تازہ تر ین

ان تصاویر نے دنیا میں دھوم کیوں مچا رکھی ہے؟

واشنگٹن:(ویب ڈیسک)اوپر موجود تصویر دیکھیں اور اندازہ لگائیں کہ دنیا بھر میں اس کی دھوم کیوں ہے اور ٹیکنالوجی ماہرین ان کو سراہنے پر کیوں مجبور ہوگئے ہیں؟کیا کوئی اندازہ ہوا؟ اگر نہیں تو بڑے جھٹکے لیے تیار ہوجائیں۔درحقیقت آپ کی طرف دیکھنے والا یہ چہرہ حقیقی نہیں بلکہ آرٹی فیشل انٹیلی جنس (مصنوعی ذہانت) ٹیکنالوجی سے تیار کردہ ہے۔جی ہاں اب اے آئی کی مدد سے ایسی فرضی افراد کی تصاویر بنانا آسان تر ہوتا جارہا ہے جو لوگوں کو یہ ماننے پر مجبور کردیتی ہیں کہ یہ حقیقی شخصیت ہیں۔ایک کمپنی نے ایسے ایک لاکھ چہرے تیار کیے ہیں جو کوئی بھی مفت استعمال کرسکتا ہے اور ان میں سے بیشتر تصاویر جعلی لگتی بھی ہیں مگر متعدد ایسی بھی ہیں جن کو دیکھ کر ان تصاویر سے انہیں الگ شناخت کرنا مشکل ہوجاتا ہے جو اسٹاک فوٹو کمپنیاں لائسنس پر فروخت کرتی ہیں۔آئیکونز 8 نامی ٹیم اس منصوبے کے پیچھے ہے جو ان تصاویر کو ویب سائٹ اور موبائل ایپس سمیت متعدد چیزوں کے ڈیزائن کے لیے استعمال کرنے کی خواہشمند ہے اور اس کی ویب سائٹ جنریٹڈ فوٹوز پر تصاویر کو حاصل کرکے مفت استعمال بھی کیا جاسکتا ہے۔رواں برس اس طرح کے کئی اے آئی پراجیکٹس سامنے آئے ہیں جن میں فرضی شخصیات کے چہروں کو استعمال کیا گیا، جن میں سب سے نمایاں دس پرسن ڈوز ناٹ ایگزسٹ ڈاٹ کام نامی ویب سائٹ ہے جو کچھ ماہ پہلے وائرل ہوئی تھی۔آئیکونز 8 کے پراڈکٹ ڈیزائنر کونسٹنٹین زیبیسکی کے مطابق ان کا منصوبہ ابھی ابتدائی مراحل میں ہے اور یہی وجہ ہے کہ کچھ چہرے اصل جیسے نہیں۔اس تخلیقی ٹیم کے پیچھے کمپنی ایک ارجنٹائنی ایون براﺅن کی ہے جو نیویارک میں کام کرتی ہے اور اس کے ترجمان کا کہنا ہے کہ جنریٹڈ فوٹوز لوگوں کو اسٹاک تصاویر کے حوالے سے درپیش مشکلات کا حل ثابت ہوگی۔ترجمان کے مطابق ہمارا مقصد ڈیزائنرز اور دیگر تخلیقی کاروں کو مفت، قانونی اور زیادہ تنوع والی معیاری تصاویر فراہم کرنا ہے اور اس مقصد کے لیے مشین لرننگ ٹیکنالوجی کو استعمال کرکے چہروں پر مختلف تاثرات اور دیگر عناصر کا اضافہ کیا جاتا ہے۔آئیکونز 8 کے بانی ایون براﺅن نے ایک بلاگ پوسٹ میں لکھا کہ اس مقصد کے لیے جو الگورتھم استعمال کیا گیا، اس کے لیے 3 برسوں کے دوران 69 ماڈلز کی 29 ہزار تصاویر فیڈ کی گئی تاکہ اس کی تربیت کرکے چہروں کو تیار کیا جاسکے۔اور اکثر تصاویر اتنی حقیقی لگتی ہیں کہ یقین کرنا مشکل ہوتا ہے کہ یہ چہرے حقیقی انسانوں کے نہیں، اور اس حوالے سے کمپنی نے یہ واضح نہیں کیا کہ ان کا غلط استعمال کس طرح روکنا ممکن ہوگا۔کیونکہ لوگوں کو قائل کردینے والے یہ فرضی چہرے ڈیزائنرز کے لیے مددگار تو ثابت ہوسکتے ہیں مگر مستقبل میں اس طرح کے سافٹ وئیر مشتبہ سرگرمیوں کے لیے استعمال کیے جانے کا امکان رد نہیں کیا جاسکتا۔


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain