تازہ تر ین

آرمی چیف توسیع ،ہم نے غلطیاں کر کے اپنے سسٹم کو داغدار بنایا،ضیا شاہد

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک ) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو رتے ہوئے معروف سینئر صحافی ضیا شاہد نے کہا ہے کہ میں 3 چار دن سے کہہ رہا ہوں کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے معاملہ میں انڈیا نے آرمی ایکٹ میں تبدیلی کر کے 3 سال بڑھا دیئے اور سارا مسئلہ حل کر لیا۔ ہمارے ہاں سپریم کورٹ میں جا کر بحث ہوئی پھر یہ بحث شروع ہو گئی کہ سمری جو تھی وہ صدر کو بھیجنی تھی وہ غلط بھیجی گئی یا صحیح بھیجی گئی۔ اس پر بحث شروع ہو گئی۔ اب یہ صحیح راستہ کیا ہے اور بڑی آسانی سے اس کا رسپانس ہوا۔ مسلم لیگ ن نے تو واضح طور پر کہہ دیا ہے کہ وہ اس سلسلے میں حکومت کی مدد کرے گی جہاں پیپلزپارٹی کا تعلق ہے میں سفر میں تھا اس وقت پیپلزپارٹی اس پر بحث کر رہی تھی کہ انہوں نے کہا راستہ اختیار کرنا ہے میں یہ سمجھتا ہوں کہ پاکستان کی سیاسی جماعت ہی اس قسم کے سوچ نہیں ہے کہ کم ہونا ہے بہرحال آرمی ایکٹ میں ترمیم کا قانون جو ہے منظور ہونا ہے سب نے اس پر اشیرباد دینی ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ آئندہ ایک دو دن میں یہ معاملہ حل ہو جائے گا۔میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ معاملہ سپریم کورٹ کی ہدایت کے مطابق قانون منظور ہو جائے گا اور اس قانون میں کچھ اور چیزیں بھی شامل کر دی گئی ہیں مثلا بحریہ کے سربراہ کی مدت ملازمت کا تعین بھی کر دیا گیا اور فضائیہ کے سربراہ کی مدت ملازمت کا بھی تعین کر دیا گیا ہے اس طرح وزیراعظم کو اختیار دے دیا گیا ہے کہ وہ سمری صدر کو بھیجیں۔ یہ وہی بات ہے جو سپریم کورٹ میں بحث سے پہلے تھی صرف یہ کہ اس کو مس ہینڈل کیا گیا ہے اور سارے ہی اداروں میں ایک دوسرے سے کھینچا تانی میں ہر ایک نے دوسرے کی غلطیاں نکالیں اور اس طرح سے یہ مسئلہ بگڑتا چلا گیا حالانکہ یہی صورت حال انڈیا میں ہمارے سامنے ہے انڈیا میں نہ کسی سیاسی جماعت نے کوئی بحث کی اور نہ ہی میڈیا میں اس کا کوئی توا لگایا گیا نہ ہی پوری دنیا میں اس کو ایشو بنایا گیا بڑی خاموشی سے 62 سال سے عمر جو تھی 65 سال کر کے 3 سال کی توسیع دے دی اس کا اختیار بھی صدر کو دے دیا۔اب بھی اگر اس مسئلہ کو سنبھال لیا جائے تو میں یہ معاملہ ٹھیک ہو جائے کیونکہ پہلے ہی ہماری کافی جگ ہنسائی ہو چکی ہے۔ اوراس طرح سے محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے آرمی چیف کی مدت ملازمتم پر بحث شروع ہے کچھ پارٹیاں ایک طرف ہیں کچھ دوسری طرف ہیںاور سب کے سب ایک بات پر متفق نہیں ہیں۔ ہمارا معاملہ کافی خراب ہو چکا ہے اس کو جلد سے جلد سمیٹنے کی ضرورت ہے۔ امید ہے اس معاملے میں آئے دنوں میں سارے معاملات سیٹل ہو جائیں گے اور خوش اسلوبی سے سیٹل ہو جائیں گے۔ اب ہم اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ ہم نے آپس میں کج بحثی کرکے اپنی پوزیشن، اپنے آرمی چیف کی پوزیشن، فوج کے مختلف شعبوں کے درمیان جو آرمی ایکٹ کا مسئلہ، یہی آرمی ایکٹ انڈیا میں ہے یہی آرمی ایکٹ پاکستان میں ہے صرف دو سال کے درمیان میں فرق ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ آرمی سب سے مقدم ہے یہ ہمارا قومی ادارہ ہے اس بارے میں کسی قسم کی کوئی بحث مباحثہ ہونا چاہئے نہ ہی عدالتوں میں اس کو کھینچنا چاہئے۔ محسوس یہ ہو کہ اس کی پوزیشن خراب ہو رہی ہے۔ انڈیا میں اس طرح سے یہ معاملہ زیربحث آیا ہی نہیں جس طرح سے ہمارے ہاں 6 ماہ سے یہ زیربحث ہے۔ موجودہ حکومت جو ہے اس میں خوبیاں بھی ہیں خامیاں بھی ہیں۔ اس کے باوجود انڈیا میں یہ کسی نے نہیں کہا۔ انڈیا میں گیارہ راستیں مرکزی حکومت کی بات نہیں مان رہیں اس کے باوجود کسی جگہ پر کسی نے اب تک نہیں کہا کہ وہ مودی کی حکومت کو نہیں مانتے، مودی کو کسی نے نہیں کہا کہ یہ سلیکٹڈ وزیراعظم ہے الیکٹڈ وزیراعظم ہے۔ ہم نے پہلے ہی بہت غلطیاں کی ہیں اپنے سسٹم کو داغدار کرنے کے لئے اور اپنی پوزیشن خراب کرنے کے لئے ہم آپپس میں لڑائی جھگڑا کی وجہ سے ساری پارٹیاں الیکشن میں حصہ لیتی رہی اس کے بعد جو کامیاب ہوئے وہ اپنی اسمبلیوں میں رہیں خود مولانا فضل الرحمن جو کہتے ہیں میں ان اسمبلیوں کو نہیں مانتا انہوں نے ایک لفظ استعمال کیا کہ یہ گٹر اسمبلیاں ہیں۔یہ بہت نامناسب الفاظ ہے، حالانکہ اس گٹر اسمبلی میں ان کے صاحبزادے جو تھے وہ ایک کمیٹی کے چیئرمین ہیں اور ساری سہولتیں لے رہے تھے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہم نے بہت ساری چیزوں میں غلطیاں کی ہیں وقت آ گیا ہے کہ اپنی علطیوں کو سمیٹیں اور آپس میں جو بھی لڑائی ہو اس کو الیکشن تک محدود رہنا چاہئے اس کو الیکشن کے طریقہ کار ہیں۔ فوج کی مداخلت سے اور یہ کہنے سے کہ ملک کا وزیراعظم وہ سلیکٹڈ وزیراعظم ہے اس کو سلیکٹ کیا ہے تو اس کو کس نے سلیکٹ کیا ہے۔ کیا کسی ایک حلقے میں بھی کوئی شکایت سامنے آئی کہ فوجی وردی میں ملبوس لوگوں نے کچھ لوگوں کو کہا ہو کہ ایک کو نہیں بی کو ووٹ دیں۔ پاکستان کے آئین میں درج ہے کہ اگر کسی جگہ پر حتیٰ کہ زلزلے، بارش میں، سیلاب میں بھی ان معاملات میں جو شہری انتظامیہ کی مدد سے آرمی کو بلایا جا سکتا ہے تو یہ انتخابات کے لئے کیوں نہیں بلا سکتے۔ اگر کسی کے پاس کوئی ثبوت ہے تو اس کو چاہئے کہ الیکشن کمیشن میں اس کی شکایت کر کے انتخابی عذر داری کرے۔ ثابت کرے کہ فلاں جگہ پر فلاں شخص کو فوجی لباس میں دیکھا کہ وہ ایک آدمی کو کہہ رہا ہے کہ آپ اے کو نہ ووٹ نہ دیں بلکہ بی کو ووٹ دیں۔ ایک بھی بات ایسی سامنے نہیں آئی۔ ہمیں غلطیوں سے سبق سیکھنا چاہئے آرمی کو سیاست میں نہیں الجھانا چاہئے۔ فوج کا کام ملک کا دفاع ہے۔


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain