تازہ تر ین

اب امریکہ اس پوزیشن میں نہیں رہا کہ جس پر مرضی چڑھ دوڑے،ضیا شاہد

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف سینئر صحافی ضیا شاہد نے کہا ہے کہ جنگ کے رکنے کی جہ یہ ہے کہ امریکہ پوری دنیا میں اکیلا رہ گیا ہے۔ امریکہ نے عراق پر غلط خبر کی بنیاد پرحملہ کر دیا تھا۔ امریکہ نے بڑے فخر سے کہا کہ ہم نے جنرل قاسم سلیمانی کو ختم کر دیا ہے لیکن اس خبر سے لوگ متفق نہیں ہوئے بڑے ممالک نے تو اس کی بھرپور انداز میں مخالفت کی۔ ایران کے ساتھ امریکہ کی موجودہ روش ہے کہ اس کی مخالفت میں زیادہ موافقت میں کم لوگ ہیں۔ خود امریکہ میں الیکشن کا سال چل رہا ہے کانگریس کی سپیکر نے یہاں تک کہہ دیا ہے کہ جنرل قاسم سلیمانی پر حملہ کرنے کا اختیار کہاں سے حاصل کیا جس سے پوچھا۔ ایسے حالات میں امریکہ کافی نرم پڑا ہوا ہے۔ جیسے آج سے 5 دن پہلے وہ بھڑکیں لگا رہا تھا میرا خیال ہے کہ اب منظر نامہ اس کے حق میں نہیں ہے۔ سپر پاور سپر پاور ہے گرتے گرتے بھی پچاس سال ہے جاتی تھی اس کا جو خوف اور دبدبہ تھا اس کو چیلنج کرنے والے بہت سے ممالک میدان میں آ گئے ایران جیسے ملک نے جو ایک چھوٹا ملک ہے اس نے اس کو چیلنج کیا اس پر چین، روس، فرانس پھر نیٹو ممالک نے کہا جی ہم عراق میں لڑائی میں شامل ہونے کو تیار نہیں ہم وہاں سے اپنی فوجیں واپس نکال لیں گے۔ یہ ایک امریکہ کی بہت بڑی شکست ہو گی۔ اگر عراق میں امریکہ کے ساتھ نیٹو کی فوج جو کھڑی ہے اگر وہ وہاں سے چلامتی طور پر بھی اپنے دستے نکال لیتی ہے تو پھر سمجھا جائے گا کہ امریکہ اکیلا ہی لڑ رہا ہے۔ اس طرح بڑے ممالک کے گروپس کی حمایت سے محروم ہو جائے گا۔ میرا خیال ہے جب یہ پوزیشن نہیں رہے گی تو پھر امریکہ کی اخلاقی حیثیت کافی خراب ہو جائے گی۔ ایک نئی بات سامنے آئی ہے امریکہ کے جو اپنے حالات ہیں۔ ٹرمپ جو ایمریکہ کو لیڈ کر رہے ہیں ان کی اپنی پوزیشن بہت مشکوک ہے اور ان کو بلایا جا رہا ہے کہ وہ سوالات کا جواب دیں جو لیڈر اپنے ملک کے اندر بھی تنقید کی زد میں ہو۔ ایک بار ایران نے پہلے بھی اپنی اتنی بڑی قوت کے ساتھ پنجہ آزمائی کی ہے ثابت کر دیا ہے کہ وہ بڑی طاقت سے خوفزدہ نہیں ہے۔ اب شاید آج پوری دنیا کا چوکیدار، تھانیدار بننے کی اجازت نہیں دے سکتی اب اجتماعیت کا دور ہے لوگ یہ محسوس کرتے ہیں کہ کسی کو یہ اختیار دینا کہ جو اپنی مرضی سے جو جی چاہے چڑھ دوڑے، جس کو جی چاہے مار دے۔ امریکہ جتنا بڑا حکم ہے اپنے حجم کے اعتبار سے اپنے آپ کو مین ٹین کرتا اور اپنے عزت اور احترام کروا سکتا تھا لیکن جس طرح سے جس سطح پر نیچے اتر کر چھوٹے چھوٹے ملکوں سے لڑائی کا پنجہ آزمائی شروع کر دی ہے۔ چوتھا دن امریکہ بار بار کہہ رہا ہے کہ جب ہم ایران پر پابندیاں لگائیں گے ایک بار ان کو سمجھ لگ جائے گی۔ دنیا کو پابندیوں کو پسند نہیں کرتی۔ دنیا ایسے دور میں داخل ہو چکی ہے جہاں لوگوں کو انڈیا میں اپنے ملک کے اندر اپنی من مانی کرنے کی کوشش کر رہا ہے اس کو دنیا میں پسند نہیں کیا جا رہا ہے۔ اب عراق اور ایران کے بارے میں امریکہ کے رویے کو انڈیا نے بھی نہیں سراہا۔ 25 کروڑ لوگوں میں انڈیا کے اندر رہتے ہوئے مودی پالیسیوں کو سخت ناپسند کیا ہے۔ 3 دن پہلے سمجھا جا رہا تھا کہ امریکہ جیسا چاہے گا کر گزرے گا دھڑلے کے ساتھ اور پاکستان جیسے ملک کا جس کے بارے میں ماضی میں سمجھا جاتا تھا کہ وہ امریکہ کا ایسا جو ساتھی رہا ہمیشہ ساتھ رہا اس کا بھی یہ کہنا ہم ہر گز اپنی زمین کو کسی بھی طرح سے ایران کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کی طرف سے پلی بار گین پر سوال اٹھنے لگے۔ اس پر ضیا شاہد نے کہا ہے نیب کے بارے میں جو بات اسلامی نقطہ نظر سے کہی جا رہی ہے میرا خیال ہے وہ بہت موثر ثابت ہو گی۔ نیب کے اس بارے میں سوچنا پڑے گا پاکستان میں سبھ کچھ ہو سکتا ہے لیکن اسلام کے بنیادی اصولوں اور نظریوں کے خلاف کوئی قانون سازی نہیں کر سکتے اور کوئی مستقل طرز عمل اختیار نہیں کر سکتے۔ اگر یہ بات اسلامی نظریاتی کونسل میں زیر بحث آتی ہے تو اس کی بڑی پذیرائی ہو گی اور یہ بھی ہو سکتا ہے یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس ایک بنیاد پر سپریم کورٹ آف پاکستان وہ شقیں جو بظاہر اسلامی نظریات کے خلاف ہیں وہ نیب کے آرڈی ننس سے اڑا دے۔ جنرل سلیمانی نے کہا کہ وہ خفیہ طور پر سعودی عرب سے مذاکرات کر رہے تھے۔ اور شاید سعودی عرب اور ایران میں صلح صفائی کی طرف بات بڑھا رہے تھے۔


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain