دستخط کیے ہیں۔ فرانس اور انڈیا نے بھی دستخط کر دیے ہیں لیکن خلائی میدان کے بڑے کھلاڑیوں، مثلاً چین، امریکہ اور روس نے اس پر دستخط نہیں کیے اور نہ ہی برطانیہ نے ایسا کیا ہے۔
قطع نظر اس کے، مِس ویلر کہتی ہیں کہ معاہدے میں طے کردہ اصولوں پر عمل درا?مد کرانا ا?سان نہیں ہے کیونکہ مختلف ممالک ایسی مختلف دستاویزات کو قانون میں شامل کرتے رہتے ہیں اور یہ یقینی بنانا ان ممالک کا کام ہے کہ ان کے شہری اور ا?ن کی کمپنیاں ان اصولوں کی پابندی کریں۔ سپیس لا جریدے کی سابقہ ایڈیٹر انچیف پروفیسر جان ایرین اس خیال سے متفق ہیں کہ خلا سے متعلق عالمی معاہدوں پر عمل درا?مد کی کوئی ضمانت نہیں دی جا سکتی ہے۔ وہ کہتی ہیں ’ان معاہدوں پر عمل درا?مد سیاست، معیشت اور عوامی رائے کا ایک پیچیدہ سا مرکب ہے۔‘
خلائی اجسام میں کسی فرد یا ملک کی ملکیت اور حاکمیت کو نہ ماننے سے متعلق ان معاہدوں کو حالیہ برسوں میں کئی چیلنجوں کا سامنا ہے۔ امریکہ نے سنہ 2015 میں’ کمرشل سپیس لانچ کمپیٹٹو ایکٹ’ نامی قانون منظور کیا جس میں شہریوں کے ایسے وسائل پر ان کے حق کو تسلیم کیا گیا جو انھوں نے کسی چھوٹے سیارے پر کان کنی کے ذریعے حاصل کیے ہوں۔


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain