تازہ تر ین

مودی نے سرکاری تعطیلات کیلنڈر سے مسلمانوں کے تہوار نکال دئیے پولیس فائرنگ سے مزید 3ہلاک تعداد 30ہوگئی

نئی دہلی‘ ممبئی‘ گوہائی‘ اتردیش (مانیٹرنگ ڈیسک‘ نیوز ایجنسیاں) تہواروں کی جو فہرست این پی آر میں دی گئی ہے اس میں گڑی پڑوا، بیہو، رتھ یاترا، ایپا فیسٹیول شامل ہیں جن کے بارے میں شاید کچھ لوگ جانتے بھی نہ ہوں، لیکن اس میں مسلمانوں کا اہم تہوار عید شامل نہیں۔ اترپردیش میں بے قصور عوام پر یوگی حکومت اور پولس کی ظالمانہ کارروائی کا ثبوت کانگریس نے ریاستی گورنر آنندی بین پٹیل کے حوالے کر دیا ہے۔ آج صبح کانگریس کے ایک نمائندہ وفد نے ایک چٹھی کے ساتھ تفصیلی دستاویز ات گورنر کو پیش کئے جس میں چار مطالبات بھی کیے گئے ہیں۔ اس سلسلے میں کانگریس کی جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی نے آج لکھنو میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے گورنر کو پیش کیے گئے دستاویز ات کی کچھ اہم باتیں میڈیا کے سامنے رکھیں۔پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پرینکا گاندھی نے کہا کہ کچھ دنوں سے ہم سب دیکھ رہے ہیں کہ ریاستی حکومت اور پولس انتظامیہ کے ذریعہ کئی جگہ مظالم ہوئے۔ ریاستی انتظامیہ نے کچھ ایسے اقدام کیے ہیں جو نہ صرف غیر قانونی ہیں بلکہ انارکی کو فروغ دینے میں ان کا اہم کردار رہا۔ شہریت قانون اوراین آر سی پرملک بھرمیں مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے ۔مختلف گوشوں سے اس پر تشویش کا اظہار بھی جا رہا ہے۔ امریکی کانگریشنل ریسرچ سروس کی تازہ رپورٹ میں بھی شہریت قانون اور مجوزہ این آر سی پر تشویش ظاہر کی گئی ہے۔دوصفحات پر مشتمل رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس سے مسلم اقلیت کی حیثیت متاثرہوسکتی ہے۔ ادارے کے مطابق آزاد ہندوستان کی تاریخ میں پہلی بار شہریت دینے کے عمل میں مذہب کوبنیاد بنایا گیا ہے۔ کانگریشنل ریسرچ سروس امریکی کانگریس کا آزاد تحقیقی ادارہ ہے جو وقتا فوقتا خانگی اور عالمی اہمیت کی حامل قانون سازی پر ریسرچ کرتا ہے۔ کپکپا دینے والی سردی میں بھی نہیں کم ہورہا ہے خواتین کا حوصلہ، شاہین باغ میں خواتین کا احتجاج جاریشاہین باغ میں شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج جاری ہے، اس میں بڑی تعداد میں خواتین شامل ہیں۔شمالی ہندوستان سمیت ملک بھرمیں کپکپا دینےوالی سردی کےدرمیان بھی شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کے خلاف احتجاج کا سلسلہ رکنےکا نام نہیں لے رہا ہے۔ اسی ضمن میں جامعہ نگرکےشاہین باغ علاقےمیں انتہائی سرد موسم میں بھی خواتین کے جذبے اورحوصلے میں کسی طرح کی کمی نہیں آرہی ہےاورسینکڑوں کی تعداد میں خواتین انتہائی سرد موسم میں بھی رات میں شاہین باغ واقع ہائی وے پربیٹھ کراحتجاج کررہی ہیں۔ احتجاجی مظاہروں میں حصہ لینے والے ہزاروں افراد پہلے ہی پولیس کی حراست میں ہیں۔حکومت نے ملک کے بیشتر شہروں خصوصا دارالحکومت نئی دہلی میں احتجاج اور مظاہرے کرنے پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔انڈین حکومت کے منظور کردہ اس نئے متنازع شہریت کے قانون کے تحت پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے آنے والے غیر مسلم مہاجرین کو انڈیا کی شہریت دی جائے گی مگر مسلمانوں کو نہیں۔حکام نے امن وامان کی بگڑتی ہوئی صورت حال پر قابو پانے کے لیے مختلف مشرقی شہروں میں کرفیو نافذ کررکھا ہے جبکہ احتجاج کی تشہیر روکنے کے لیے انٹرنیٹ پر بھی پابندی عاید کررکھی ہے۔بھارت کی مشرقی ریاست آسام کے سب سے بڑے شہر گوہاٹی میں صورت حال سخت کشیدہ بتائی جاتی ہے۔اس شہر میں فوجی اپنی گاڑیوں پر گشت کررہے ہیں۔گوہاٹی میں آج قریبا پانچ ہزار افراد نے شہریت کے متنازعہ قانون کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا ہے۔وہ اس کے خلاف اور آسام کے حق میں نعرے بازی کررہے تھے۔کسی ناگہانی صورت حال سے نمٹنے کے لیے سیکڑوں پولیس اہلکار تعینات تھے۔حکام کا کہنا ہے کہ ریاست میں احتجاجی مظاہروں کے بعد کرفیو کے نفاذ سے تیل اور گیس کی پیداوار متاثر ہوئی ہے۔ آج دن کے وقت کرفیو میں نرمی کی گئی تھی اور بعض دکانیں کھلی ہوئی تھیں۔دو بھارتی ٹیلی کام کمپنیوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے دہلی کے بعض حصوں میں اپنی سروسز حکومت کے حکم پر معطل کر دیں۔دونوں بھارتی ایوانوں کی منظوری کے بعد شہریت ترمیمی ایکٹ گذشتہ ہفتے قانون بن گیا تھا۔ قانون کے تحت استحصال کا شکار اقلیتیں تیزی سے بھارتی شہریت حاصل کر سکتیں ہیں۔اس قانون کا اطلاق افغانستان، پاکستان اور بنگلہ دیش سے ترک وطن کرنے والے ہندو، مسیحی، سکھ، جین، زرتشت یا بدھ شہریوں پر ہو گا۔ تاہم یہ قانون مسلمانوں کے لیے نہیں۔ بھارتیہ کمنسٹ پارٹی و اتر پردیش کسان سبھا کے عہدیداروں اور کارکنوں نے پیر کو شہریت ترمیمی قانون کے خلاف صدر جمہوریہ کے نام 11 نکاتی میمورنڈم نائب تحصیلدار سنت وجئے سنگھ کو پیش کیا پیش کردہ میمو رنڈم میں متنازع ، خوفزدہ اور شہریت ترمیمی قانون کی منسوخی کا مترادف تھا جو آئین کو تباہ کرتی ہے ، شہریت ترمیمی قانون نافذ کرنے کے منصوبے کو ختم کیا جائے۔ ہیومن رائٹس کارکنوں نے گزشتہ جمعرات کو الزام لگایا کہ اترپردیش میں دہشت کا راجہے اور وہاں کی پولیس شہریت ترمیم قانون(سی اے اے)اور این آر سی کے خلاف مظاہروں کو کچلنے کے لیے لوگوں کو جھوٹے معاملوں میں پھنسا رہی ہے۔ہیومن رائٹس کارکن ہرش مندر نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ قانون کے مطابق حکومت نیشنل پاپولیشن رجسٹر(این پی آر)سے ملے اعداد و شمار کا استعمال مشکوک شہریوںکی پہچان کرنے کے لیے کر سکتی ہے اور بعد میں اس کا استعمال این آر سی کے لیے کیا جا سکتا ہے۔ سوراج انڈیا کے رہنما یوگیندر یادو نے کہا،اترپردیش میں دہشت کا راج چل رہا ہے۔میرٹھ جانے والی فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کی ممبر کویتا کرشنن نے الزام لگایا کہ سی اے اے کی مخالفت میں ہو رہے مظاہروں کو کچلنے کے لیے پولیس لوگوں پر جھوٹے معاملے درج کر رہی ہے۔ ہیومن رائٹس کارکنوں نے کہا کہ ریاست میں پولیس کی کارروائی اور قتل کے بارے میں سچائی کا پتہ لگانے کے لیے سپریم کورٹ کی نگرانی میں ایس آئی ٹی جانچ ضروری ہے۔ وہیں اترپردیش پولیس اور انتظامیہ نے کسی بھی نہ مناسب یا غلط کارروائی سے انکار کیا ہے۔کئی ہیومن رائٹس گروپ سے مل کر بنے ہم بھارت کے لوگ: شہریت ترمیم قانون کے خلاف راشٹریہ کارروائیکی طرف سے گزشتہ جمعرات کو دہلی میں پریس کانفرنس کا انعقاد ہوا تھا۔ اس موقعہ پر اس گروپ نے گزشتہ ہفتے شہریت قانون کے خلاف ہوئے مظاہرے کے دوران ہوئے تشدد اور پولیس کی بربریت پر ایک فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ پیش کی۔ہیومن رائٹس کارکنوں کے گروپ نے ایک بیان میں احتجاج کو بربریت کے ساتھ دبانے کو فورا روکنے اور پولیس کی زیادتیوں کی آزادانہ جانچ کرانے کی مانگ کی ۔


اہم خبریں
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain