تازہ تر ین

بھارت :ہنگاموں میں شدت 14افراد ہلاک 1200گرفتار

نئی دہلی‘ بنگلور‘ لکھنﺅ‘ تلنگانہ (مانیٹرنگ ڈیسک‘ نیوز ایجنسیاں) بھارت میں متنازع شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج مزید شدت اختیار کر گیا جہاں مشتعلمظاہرین پر پولیس کے تشدد اور فائرنگ کے نتیجے میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 14 ہو گئی ہے۔ بھارت کے اکثر بڑے شہروں میں مظاہروں پر پابندی عائد کردی گئی ہے جہاں متنازع قانون کے خلاف ہونے والے مظاہروں میں اب تک 14 افراد ہلاک اور 1200 سے زائد افراد کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔ بھارت بھر میں متنازع شہریت قانون کے خلاف احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے جہاں درالحکومت دہلی میں نماز جمعہ کے بعد تاریخی جامع مسجد میں مظاہرے کیے گئے جس میں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ ہندوں سمیت دیگر مذاہب کے افراد بھی شریک ہوئے۔ دہلی میں احتجاج پرامن انداز میں شروع ہوا جس کے بعد پولیس نے پارلیمنٹ جانے والے 100 سے زائد مظاہرین کو آگے بڑھنے سے روک کر ان پر لاٹھی چارج کیا۔ نماز جمعہ کے بعد ہزاروں مظاہرین دہلی کی جامع مسجد کے باہر جمع ہوئے اور بھارتی پرچم لہراتے ہوئے حکومت کے خلاف شدید نعرے بازی کی اور مظاہرین نے مودی ہٹا کے بھی نعرے لگائے۔ کسی بھی قسم کی کشیدہ صورتحال سے بچنے کے لیے پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہکاروں کو مسجد اور اطراف کے علاقوں میں تعینات کیا گیا تھا اور ان مظاہرین میں سے اکثریت کے ہاتھ میں بھارتیہ آئین کا مسودہ تھا۔ مسجد کے باہر حکومت مخالف نعرے لگانے والے 42 سالہ بھارتی شہری شمیم قریشی نے کہا کہ جب تک یہ قانون واپس نہیں لیا جاتا، اس وقت تک ہم جدوجہد کریں گے، ہم پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ شہریت کے متنازع قانون کے خلاف بھارت بھر میں احتجاج جاری ہے اور پولیس کی فائرنگ سے 3 مظاہرین ہلاک جب کہ متعدد زخمی ہو چکے ہیں۔کرناٹکا، اتر پردیش، بنگلورو اور بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں بھی پابندیاں شہریوں کو احتجاج سے نہ روک سکیں، دہلی کے لال قلعہ، حیدر آباد اور تلنگانہ سے مظاہرین کو پولیس نے حراست میں لے لیا جب کہ معروف بھارتی مورخ اور دانشور رام چندر بھی احتجاج کے دوران گرفتار ہو گئے۔بھارتی میڈیا کے مطابق بنگلور میں پولیس نے مظاہرین پر لاٹھی چارج اور آنسو گیس کی شیلنگ کی لیکن اس کے باوجود مظاہرین کا احتجاج جاری رہا تو پولیس نے مظاہرین پر فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں 3 افراد ہلاک اور 4 افراد زخمی ہو گئے۔ منگلور میں کرفیو نافذ جب کہ انٹرنیٹ سروس معطل ہے، آسام میں 21 دسمبر سے بند انٹرنیٹ سروس جزوی طور پر بحال کر دی گئی ہے۔رپورٹ کے مطابق بھارتی شہر لکھنﺅ سمیت اتر پردیش کے متعدد شہروں میں بھی انٹرنیٹ اور میسجز سروس بند ہیں۔بھارتی میڈیا کے مطابق نئی دہلی میں احتجاج مارچ کے پیشِ نظر انتظامیہ نے 2 میٹرو اسٹیشنز بھی بند کردیئے ہیں۔اسی ضمن میں وزیراعلی مغربی بنگال ممتا بنرجی نے اقوام متحدہ اورانسانی حقوق کی عالمی تنظیموں سے متنازع ایکٹ پرریفرنڈم کرانےکامطالبہ بھی کر دیا ہے۔شہریت کے متنازع قانون کے خلاف لالوپرساد کی سیاسی جماعت راشٹریہ جنتا دل نے کل بہار میں ہڑتال کا اعلان کیا ہے۔بھارتی اداکارہ شبانہ اعظمی بھی شہریت کے متنازع قانون کے خلاف بول پڑیں، سوشل میڈیا پیغام میں اداکارہ نے حکومت کو مظاہرین کو روکنے کے بجائے ان کی بات سننے کا مشورہ دے دیا۔دوسری جانب اداکار فرحان اختر بھی مظاہرین کی حمایت میں سڑکوں پر نکل آئے اور اس دوران میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ صرف سوشل میڈیا پر احتجاج کرنا کافی نہیں ہے، شہری سڑکوں پر نکلیں اور اپنے حق کے لیے آواز بلند کریں۔متنازع شہریت بل 9 دسمبر 2019 کو بھارتی پارلیمنٹ کے ایوان زیریں(لوک سبھا)سے منظور کروایا گیا تھا اور 11 دسمبر کو ایوان بالا (راجیہ سبھا)نے بھی اس بل کی منظوری دیدی تھی۔بھارتی پارلیمنٹ کے ایوانِ زیریں میں وزیرِ داخلہ امیت شاہ کی جانب سے بل پیش کیا گیا تھا جس کے تحت پاکستان، بنگلا دیش اور افغانستان سے بھارت جانے والے غیر مسلموں کو شہریت دی جائے گی لیکن مسلمانوں کو نہیں۔تارکینِ وطن کی شہریت سے متعلق اس متنازع ترمیمی بل کو ایوان زیریں(لوک سبھا)میں 12 گھنٹے تک بحث کے بعد کثرتِ رائے سے منظور کر لیا گیا تھا۔ایوان زیریں کے بعد ایوان بالا(راجیہ سبھا)میں بھی اس متنازع بل کو کثرت رائے سے منظور کیا جا چکا ہے۔متنازع شہریت بل بھارتی صدر رام ناتھ کووند کے دستخط کے بعد باقاعدہ قانون کا حصہ بن گیا ہے۔ نوام چومسکی اور جودیتھ بٹلر نے بھی دہلی جامعہ میں پولیس کارروائی کی مذمت کی ہے۔ساوتھ ایشین وائرکے مطابق اسکالرس نوام چومسکی، جودیتھ بٹلر اور رومیلاتھاپر ان 10,000 شخصیتوں میں شامل ہیں جنہوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ میں پولیس بربریت کی مذمت کرنے والے ایک بیان پر دستخط کئے ہیں جس میں واضح طور پر لکھا گیا ہے کہ شہریت ترمیمی قانون کے تحت پڑوسی ممالک کے مسلمانوں کو ہندوستانی شہریت اختیار کرنے سے محروم رکھا گیا ہے جو ہندوستان کے مساوات اور سیکولرازم کی طمانیت دینے والے دستور کی سراسر خلاف ورزی ہے۔ شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی (مانو )کے طلبا کا چھٹے روز احتجاج جاری ہے۔ساوتھ ایشین وائرکے مطابق مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے اساتذہ ایسوسی ایشن نے بھی ایکٹ اور این آر سی کے خلاف احتجاج کرنے والے طلبا کی حمایت کی ہے۔مانو کے تمام اساتذہ ایک ساتھ مل کر احتجاج کی جگہ پر پہنچے اور طلبہ کی حمایت کی۔ان کے علاوہ ، مانو ایلومنی ایسوسی ایشن نے بھی اس احتجاج میں حصہ لیا ہے۔


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain