تازہ تر ین

بھارت سے ادویات منگوائی جارہی ہیں، چیف جسٹس،کارروائی شروع، انکوائری بھی ہورہی ہے،اٹارنی جنرل

اسلام آباد (خبر نگار خصوصی) سپریم کورٹ آف پاکستان نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی کرونا خطرات پر ماہرین کی ٹیم بنانے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے سینٹری ورکرز کو تنخواہیں اور حفاظتی سامان مہیا کرنے کا حکم دےدیا ہے جبکہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد نے کہا ہے کہ کورونا کے مشتبہ مریضوں کا سرکاری لیبارٹری سے ٹیسٹ مثبت اور نجی لیبارٹری سے منفی آتا ہے، یہاں سب لوگ پیسے سے کھیل رہے ہیں اورانسانوں کی کسی کو فکر نہیں ہے، ہماری تشویش اخراجات سے متعلق نہیں سروسز کے معیار پر ہے ،قرنطینہ مراکز میں واش رومز صاف نہیں ہوتے اور پانی بھی نہیں ہوتا ، قرنطینہ مراکز میں 10،10 لوگ ایک ساتھ بیٹھے ہوتے ہیں، سوشل میڈیا پر وہاں کی حالت زار پر ویڈیوزچل رہی ہیں،کورونا وائرس پاکستان میں وجود رکھتا ہے اور اس کی وجہ سے پاکستان میں اموات ہوئی ہیں ، کورونا وائرس کے مریضوں کا بڑے پیمانے پر علاج چل رہا ہے،کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے کافی وسائل چاہیے ہوں گے، حکومت کورونا وائرس کے خلاف نبرد آزما ہے اور اس سلسلے میں چیرمین این ڈی ایم اے کی رپورٹ بڑی مفید ہے۔ منگل کو چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ کی کورونا وائرس ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران چیئرمین نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) میجرجنرل افضل خان پیش ہوئے۔اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے عدالت کو آگاہ کیا کہ کورونا وائرس سے متعلق اخراجات پر وضاحت کےلئے چیئرمین این ڈی ایم اے عدالت میں موجود ہیں۔چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ ہماری تشویش اخراجات سے متعلق نہیں بلکہ سروسز کے معیار پر ہے کیونکہ کورونا کے مشتبہ مریضوں کا سرکاری لیبارٹری سے ٹیسٹ مثبت اور نجی لیبارٹری سے منفی آتا ہے۔انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کی لاہور رجسٹری کے ملازمین کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا، ہمارے ملازمین کا ٹیسٹ سرکاری لیب سے مثبت اور نجی لیب سے منفی آیا۔چیف جسٹس نے کہا کہ کورونا کے مریضوں کو دنیا جہاں کی ادویات لگا دی جاتی ہیں، لاہور میں ایک شخص رو رہا تھا کہ اس کی بیوی کو کورونا نہیں لیکن ڈاکٹر چھوڑ نہیں رہے تھے۔حکومتی اقدامات پر مریضوں کی شکایات دہراتے ہوئے انہوں نے کہا کہ قرنطینہ مراکز میں واش رومز صاف نہیں ہوتے اور پانی بھی نہیں ہوتا جبکہ قرنطینہ مراکز میں 10،10 لوگ ایک ساتھ بیٹھے ہوتے ہیں، سوشل میڈیا پر وہاں کی حالت زار پر ویڈیوزچل رہی ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ قرنطینہ سینٹرز کے مشتبہ مریض ویڈیوز میں تارکین وطن کو کہہ رہے ہیں کہ پاکستان میں نہ آئیں۔انہوں نے کہا کہ ہم بہت غریب ملک ہیں، ہماری معیشت کا شمار افغانستان، یمن اور صومالیہ سے کیا جاتا ہے لیکن ہم پیسے سے کھیل رہے ہیں اور لوگوں کا احساس نہیں، نیشنل ہسپتال لاہور سے ایک آدمی کی ویڈیو دیکھی ہے وہ رو رہا ہے، چیف جسٹس نے کہاکہ ڈاکٹروں اور طبی عملے کو سلام پیش کرتے ہیں لیکن اس عملے میں جو خراب لوگ ہیں وہ تشویش کی وجہ ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ لاہور ایکسپو سینٹر اور اسلام آباد میں کئی قرنطینہ مراکز سے لوگوں کی ویڈیوز دیکھنے کو مل رہی ہیں، لوگ غصے میں کہہ رہے ہیں کہ باہر مر جاو¿ تاہم پاکستان نہ آو¿، 10،10 لوگ قرنطینہ مراکزمیں ایک ساتھ بیٹھے ہیں یہ کیسا قرنطینہ ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ ان قرنطینہ سینٹرز میں کوئی صفائی کا خیال نہیں رکھا جارہا ہے، کئی سینٹرز میں پانی تک نہیں آتا ہے یہ تو حالات ہیں۔چیئرمین این ڈی ایم اے کو عدالت نے روسٹرم پر بلایا اور چیف جسٹس نے پوچھا کہ آپ کی رپورٹ میں پی پی ایز بنانے والی ایک کمپنی کا ذکر ہے، ڈیسٹوپاکستان آرمی کیا ہے اور کیا یہ کسی پرائیویٹ شخص کہ کمپنی ہے، خصوصی جہاز بھیجوا کر اس کمپنی کی مشینری منگوائی گئی۔چیف جسٹس نے کہا کہ سب لوگ صرف پیسے سے کھیل رہے ہیں کسی کو انسانوں کی فکر نہیں، پاکستان کے پاس خرچ کرنے کےلئے لامحدود رقم نہیں ہے، این ڈی ایم اے سارا سامان چین سے منگوا رہی ہے اور چین سے ایک ہی پارٹی این ڈی ایم اے کو سامان بھیج رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ مقامی سطح پر سامان کی تیاری کےلئے ایک ہی مشین منگوائی گئی، یہ ڈیسٹو پاکستان آرمی کیا چیز ہے، ڈیسٹو کسی فوجی افسر کی نجی کمپنی ہوگی، سرکاری نہیں جس پر چیئرمین این ڈی ایم اے نے کہا کہ ڈیسٹواسی کمپنی ایس پی ڈی کی ذیلی کمپنی ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ تمام طبی آلات پاکستان میں ہی تیار ہو سکتے ہیں، وقت آ رہا ہے کہ ادویات سمیت کچھ بھی باہر سے نہیں ملے گا اس لیے پاکستان کو ہر چیز میں خود مختار ہونا ہوگا، اسٹیل مل چل پڑے تو جہاز اور ٹینک بھی یہاں بن سکتے۔انہوں نے کہا کہ تمام پی آئی ڈی سی فیکٹریاں اب بند ہوچکی ہیں، اسٹیل مل کو سیاسی وجوہات پر چلنے نہیں دیا جاتا۔چیف جسٹس نے کہاکہ مسئلہ ملکی پیداوار کا ہے تاکہ سرمایہ بنے اور نوکریاں ملیں، پاکستان میں ہر کمپنی اور ادارہ بند ہو رہا ہے، ہم صومالیہ کی طرف جارہے ہیں لیکن بادشاہوں کی طرح رہ رہے ہیں۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہم وینٹی لیٹرز بنانے کے قابل ہو چکے ہیں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ یہاں سب کچھ سیاسی طور پر ہورہا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت کی ساری توجہ شہروں پر ہے دیہاتوں میں کوئی نہیں جا رہا ہے، کورونا وائرس کےلئے دیہاتوں میں آ ج بھی لوگ دم کروا رہے ہیں، حاجی سینٹرزکو قرنطینہ مرکز بنانے کےلئے 56 کروڑ خرچ کر دیے گئے لیکن قرنطینہ سینٹر تو نہ بن سکا جبکہ قرنطینہ میں جانے والا پیسے دیے بغیرباہر نہیں نکل سکتا۔چیئرمین این ڈی ایم اے نے کہا کہ 20 اپریل سے ہم نے ملکی پیداوار میں خاطر خواہ کامیابی حاصل کی ہے اوراس وقت ملک میں ماہانہ ایک ملین کٹس تیار کی جا رہی ہیں۔انہوں نے کہا کہ ضرورت سے زائد کٹس کو برآمد کرنے کی طرف جا رہے ہیں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارے لوگ چین سے آ خری معیار کی چیز بنواتے ہیں جبکہ امریکا سمیت دیگر ممالک میں چیزوں کی خریداری کا ایک معیار رکھا جاتا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ تھرڈ کلاس چیزیں باہر سے منگوائی جاتی ہیں، جیسے عسکری پارک میں اسکریپ شدہ جھولا لگایا گیا تھا، پاکستان میں اکثر مال اسکریپ شدہ ہی بھیجا جاتا ہے۔ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے عدالت کو آگاہ کیاکہ لاک ڈاﺅن پہلے جیسا مو¿ثر نہیں رہا، بیوٹی سیلون اور نائی کی دکانیں بھی کھل رہی ہیں۔چیف جسٹس نے ایڈووکیٹ جنرل سندھ کو کہا کہ یہ ہماری وجہ سے نہیں کھل رہے بلکہ آپ کے انسپکٹر پیسے لے کر اجازت دے رہے ہیں جبکہ عدالت نے سندھ حکومت کو کچھ نہیں کہا۔انہوں نے کہا کہ سندھ حکومت نے تمام سرکاری دفاتر کھول دئیے ہیں، سب رجسٹرار کا آفس آپ نے کھول دیا ہے، بڑی کرپشن کا ادارہ سب رجسٹرار آفس ہے، کرپشن کے تمام اجلاس سب رجسٹرار آفس میں ہوتے ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ عوامی خدمت کے لیے نہیں بلکہ سرکاری دفاتر کھولے ہیں۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ کورونا کیسز کا عروج ابھی نہیں آیا، پاکستان میں 46 ہزار مریض ہیں جبکہ دنیا میں 3 لاکھ اموات کورونا وائرس سے ہوئی ہیں اورپاکستان میں اموات ایک ہزار کے لگ بھگ ہیں۔انہوں نے کہا کہ لوگ ہسپتالوں میں کسی دوسرے مرض کے علاج کے لیے جاتے ہیں تو کورونا ٹیسٹ کا کہہ دیا جاتا ہے، حکومت کوشش کررہی ہے کہ او پی ڈی کو مکمل کھولا جائے۔انہوںنے کہاکہ حکومت کے لیے بڑا آسان ہے کہ لاک ڈاون کردیں لیکن یہ بھی دیکھنا ہے کہ لوگ بھوک سے نہ مرجائیں۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ تعلیم یافتہ لوگ بھی کورونا کے وجود پر سوال اٹھاتے ہیں، کورونا کے وجود پر کسی ڈاکٹر نے سوال نہیں اٹھایا۔انہوں نے کہا کہ فاقہ کشی سے لوگوں کو بچانے کے لیے عدالت نے راستہ کھولا لیکن کل یہ تاثر گیا کہ کورونا سنجیدہ مرض نہیں ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کورونا وائرس ایک سنجیدہ مسئلہ ہے۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ جون کا مہینہ کورونا کے لیے انتہائی خطرناک ہے جبکہ لوگ ابھی سے سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے پوچھا کہ معلوم ہوا ہے کہ بھارت سے بھی ادویات منگوائی جا رہی ہیں جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ حکومت نے بھارت سے ادویات منگوانے پر کارروائی کی ہے۔انہوں نے کہا کہ بھارت سے ادویات منگوانے کی انکوائری ہو رہی ہے۔اس موقع پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ٹڈی دل کا بڑا ریلا ایتھوپیا سے پاکستان کی جانب بڑھ رہا ہے تاہم ٹڈی دل سے نمٹنے کے لیے قدامات کیے جا رہے ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ ٹڈی دل کو قابو نہ کیا تو آئندہ سال فصلیں نہیں ہوں گی، پہلے بھی ٹڈی دل آتا تھا لیکن دو ہفتے میں اسے ختم کر دیا جاتا تھا۔انہوں نے کہا کہ فصلوں کے تحفظ کے لیے قائم ادارے کے پاس جہاز تھے جو ٹڈی دل سے نمٹتے تھے، چیئرمین این ڈی ایم اے نے عدالت کو آگاہ کیا کہ اس وقت 20 میں سے صرف ایک جہاز فعال ہے۔اہوںنے کہاکہ مزید ایک جہاز بھی خرید لیا ہے اور پاک فوج کے پانچ ہیلی کاپٹرز کی خدمات بھی حاصل کی گئی ہیں، توقع ہے ڈی دل سے جلد نمٹ لیا جائے گا۔سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ میں شامل جسٹس سردار طارق نے کہا کہ پنجاب اور اسلام آباد میں مالز حکومت کھول رہی تھی جبکہ عدالت نے حکم صرف سندھ کی حد تک دیا تھا۔انہوںنے کہاکہ باقی ملک میں مالز کھل رہے ہیں تو سندھ کے ساتھ تعصب نہیں ہونا چاہیے اس لیے عدالت کا گزشتہ روز کا حکم بالکل واضح ہے۔جسٹس سردار طارق نے کہا کہ مالز محدود جگہ پر ہوتے ہیں جہاں احتیاط ممکن ہے، راجا بازار، موتی بازار، طارق روڈ پر رش بہت زیادہ ہوتا ہے اس لیے مالز کھولنے کا الزام عدالت پر نہ لگائیں۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت کے ہفتہ اتوار کے لاک ڈاﺅن پر حکم سے ممکن ہے حکومت مطمئن نہ ہو تاہم اس پر عمل کیا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہفتہ اتوار کو کھولنے کا حکم صرف عید تک کے لیے دیا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ ہماری پورے پاکستان پر نظر ہے، آنکھ، کان اور منہ بند نہیں کرسکتے۔اس موقع پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ وضاحت کردیں کہ ہفتہ اور اتوار کا لاک ڈاﺅن عید تک ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ 8 جون کو ہونے والی سماعت میں وضاحت کر دیں گے۔سپریم کورٹ نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی کورونا کے خطرات پر ماہرین کی ٹیم بنانے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے پیش رفت رپورٹس مانگ لیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ سرکاری دفاتر کھول کر نجی ادارے بند کررہے ہیں، سندھ حکومت کے فیصلوں میں بڑا تضاد ہے۔ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ وفاقی حکومت طبی ماہرین کی رائے کے برخلاف جارہی ہے۔ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ عدالت ہماری گزارشات بھی سن لے، عدالت ماہرین کی کمیٹی بنا کر رپورٹ طلب کرلے، لاک ڈاون ختم ہوگیا ہے، اب اس کا نتیجہ کیا ہوگا۔انہوں نے کہا کہ ہفتے میں دو دن لوگ مارکیٹ نہیں آئیں گے تو وبا کا پھیلاو¿ زیادہ نہیں ہوگا۔سپریم کورٹ نے سینٹری ورکرز کو تنخواہیں اور حفاظتی سامان مہیا کرنے کا حکم دے دیا۔عدالت نے دلائل سننے کے بعد کہا کہ کورونا وائرس پاکستان میں وجود رکھتا ہے اور اس کی وجہ سے پاکستان میں اموات ہوئی ہیں جبکہ کورونا وائرس کے مریضوں کا بڑے پیمانے پر علاج چل رہا ہے۔سپریم کورٹ نے کہا کہ کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے کافی وسائل چاہیے ہوں گے، حکومت کورونا وائرس کے خلاف نبرد آزما ہے اور اس سلسلے میں چیرمین این ڈی ایم اے کی رپورٹ بڑی مفید ہے۔سماعت کو سمیٹتے ہوئے عدالت نے کہا کہ پی پی ایز پاکستان میں تیار ہورہے ہیں اور وینٹی لیٹرز کی تیاری بھی شروع ہوچکی ہے۔عدالت نے کہا کہ 1187 وینٹی لیٹر حکومت بیرون ملک سے منگوانے کا آرڈر دے چکی ہے اور300 وینٹی لیٹر آچکے ہیں۔عدالت نے نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے کورونا وائرس کے خلاف اقدامات پر پیش رفت رپورٹ طلب کی اور کورونا از خود نوٹس کیس کی سماعت 8 جون تک ملتوی کردی۔

 

لاہور(تجزیہ کار) سپریم کورٹ میں بھارت سے ادویات منگوانے کی خبروں پر بھی بحث ہوئی، خبریں اور چینل ۵ نے سب سے پہلے بھارت سے ادویات منگوانے کیخلاف باقاعدہ مہم شروع کی ، اٹارنی جنرل کا کہنا تھا حکومت نے بھارت سے ادویات منگوانے پر ایکشن لے لیا ہے۔


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain