تازہ تر ین

سیاستدان اعتدال کا راستہ اپنائیں ،اتنا آگے نہ بڑھیں واپسی مشکل ہو،مجیب الرحمن شامی

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے پروگرام ضیا شاہد کے ساتھ میں معروف صحافی وتجزیہ نگار،روزنامہ پاکستان کے ایڈیٹرانچیف مجیب الرحمن شامی کے ساتھ مکالمے میں ہونے والی قارئین کی دلچسپی کے لئے سوالاً جواباً پیش خدمت ہے۔
ضیا شاہد: تحریک انصاف نے دعویٰ کیا تھا ایک کروڑ نوکریاں، 50 لاکھ گھر دیں گے۔ ملک میں کرپشن کا خاتمہ کریں گے تا کہ بیرونی سرمایہ کاری بڑھے۔ لیکن اس کے برعکس صورت حال یہ ہے کہ مہنگائی بیروزگاری بڑھ رہی ہے۔ آپ کیا سمجھتے ہیں عمران خان کو اچھی ٹیم نہیں مل سکی یا ترجیحات درست نہیں۔ اب عمران خان نے یقین دلایا ہے کہ حالات 4,3 ماہ میں ٹھیک ہو جائیں گے۔ آپ کیا سمجھتے ہیں کہ اس بات پر یقین کر لیا جائے۔
مجیب الرحمن شامی: ہر حکومت جو آتی ہے دعوﺅں کے ساتھ ااتی ہے جب حقائق سامنے آتے ہیں تو اس کے دعوے دھرے رہ جاتے ہیں۔ عمران خان نے بھی تب دعوے کئے تھے ابھی تک ان کے دعوﺅں کے مطابق حالات نہیں سدھرے۔ کوشش کر رہے ہیں بعض دورس حالات بھی نافذ ہو رہی ہیں اور اکانومی کو سنبھالنے کی کوششیں بھی ہو رہی ہیں مگر ابھی تک حالات ایسے ہیں جیسے ”نہ ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں“ ایک سال گزرا ہے ہمیں تھوڑا انتظار کرنا پڑے گا۔ اور دیکھنا پڑے گا کہ حکومت آگے جا کر کیا کرتی ہے اور جو کچھ اقدامات وہ ریونیو کے اضافے، برآمدات بڑھانے، درآمدات کم کرنے کے لئے، کرنٹ اکاﺅنٹ خسارہ کم کرنے کا، اور وہ کیسے ہوتے۔ ان میں سے کچھ معاملات میں تو پیش رفت ہو رہی ہے۔یکسر یہ کہہ سکتے کہ معاملہ خراب ہے۔ ایف بی آر کا دعویٰ ہے کہ 90 فیصد اہداف حاصل کر لئے ہیں۔
سوال:گزشتہ حکومت میں بہت قرضے لئے گئے۔ عمران خان نے اپنے کنٹینر سے ان پر بڑی تنقید بھی کی۔ آج لوگ پوچھتے ہیں جس حکومت نے قرضے لئے ہوئے تھے۔ بقول عمران خان نے بڑی فضول خرچی کی ہوئی تھی اس کے دور میں تو مہنگائی اتنی نہیں بڑھی ور ڈالر ریٹ بھی قابو میں رہا۔ اسحق ڈار کے پاس کیا راز تھا کہ وہ ڈالر سیٹ کو نیچے رکھنے میں کامیاب رہے۔
جواب: وہ ڈالر ریٹ میں کامیاب ہوئے اس پر تنقید بھی ہوتی ہے وہ سٹیٹ بنک کو مداخلت کرنی پڑتی تھی اور جب ڈالر کی قیمت بڑھتی تھی تو سٹیٹ بنک ڈالر مارکیٹ میں پھینکتا تھا اس سے وہ قیمت کم ہو جاتی تھی۔ اسحق ڈار صاحب جو فلسفہ تھا وہ یہ تھا کہ ڈالر کی جب قدر بڑھے گا اور روپیہ کی کم ہو گی تو پاکستان کے بوجھ میں اضافہ ہو جائے گا۔ کیونکہ پاکستان میں بہت سی چیزیں درآمد ہوتی ہیں جو ایکسپورٹ اورینٹڈ انڈسٹری ہے اس میں بھی بہت کچھ درآمد کرنا پڑتا ہے درآمد کا بوجھ بھی بڑھے گا اور جو قرضے لئے ہیں ڈالرز میں ان کے واپسی بھی ڈالرز میں ہونی ہے ان کا بوجھ بھی بڑھے گا اس لئے ان کا فلسفہ یہ تھا کہ اگر مارکیٹ میں روپے کو کھلا چھوڑ دیا جائے تو یہ خسارے کا سودا ہے اور ڈالر پھینکتا جو ہے وہ خسارے کا سودا نہیں ہے نسبتاً تو انہوں نے اس طریقے سے ڈالر کو قابو میں رکھا۔ لیکن معاشی ماہرین کا ایک اور گروہ ہے جو یہ سمجھتا ہے کہ ڈالر کو مضبوط طریقے سے روپے کے مقابلے میں اس کی قدر کو متعین رکھنا جو ہے وہ بالآخر نقصان ہوتا ہے اس سے برآمدات بڑھتی ہیں اور برآمدات کا خسارہ ہوتا ہے۔ یہ دو فلسفے ہیں لیکن اسحق ڈار کر رہے تھے ہمارا گروتھ ریٹ وہ 5.75 کے لگ بھگ تھا اس سے بازاروں میں چہل پہل تھی اور ہر چیز چلتی نظر آتی تھی افراط زر کم تھا لوگوں کو کام مل رہے تھے جاب مارکیٹ میں بڑی مانگ تھی اس لئے اس لحاظ سے اکانومی کا آگے چل رہا تھا اب جو موجودہ حکومت نے جو اقدامات کئے ہیں اس کے نتیجے میں مہنگائی بڑھی ہے ان فلیشن زیادہ ہوتی ہے۔ انٹرسٹ ریٹ بڑھا ہے اور پھر انہوں نے آپ کی جو ٹیکس نیٹ کو وسیع کرنے کی کوشش کی ہے جو تاجروں، بزنس مینوں پر کچھ پابندیاں لگائی ہیں اس کے نتیجے میں کساد بازاری آئی ہے اور جو انٹرسٹ ریٹ برھنے کی وجہ سے مارکیٹ میں جو ہے مندا ہوا ہے۔ مہنگائی بیروزگاری بڑھ گئی ہے اورلوگ چیخ رہے ہیں۔ قرضہ لینا کوئی بری بات نہیں ہے کیونکہ آپ کے پاس اپنے وسائل نہ ہوں تو ترقی کے لئے آپ کو بیرونی وسائل پر انحصار کرنا پڑتا ہے جیسے ہمارے ہاں کئی انڈسٹریز لگتی ہیں وہ بینکوں سے قرضے لیتی ہیں۔ چھوٹی کیپسٹی ان کی اپنی ہوتی ہے اور وہ کمپنیز اپنی انڈسٹری لگا کر قرضے واپس کرتی ہیں۔ اس طرح ملکوں کا معاملہ ہے۔ اگر قرض آپ پیداواری مقاصد کے لئے لے رہے ہیں پھر تو اس میں حرج نہیں ہے کیونکہ آپ کی قرض واپسی کی کیپسٹی بڑپتی ہے۔ نوازشریف دور میں قرضے لئے گئے ان میں انفراسٹرکچر ڈویلپ ہوا ان میں بجلی پیدا کرنے کے کارخانے لگے اور کئی ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کی گئی پاکستان کی تاریخ میں کبھی 4,3 سال کے اندر اتنی مقدار میں بجلی پیدا نہیں کی جا سکی گو جو توانائی کا بحران تھا اس پر قابو پایا گیا اور جو انفراسٹرکچر ہے سڑکوں کی تعمیر، مٹر وے کی تعمیر، گوادر کی تعمیر کی طرف پھر سی پیک کی تعمیر اس پر اس کی وجہ سے جو قرضے بڑھے ہیں ملکی معیشت پر بوجھ نہیں پڑا بلکہ نئے امکانات پیدا کئے ہیں اور وہ مومینٹم برقرار رہتا ہم اپنے کرنٹ اکاﺅنٹ خسارے اس کی طرف زیادہ توجہ دے سکتے تھے اور اس پر قابو پا سکتے تھے۔ کیونکہ وہ مومینٹم ٹوٹ گیا اس کی وجہ سے ہمیں بہت سی مشکلات درپیش ہوئیں اور مشکلات کا نتیجہ ہے جو آج ہم سب بھگت رہے ہیں۔
سوال: وزیراعظم بار بار کہہ چکے ہیں کہ ایک سال جو مشکل کا تھا وہ گزر گیا اب بہتری آنے والی ہے۔ چار سے 6 مہینے میں معاشی خوشحالی نظر آنے لگے گی۔ آپ یقین کرتے ہیں۔
جواب: سیاسی رہنما خواب بیچتے ہیں، خوابوں کی تجارت کا نام ہی سیاست ہے، اگر سیاست دان امید نہ بندھائیں اور توقع اور ڈھارس نہ بندھائیں تو پھر معاملات ان کے ہاتھ سے نکل جاتے ہیں عمران خان اچھے سیاستدان ہیں کہ وہ لوگوں کے ساتھ ان کا تعلق برقرار رہتا ہے اور ان کو خواب بھی دکھاتے رہتے ہیں چند ماہ بیشتر بہت بڑے پیمانے پر گیس اور تیل کے ذخائر برآمد ہونے کا خواب دکھایا تھا اور کئی مہینے تک ہم اس میں سرشار رہے کہ بہت بڑی مقدار میں گیس کے ذخائر پاکستان میں دریافت ہونے والے ہیں پھر آپ نے دیکھا کہ وہ توقع پوری نہیں ہوئی اب ظاہر ہے کہ یہ ان کا کام ہے اگر وہ لوگوں کو پراُمید نہیں رکھیں گے تو پھر معاملہ نہیں چل سکتا۔ اب اگر وہ کہہ رہے کہ جو نیا ٹارگٹ دیا ہے۔ انہوں نے اس میں شبہ نہیں کہ بعض معاملات میں بہتری آئی ہے ہماری درآمدات کم، برآمدات بڑھنے کی امید بندھی ہے۔ ہم مشکل سے ڈیفیٹ پر قابو پانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہمارا ریونیو ٹارگٹ جو ہے وہ بڑھ رہا ہے۔ ہمیں دُعا کرنی چاہئے کہ یہ اُمید پوری ہو اور آئندہ آنے والے دن گزرے دنوں سے بہتر ہوں لیکن رپورٹیں آ رہی ہیں جو ورلڈ بینک کہہ رہا ہے جو عالمی ادارے کہہ رہے ہیں وہ کہہ رہے ہیں پاکستان میں مشکلات جو ہیں وہ دو سال تک جاری رہیں گی اور لوگ سکھ کا سانس نہیں لے سکیں گے لیکن اگر ہم دو سال کے بعد بھی اپنی معیشت کی بنیادیں مضبوط کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو اور ٹیکس وصولی کا نظام بہتر بنا لیتے ہیں اور ہر آمدن والے شحص سے اس سے اس کا حصہ وصول کر لیتے ہیں تو میرا خیال ہے کہ ہم ایک اچھی بنیاد رکھ سکیں گے۔
سوال: پنجاب اور خیبرپختونخوا میں وزراءاعلیٰ جو ہیں وہ عمران خان نے اپنی مرضی سے لگائے ہیں لیکن نہ تو مہنگائی کنٹرول میں آ رہی ہے نہ ڈینگی کنٹرول میں ہے نہ تاجر مطمئن ہیں، نہ ڈاکٹر مطمئن ہیں، مختلف طبقات پریشان ہیں۔ کیا یہ صوبائی حکومتوں کا دائرہ کار نہیں ہوتا کہ وہ گڈ گورننس لائیں اورکیا آپ کے خیال میں پنجاب اور کے پی کے میں جس طرح سے عمران خان کہا کرتے تھے کہ کے پی کے کی حکومت بڑی آئیڈیل ہے وہاں پولیس اصلاحات کی ہوئی ہیں لیکن اب اتنا وقت گزرنے کے باوجود پنجاب میں پولیس اصلاحات نظر آئی ہیں، بلدیاتی ادارے بھی نہیں بن رہے۔ جس کی وجہ سے گراس روٹ تک عوام تک ڈیموکریسی نہیں پہنچ رہی۔ کیا ایک سوا سال گزر چکا ہے کیا یہ صورت حال ایسے رہی گی یا بہتر ہو جائے گی۔
جواب: پنجاب اور خیبرپختونخوا میں بھی گورننس کے مسائل ہیں اگرچہ سندھ میں ی ٹی آئی کی حکومت پنجاب ہے لیکن گورننس کے اعتبار سے وہ سب سے پیچھے ہے۔ بلوچستان کے وزیراعلیٰ جو ہیں جام کمال نئے تجربے کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پنجاب میں ایک مخلوط حکومت ہے پی ٹی آئی کی اکثریت نہیں ہے وہ آزاد ارکان کو ساتھ ملا کر مسلم لیگ ق کو ملا کر حکومت بنی ہے۔ ان کی پارٹی کے اندر جو لوگ وزارت اعلیٰ کے بڑے اہل سمجھے جاتے تھے وہ سارے کسی نہ کسی مقدمے میں الجھ گئے ہیں کچھ ایسی چیز ہوئی کہ ان کی سلیٹ کلین نہیں رہی اس لئے جو پی ٹی آئی کے اندر دھڑے ہیں بعض اوقات ان کا توازن کو برقرار رکھنے کے لئے کسی ایسے شحص کو آگے لایا جاتا ہے جو دھڑے بندی میں ملوث نہ ہو اور وہ سارے لوگوں کو یکساں ڈیل کر سکے۔ عثمان بزدار کو عمران خان کو اس لئے چنا ہے کہ ان کا اپنا کوئی دھڑا نہیں ہے ان کی اپنی کوئی فالونگ نہیں ہے اس پر پارٹی کی لیڈر شپ پر اعتماد کرتے ہیں اور ان کی طاقت سے ان کی طاقت بنتی ہے یہ مثبت بھی اور منفی نقطہ بھی ہے کہ جب وسائل کم ہوں گے میگا پراجیکٹس شروع ہو چکے ہوں ان کو پایہ تکمیل تک پہنچانا ہو تو پھراس کی مشکلات بھی ہوتی ہیں جب گورننس کا تجربہ نہ ہو پھر چیزوں سے ڈیل کرنا پڑے تو اس کی مشکلات بھی ہوتی ہیں۔ ابھی جو مولانا فضل الرحمان کا آزادی مارچ ہے جس طریقے سے وفاقی حکومت نے پنجاب حکومت نے ڈیل کیا ہے یعنی اس سے بات چیت کر کے اس کو ایک سپیس دی گئی اور اس کے راستے میں رکاوٹ نہیں ڈالی گئی۔ مارچ کے کارکنوں اور پولیس کے درمیان کوئی تصادم نہیں ہوا۔ درمیان میں کوئی ناخوشگوار واقعہ نہیں ہے تو اس کا کریڈٹ پنجاب حکومت کو اس کا کریڈٹ دیا جائے اور وفاقی حکومت کو بھی دیا جانا چاہئے۔ خود آزادی مارچ کے شرکاءکو بھی دیا جانا چاہئے۔ آج سے پہلے ہم دیکھتے تھے کہ جب اپوزیشن کوئی جلوس نکالتی تھی یا احتجاج کرتی تھی تو انتظامیہ حرکت میں آ جاتی تھی تصادم کی نوبت آتی تھی کسی نہ کسی کی جان جاتی تھی۔ آمد و رفت میں خلل پڑتا اور دفتر بند ہوجاتے، سکول بند ہو جاتے تھے ایسا کوئی منظر ہم نے نہیں دیکھا۔ پنجاب حکومت ایسے حالات میں ڈیل کرنے کا تجربہ حاصل کر رہی ہے آنے والے دنوں میں دیکھنا پڑے گا اور ثبوت دینا پڑے گا ہو سکتا ہے کہ انہیں چیزوں کو بہتر کرنے میں کامیابی ہو جائے۔
سوال: سینئر صحافی ارشاد عارف کہتے ہیں کہ آزادی مارچ ملکی ایجنڈا نہیں بلکہ اازادی کشمیر کی مہم کو دبانے کی کوشش ہے، مولانا فضل الرحمان کیا مطالبات پیش کریں گے؟
جواب: کاش حکومت و اپوزیشن میں خلیج نہ ہوتی تو ان کی ساری توجہ کشمیر ایشو پر ہوتی، میں نے تجویز دی تھی کہ پاکستان کی سیاست کو 6 ماہ یا سال کیلئے پس پشت ڈالا جائے اور صرف کشمیر ایشو پر توجہ دی جائے لیکن کسی نے بات نہ سنی۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں شرکت کیلئے اپوزیشن کے گرفتار رہنماﺅں کو پروڈکشن آرڈرجاری کر دیتے تو بھی فضا بہتر ہوتی تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی صرف اپوزیشن کو ہی مورد الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا حکومت کا لہجہ بھی نہیں بدلا۔ اب پانچ کروڑ کے الزام پر جیل میں سی کلاس میں رکھنے کی خبر آئی ہے، مطلب صرف یہ ہے کہ اپوزیشن رہنماﺅں کو سی کلاس میں رکھنا مقصود ہے۔ مولانا اور دیگر تمام اپوزیشن رہنما محب وطن ہیں، الزامات کی سیاست ہو رہی ہے، الزام کی صحافت کا قائل نہیں ہوں نہ الزام لگاتا ہوں نہ یقین رکھتا ہوں اُمید ہے کہ مولانا قانون کے دائرے میں رہ کر ہی مطالبات اور احتجاج کریں گے، جو قانون ہاتھ میں لے گا اس کے ہاتھ جلیں گے آنے والا وقت بتائے گا کہ کون کہاں کھڑا ہے اور بالآخر کیا ہو گا۔
سوال: عمران خان نے نواز حکومت کیخلاف دھرنا دیا، وزیراعظم کے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا اس وقت ماہرین کہتے تھے کہ ایسے حکومت نہیں گرائی جا سکتی۔ کیا لوگوں کا مجمع اکٹھا کر کے یا الزام دے کر حکومت وقت سے استعفیٰ لیا جا سکتا ہے؟
جواب: عمران خان کے دھرنے اور وزیراعظم سے استعفیٰ مانگنے کی میں نے بھرپور مخالفت کی تھی کہ ایسے حکومت گرنی چاہئے نہ بننی چاہئے۔ آج بھی تائید نہیں کی جا سکتی کہ جلسہ یا دھرنا دے کر حکومت ختم کر دی جائے۔ حکومت کے رخصت کرنے کا آئین میں طریقہ موجود ہے، تحریک عدم اعتماد لائی جائے یا عمران خان اپنی مرضی سے مستعفی ہوں، کوئی بھی وزیراعظم کو زبردستی استعفیٰ دینے پر مجبور نہیں کر سکتا تاہم استعفیٰ یا الیکشن کا مطالبہ ضرور کیا جا سکتا ہے لیکن اس کیلئے تشدد کا راستہ اختیار نہیں کیا جا سکتا۔ قانون ضابطے کے تحت کوئی بھی احتجاج یا دھرنا دے سکتا ہے تاہم کوئی کتنے بھی خوشنما الفاظ استعمال کر لے اگر دستور کی مخالفت ہو رہی ہے تو ہمیں مزاحمت کرنا ہو گی۔ حکومت سے مطالبات کرنا غیر قانونی نہیں بازار راستے بند کرنا، لوگوں کو گھروں میں محصور کر دینا اور نظام زندگی میں خلل ڈالنا غیر قانونی ہے۔ عمران خان بھی دھن کے پکے ہیں ان کا مستعفی ہونے کا ارادہ نہیں لگتا، کوئی بھی اس طرح سے ان کے استعفے کی تائید بھی نہیں کر سکتا۔
سوال: نوازشریف کے پلیٹ لیٹس میں کمی پیشی کا مسئلہ ہے، ڈاکٹرز نے بیرون ملک علاج تجویز کیا ہے میرے نزدیک انہیں علاج کیلئے بھیجنے میں کوئی ہرج نہیں آپ کیا سمجھتے ہیں؟
جواب: ڈاکٹرز سمجھتے ہیں تو نوامشریف کا علاج یہاں ممکن نہیں تو باہر بھیج دینا چاہئے نوازشریف سمجھتے ہیں کہ انہیں بیرون ملک بہتر علاج کی سہولت مل سکتی ہے تو وہ خود بہتر فیصلہ کر سکتے ہیں اس بارے ہماری رائے کا وزن نہیں ہے۔
سوال: پچھلے ادوار میں مسئلہ کشمیر پر ہمیشہ سب کی رائے ایک رہی، وزیراعظم عمران خان نے یو این میں جو تقریر کی اسے سراہا گیا تاہم پی پی اور ن لیگ نے پسند نہ کی۔ کشمیر کے ایشو پر تو ہم سب کو ایک ہونا چاہئے، مولانا تو خود 10 سال کشمیر کمیٹی کے چیئرمین رہے ہیں انہیں تو اس معاملہ پر مختلف اور جداگانہ رائے نہیں رکھنی چاہئے مولانا یہ بھی کہتے ہیں کہ عمران خان تو مہرہ ہیں ان کا ٹارگٹ تو اصل قوت کو پکڑنا ہے کیا ان کا اشارہ فوج یا اس کی قیادت کی طرف ہے؟
جواب: مولانا فضل الرحمان عمران خان کو مہرہ قرار دیتے ہیں بلاول بھٹو و دیگر اپوزیشن رہنما بھی ایسی ہی بات کرتے ہیں۔ ہم ایسی گفتگو کر سکتے ہیں نہ اس میں شریک ہو سکتے ہیں۔ سیاست میں اعتدال ہونا چاہئے اتنا آگے نہیں بڑھنا چاہئے کہ واپسی کا راستہ بھی نہ رہے۔ نواز دور میں واجپائی آئے تھے تو اپوزیشن نے گورنر ہاﺅس سے شاہی قلعہ تک جانا دشوار بنا دیا، نریندر مودی نوازشریف سے ملنے آئے تو نعرہ لگایا گیا کہ ”مودی کا جو یار ہے غدار ہے“ حتیٰ کہ بلاول بھٹو نے بھی یہ نعرہ لگایا۔ سیاسی رہنماﺅں کو یہ اختیار کردہ چلن تبدیل کرنا ہو گا اس پر نظر ثانی کرنا ہو گی۔ بھارت کے ساتھ معاملات اور کشمیر کے معاملہ پر سب کو قومی پالیسی سے منسلک رہنا چاہئے۔ عمران خان کی یو این میں تقریر کو پاکستان سمیت دنیا بھر میں پسند کیا گیا۔ مسئلہ کشمیر کا حل حکومت اور اپوزیشن دونوں کی ذمہ داری ہے۔ یہ امر افسوسناک ہے کہ ادھر کشمیر کی آزادی تحریک چل رہی ہے اور ادھر ہم آزادی مارچ چلا رہے ہیں اتہم اس کی ذمہ داری کسی ایک فریق پر نہیں ڈالی جا سکتی حکومت کو نیب کو ہدایت کرنی چاہئے کہ بیس پچیس سال پرانے مقدمات کو کھول کر ان پر گرفتاریاں نہ کرے، کسی حالیہ موجودہ حالات میں واردات ہو تو ایسے اقدام کا جواز بنتا ہے تاہم اس کا کوئی جواز نہیں کہ کسی لیڈر کو اتنے پرانے مقدمے میں گرفتار کیا جائے۔ نیب نے نوازشریف کیخلاف بھی پرانا مقدمہ کھول کر گرفتاری کی اور تفتیش کا ڈھونگ رچایا، اسی حراست کے دوران نوازشریف کے پلیٹ لٹس نیچے آئے اور حالت خراب ہو گئی ایسے رویے اچھے نہیں ہیں۔ اگر بزنس مین اور صنعتکاروں کو ریلیف دینے کیلئے اگر کمیٹی بنائی جا سکتی ہے۔ چیئرمین نیب انہیں یقین دلا سکتے ہیں کہ ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہو گی تو ایسا ہی سلوک سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کے ساتھ کیوں نہیں کیا جاتا کیا وہ سوتیلے ہیں۔ جس طرح کے مقدمات بنائے گئے ہر شحص سمجھتا ہے کہ مضحکہ خیز ہیں ان میں شاہد خاقان عباسی، مفتاح اسماعیل اور پی ایس او کے سابق ایم ڈی پر مقدمہ ہے یہ سب تکنیکی اہمیت کے مقدمات ہیں بیوروکریٹساس لئے کام نہیں کر رہے۔ نیب کو کرپشن کا پیچھا کرنا چاہئے اداروں میں بے ضابطگی کو کرپشن نہیں سمجھنا چاہئے۔


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain