تازہ تر ین

آرمی چیف کا کہنا ہے جو کام ہو چکا ہے ،اسے واپس نہیں لیں گے،ضیاشاہد

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں، تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے کہنہ مشق صحافی ضیا شاہد نے کہا ہے کہ آرمی چیف کی طرف سے بڑا واضح یغام ہے کہ خاص طور پر آزادی مارچ اور دھرنوں کے سلسلے میں۔ ایک تو انہوں نے قربانیاں رائیگاں نہیں جانے دیں گے انہوں نے کہا کہ ہم صورت حال کو ریورس نہیں ہونے دیں گے۔ اس کا مطلب ہے کہ اب تک جو اقدامات ہوئے ہیں ہم ان کو ریورس نہیں ہونے دیں گے۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ جتنی کوششیں کی جا رہی ہیں اس لئے کہ اقدامات کو کہا جا سکے جو این آر او بار بار کہہ رہے ہیں عمران خان وہ بھی اس لئے اور دوسرا یہ کہ فوج یہ پیغام دے دیا ہے استحکام کا لفظ استعمال کیا کہ ہم ملکی استحکام کے سلسلے میں کسی قسم دقیقہ نہیں چھوڑیں گے اور ہم ملکی استحکام کو ہر قیمت پر قائم رکھیں گے۔ استحکام کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ جو چل رہا ہے سٹیٹس کو اس کو برقرار رکھنا ہے اس کا مطلب استحکام ہوتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ اداروں نے آج سب سے موقر ادارہ ہو سکتا تھا اور یہ نام ہی اداروں کا لیتے تھے ان کا اصل مقصد فوج رہا ہے اور وہ بڑا واضح طور پر کہتے تھے کہ عمران خان جو وہ تو ایک مہرہ ہے ہم تو اصل میں مہرے کے پیچھے جو قوت ہے اس سے بات کر رہے ہیں اس کے پیچھے قوت جو ہے وہ نہ الیکشن کمیشن تھا۔ الیکشن کمیشن نے ایک مرتبہ الیکشن کروا دیا ہے اور بات ختم ہو گئی۔ نہ ہی اس کے پیچھے عدلیہ تھی یہ تینوں چیزیں پوچھی تھیں جو ڈی جی آئی ایس پی آر ہیں میجر جنرل آصف غفور نے اور انہوں نے کہا تھا کہ بتائیں مولانا کہ کیا مطلب ہے ان کا اداروں سے کیا الیکشن کمیشن مراد ہے کیا عدلیہ مراد ہے یا فوج مراد ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ انہوں نے خود ہی جواب بھی دے دیا کہ نہ عدلیہ جو ہے وہ عمران خان کو اور نہ عمران خان کے سلسلے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ اس کے پیچھے ہے اور عمران خان صرف مہرہ ہیں نہ ہی الیکشن کمشن۔ ساتھ ہی میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ اگر آپ کو دھاندلی کی شکایت ہے تو آپ کورٹ میں جائیں۔ ضیا شاہد نے کہا کہ اپوزیشن کا اندازہ ہو جائے گا۔ میں آپ کو دلچسپ بات آپ کو بتا رہا ہوں کل سے شور مچا ہوا تھا کہ چودھری شجاعت صاحب چلے گئے۔ چودھری شجاعت سے ملاقات ہو گئی بلکہ بار بار فون کر کے لوگ پوچھتے تھے کہ چودھری شجاعت کی ملاقات ہو گئی تو میں نے شام کو فون کیا تو پتہ چلا کہ چودھری شجاعت تو لاہور میں ہیں۔ پھر میں نے کہاکہ میری بات کروا دیں انہوں نے کہا کہ کپڑے بدل رہے ہیں کیونکہ ان کا شام کی فلائٹ سے اسلام آباد جانے کا پروگرام ہے۔ یقینا وہ اسلام آباد جا رہے ہیں شاید ملیں گے بھی لیکن اس سے کائٹ فلائنگ جتنی ہوتی ہے اس سے لگ رہا تھا، مجھے تو کل ہی لوگ پوچھ رہے تھے کہ لیٹ نائٹ ان کی ملاقات ہو گئی ہے یا نہیں۔ یہ اتنی کچی پکی خبریں لے کر لوگ چل پڑتے ہیں پھر قطعیت کے ساتھ رائے دیتے ہیں کہ یہ کام ہو گیا ہے۔ ملاقات کا امکان ہے ہو سکتا ہے کہ حکومتی کمیٹی کی ملاقات کے بعد چودھری شجاعت بھی لیٹ نائٹ ملیں ان سے ملیں۔یا لیکن ابھی ایک ملاقات رہتی ہے جو خٹک صاحب کی کمیٹی سے مولانا صاحب کی ملاقات ہونے والی ہے۔ مولانا کی تقریر کے بعد اندازہ ہو گا لیکن بات طے ہے کہ دو دن کا الٹی میٹم بھی ختم ہو گیا تیسرا دن بھی ختم ہو گیا جو یک دن کی مہلت دی تھی وہ مہلت بھی آج ختم ہو رہی ہے اب تو مولانا بہت سے اخبارات نے تو ایک جملہ لکھا ہے کہ مولانا فضل الرحمان اور حکومت ایک بند گلی میں پھنس گئے ہیں۔ لگتا یہی ہے کہ دونوں اپنی اپنی جگہ پر ایک بریکٹ میں آ گئے ہیں اب بڑا مشکل ہو گیا ہے اس میں سے راستہ نکالا۔ مولانا کو بھی راستہ چاہئے کہ وہ اب وہ مزید کیا کریں۔ دوسرا یہ کہ اگر انہوں نے مزید ایڈوانس کرنا ہے تو اپنی تقریر میں کہہ چکے ہیں کہ وہ نہ وزیراعظم ہاﺅس جائیں گے نہ ڈی چوک جائیں گے اس کا مطلب ہے کہ وہ خود ہی نیا راستہ بند کر چکے ہیں۔ اب آگے بڑھنا کس طرح بڑھنا ہے اب تو واپسی کا راستہ ہے آگے بڑھنے کا راستہ تو خود انہوں نے بند کر دیا ہے دوسری بات یہ ہے کہ انہوں نے کہہ دیا تھا کہ ہم اداروں کو دو دن کا وقت دیتے ہیں تو وہ دن بھی پورے ہو گئے۔ ان دونوں کا جواب تو کور کمانڈرز کانفرنس میں مل گیا۔ اس کی طرف سے واضح طور پر پیغام مل گیا کہ ملکی استحکام کے لئے آرمی تیار ہے۔ میری معلومات کے مطابق انہوں نے ناراضگی کااظہار کیا ہے کہ مسلم لیگ اور پیپلزپارٹی پر اور انہوں نے کہا کہ آپ کا جو طرز عمل ہے اسی سے حکومت کو شہ مل گئی ہے اور انہوں نے کہا کہ ہم اکیلے ہی کافی ہیں لیکن پھر آپ کے عزائم واضح ہو جائیں گے کہ آپ بجائے ہمارا ساتھ دینے کے آپ تو حکومت کا ساتھ دے رہے ہیں۔ضیا شاہد نے کہا کہ اللہ نوازشریف کو صحت دے میرے خیال میں وہ خود اس پوزیشن میں نہیں ہیں اور وہ سیاسی ٹاک بھی نہیں کر سکتے۔


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain