تازہ تر ین

خان صاحب ! مہنگائی سے عوام مشکل میں ہیں ، کوئی خوشخبری دیکر آسانی پیدا کریں : معروف صحافی ضیا شاہد کی چینل ۵ کے پروگرام ” ضیا شاہد کے ساتھ “ میں گفتگو

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پرمشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ میں ایک ٹی وی چینل پر دیکھ رہا تھا کہ پیپلزپارٹی سے تعلق رکھنے والے ایک عہدیدار بھی تھے اپنے دور میں انہوں نے کہا کہ یہ جو اسد عمر فارغ ہوئے اس کے اصل ذمہ دار تو عمران خان صاحب ہیں اور اس کی وجہ انہوں نے یہ بتائی کہ انہیں منتخب کس نے کیا تھا۔ خود عمران خان کو بھی فیصلہ کرنے چاہئیں کہ وہ عوامی مسائل پر دلچسپی لیں اور لوگوں میں ذرا بیٹھا کریں اور لوگوں کی باتیں سنا کریں کہ وہ کیا کہتے ہیں جیسا کہ میں نے کہا تھا کہ اسد عمر کو فارغ ہونے کی وجہ اس دن ہو گئی تھی جس دن میں نے ایڈیٹروں کی طلبی میں عمران خان سے کہا کہ یہ لوگوں کو اتناڈراتے ہیں کہ خوف آنے لگا ہے ان سے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ جو اشارے ہوتے ہیں، جو جھلکیاں ہوتی ہیں ان سے پتہ لگ جاتا ہے کہ پیچھے تصویر کے پیچھے کیا ہے۔ عمران خان صاحب نے صحیح کہا ہے کہ جو کام نہیں کرے گا وہ گھر جائے گا لیکن یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ جو بات میں نے ان سے کہی تھی آج پھر میں اپنے پروگرام کے دریعے کہتا ہوں کہ لوگ ریلیف مانگتے ہیں آپ دیں لوگوں کو کیا ریلیف دیتے ہیں کوئی خوشخبری دیں جو اچھا پیغام دیں کوئی ان کی زندگی میں آسانی پیدا کریں۔ لوگ بجلی کے بل سے تنگ ہیں کوئی سوئی گیس نہ ملنے سے تنگ ہے کوئی کہتا ہے میرا اتنا بل آ جاتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک حلیم والا کہتا ہے کہ میرا 80 ہزار بل آتا تھا اس مہینے سے 40 ہزار کا اضافہ ہو گیا ہے اس نے آخر کھانا کیا ہے کمانا کیا ہے۔ اب دیکھنا یہ چاہئے سنجیدگی کے ساتھ 3 ماہ دیکھنا چاہئے کہ وزارتوں کی تبدیلیاں کیا رنگ لاتی ہیں اس کے اثرات کیا ہوتے ہیں۔ اگلے جو اشارے مل رہے ہیں وہ یہ ہے کہ عمران خان نے خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ اور پنجاب کے وزیراعلیٰ سے بھی کہا ہے کہ آپ بھی ذرا اپنی ٹیم میں جائزہ لیں اور پنجاب میں تو انہوں نے 6 وزیروں کے بارے تو اعداد و شمار بھی سامنے آ گئے ہیں کہ ان کی کارکردگی بہت کمزور ہے۔ کچھ لوگوں کے جانے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ مثلاً کچھ لوگ فیاض الحسن چوہان کے بہت خلاف ہو گئے لیکن اب یہ کہا جا رہا ہے کہ ان کی پرفارمنس بطور منسٹر اچھی رہی ہے وہ زیادہ گفتگو کرتے تھے تو اس میں کچھ ایسی باتیں بھی ہو جاتی تھیں جس پر لوگوں کو اعتراض ہو لیکن وہ بھاگ دوڑ بہت کرتے تھے اور بہت محنت کرتے تھے اس کے برعکس جو صمصام بخاری جو ان کی جگہ آئے ہیں وہ آتے ہی باہر دورے پر چلے گئے تھے تو ابھی کوئی ان کے کوئی جوہر نظر نہیں آئے۔ بجٹ کے بارے میں تو اسد عمر صاحب بھی کہہ گئے تھے کہ بہت مشکل ہو گا لیکن میں اُمید کرتا ہوں کہ ایسے پوائنٹ تلاش کرے گی جس میں عوام کو کچھ ریلیف ملے، کوئی آسانی بھی ہو۔ اس کی ایک بڑی وجہ بھی ہے کہ پرانے لوگ لوٹ کر لے گئے سوال یہ ہے کہ جو لوگ لوٹ کر لے گئے ان کے بارے میں کوئی سزا تو نظر نہیں آ رہی۔ بس پیشیاں پڑتی ہیں ضمانتوں پر ضمانتیں ہوتی ہیں لگتا ہے ان کو ریلیف مل رہاہے۔ ایک مہینہ اور انتظار کریں روزانہ اخبار دیکھتے رہیں مثال کے طور پر فیصل آباد کے لوگ جعلی اکاﺅنٹس کے بارے میں پکڑے گئے تھے کوئی خبر آتی ہے صوبوں میں وزراءکی کارکردگی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ضیا شاہد نے کہا کہ مثال کے طور پر دیکھیں کہ صحت کے شعبے میں جتنی فلاپ وزیر یاسمین راشد ثابت ہوئی ہیں یعنی مجھے دوردراز تک پنجاب میں صحت کے معاملے میں کوئی پیش رفت نظر نہیں آتی، سوائے اس کے کہ صحت کارڈ جاری ہوں گے پر اس کے بعد کچھ نہیں۔ جو صحت اور ہسپتالوں کی بری حالت ہے اور جو بدانتظامی ہے جو ہمارے ساتھ ہی صحت کا سیکرٹریٹ ہے اس کے اندر جو کچھ ہو رہا ہے وہ بہت سی بے اطمینانی ہے کام کرنے والے مطمئن نہیں، مریض مطمئن نہیں ہیں لواحقین مطمئن نہیں ہیں۔ ہم ان سے کسی دن پوچھیں گے کہ بطور سیاستدان وہ ایکٹو تھیں وہ بطور وزیر اتنی فلاپ کیوں ہیں۔ ملک میں دو نظام ہیں آج ہیومن رائٹس واچ پروگرام میں دوپہر کے وقت ایک خوفناک کیس سامنے آیا کہ فاٹا کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہاں سپیشل لاز ہوتے ہیں لیکن ڈیرہ غازی خان کے بارے میں ایک لڑکے کی جو کہ 13,12 سال ہے اور جنگلوں میں مارا مارا پھرتا ہے چھپا ہوا ہے کیونکہ اس کو کار اقرار دے دیا گیا کہ یہ ایک برائی میںملوث ہے وہ قرآن پر حلف اٹھا کر کہہ بیٹھا ہے کہ میرا کوئی قصور نہیں اور دوسری طرف ایک پولیس والا ایس ایچ او دو اس پنچایت میں شریک تھا اور قبائلی علاقہ ہے پتہ نہیں کون سے قبائل وہاں رہتے ہیں اور وہاں پنچایت میں فیصلہ ہوا اور اس میں ایس ایچ او بھی موجود تھا۔ پولیس کا۔ اور فیصلہ ہوا کہ جو عورت کاری ہے جس پر اہزام ہے اس کے بارے میں فیصلہ ہوا کہ اس کو بیچ دیا جائے 12 لاکھ روپے ہیں۔ اندازہ کریں یہ پاکستان ہے یہ ملک ہے۔ یہ کس لئے بنا تھا کہ یہاں فیوڈل کے بنائے سپیشل لاز اپنا جو فیصلہ کر لیں بیٹھ کر اور پولیس فورس تسلیم کرتی ہے میں نے اپنے لیگل ایڈوائزر سے کہا ہے کہ یہ جی ایس کیس کو لے کر آپ ملتان میں میاں غفار سے کہا ہے کہ سارے پیپرز بھیجیں اور لاہور ہائی کورٹ میں آپ چیلنج کر دیں۔
ضیا شاہد نے کہا کہ وزارتوں کی جو تبدیلیاں ہیں عوام نے اس کا اچھا تاثر لیا ہے اس پر اکثر لوگوں نے خوشی کا اظہار کیا ہے کہ چلیں کوئی ایکشن تو ہوا لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ بات بھی کہی جاتی ہے کہ لوگوں کو ریلیف چاہئے۔ ریلیف یہ ضرور ملا ہے کہ عامر کیانی کو وہ جو دوائیں جنہوں نے مہنگی کر دی تھیں ان کو فارغ کر دیا گیا ہے ان کو کوئی وزارت بھی نہیں دی گئی۔ لیکن جو اس وقت صورتحال یہ ہے کہ میری بیوی جو ہرمہینے دوائیں منگواتی ہے اس کی دوائیں ساڑھے دس ہزار کی آتی ہیں جناب اس مہینے میں اس کی چودہ ہزار کچھ روپے کی دوائیں آئی ہیں۔ زندگی اب بڑی مشکل ہو رہی ہے۔ بجلی کا بل مہنگا ہے گیس مہنگی ہے، پانی مہنگا ہے مہنتائی بڑھ گئی ہے خالص دودھ ملتا نہیں ایک صاحب نے کہا کہ خالص دودھ مل جائے جتنے پیسوں کا بھی مل جائے۔ خالص دودھ ملنے کا تو تصور ہی ختم ہوتا جا رہا ہے دودھ میں خطرناک اشیاءکی ملاوٹ کی جاتی ہے جس سے لوگ خاص طور پر بچے بیمار ہو رہے ہیں۔
اسد عمر کو ہٹانے کے حوالے سے خورشید شاہ کے بیان میں صداقت نظر نہیں ااتی، انہیں ڈھنگ کی بات کرتے کم ہی سنا ہے، ہر جگہ انہیں سازش نظر آتی ہے، ہمیشہ نان ایشوز پر بات کرتے ہیں۔ اسد عمر کو مسلسل بڑھتی مہنگائی پر کنٹرول نہ پانے پر فارغ کیا گیا۔ دوسرا وہ اپنے بیانات سے عوام کو مسلسل ڈرا رہے تھے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ لوگوں نے معاشی مسائل کا ذمہ دار انہیں قرار دیا اور وہ ولن بنا کر نکال دیئے گئے، ہو سکتا ہے اب ان کی جگہ اور بڑا ولن آ جائے فیاض الحسن چوہان کو بھی دوبارہ کابینہ میں واپس لانے کی باتتیں ہو رہی ہیں۔ انہوں نے متعصب ہندوﺅں بارے بیان دیا تھا جسے بنیاد بنا کر فارغ کر دیا گیا۔ فیاض چوہان بھاگ دوڑ تو کرتے تھے۔ میرے خیال میں وزارت صحت انہیں دے دینی چاہئے۔ وزیراعظم عمران خان، وزیراعلیٰ عثمان بزدار کو ایماندار سمجھتے ہیں اس لئے لگتا نہیں کہ ان کو تبدیل کر دیا جائے گا۔
وہاڑی میں پروفیسر کی ملازمہ سے زیادتی کا واقعہ سامنے آیا ہے اگر اس میں حقیقت ہے تو شرم کا مقام ہے کہ معاشرہ کہاں پہنچ چکا ہے استاد تو والد کی جگہ ہوتا ہے اگر وہیں ایسا طرز عمل اختیار کر لے تو شرمناک ہے۔ اس طرح کے واعات کی ایک وجہ ہمارا نظام انصاف ہے جس میں مقدمہ درج کرانے، تحقیقات کرنے اور عدالتوں میں کیس چلنے میں بھی سال لگ جاتے ہیں اور کوئی نتیجہ نہیں نکلتا۔ ہمارے یہاں گناہ اور سزا کے درمیان کوئی منطقی ربط نہیں ہے۔ اس طرح کے واقعات میں ملوث افراد کو جب تک نشان عبرت نہ بنایا جائے گا ایسے جرم کم نہ ہوں گے۔


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain