تازہ تر ین

سنا مکی کرو نا کا علا ج نہیں ،زیادہ استعما ل نقصا ن دہ :تحقیق

لند ن (ویب ڈیسک)دنیا بھر میں جہاں کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد دن بدن بڑھتی جا رہی ہے وہیں اس کی ویکسین کی تیاری کی کوششوں میں بھی تیزی آئی ہے۔تاحال اس بیماری کا علاج دریافت نہیں کیا جا سکا ہے لیکن پاکستان میں اس وبا کے آغاز کے ساتھ ہی سوشل میڈیا پر ایسے پیغامات کی بھرمار دیکھی گئی جس میں مختلف ادویات، جڑی بوٹیوں یا پھر کھانے پینے میں روزمرہ استعمال ہونے والی اشیا کو اس بیماری سے صحت یابی میں مددگار یا پھر اس کا علاج ہی قرار دے دیا گیا۔یہ بات جہاں ادرک اور کلونجی یا ملیریا کے علاج میں استعمال ہونی والی دوائی کلوروکوئین سے شروع ہوئی وہیں آج کل اکٹیمرا نامی انجیکشن اور سنامکی نامی جڑی بوٹی کا شہرہ ہے اور ایسی ادویات و جڑی بوٹیوں کے بارے میں یہ تاثر عام ہے کہ ان کا استعمال کورونا کے مریض کے جسم میں وائرس کے پھیلاو¿ کو روکنے میں مددگار ثابت ہو رہا ہے۔بی بی سی نے طبی و غذائی ماہرین کی مدد سے یہ جاننے کی کوشش کی کہ ان ادویات اور ٹوٹکوں کے کورونا کے علاج یا پھر علاج میں مددگار ہونے کے دعووں میں کتنی حقیقت ہے۔ڈاکٹرز کے مطابق چونکہ کورونا وائرس کا کوئی مصدقہ علاج موجود نہیں اس لیے اس وائرس کے شکار مریضوں کی صرف طبی مدد ہی کی جا رہی ہے جس میں مختلف ادویات اور طبی آلات کا استعمال شامل ہے۔’یہ وہ انجیکشن ہے جس کا نام آج کل کورونا کے مریضوں پر استعمال کے حوالے سے پاکستان میں ہر کسی کی زبان پر ہے اور اس کی مقبولیت کا عالم یہ ہے کہ لوگ اس کے حصول کے لیے اصل قیمت سے کئی گنا زیادہ رقم ادا کرنے کو بھی تیار نظر آتے ہیں۔پاکستان کے صوبہ پنجاب میں کورونا سے سب سے زیادہ متاثرہ شہر لاہور کے میو ہسپتال میں کووڈ19 کے مریضوں کا علاج کرنے والے ڈاکٹر سلمان ایاز کا کہنا ہے کہ یہ انجکشن کورونا کے مریضوں کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے اور یہ مریض کے اعضا میں ہونے والی سوزش کو روکتا ہے تاکہ ان اعضا کو نقصان نہ پہنچے۔انھوں نے بتایا کہ شدید بیمار مریضوں میں عموماً دیکھا جاتا ہے کہ وائرس مریض کے جسم کے بیشتر اعضا پر حملہ کرتے ہوئے انھیں نقصان پہنچاتا ہے جس سے سپسیز ہو جاتا ہے جو جان لیوا ثابت ہوتا ہے۔ان کے مطابق جن مریضوں پر یہ انجکشن آزمایا گیا ان کی صحت میں یقیناً بہتری آئی لیکن یہ انجکشن ہر مریض کے لیے فائدہ مند ثابت نہیں ہو سکتا کیونکہ اسے صرف اس مریض پر استعمال کیا جاتا ہے جو شدید علیل نہ ہو۔’اس انجکشن کو اگر وقت پر استعمال کیا جائے تو جسمانی اعضا کو نقصان پہنچنے سے روکا جا سکتا ہے۔ ہم اس انجکشن کو مسلسل تین دن مریض پر استعمال کرتے ہیں‘۔انھوں نے مزید بتایا کہ ’ایسا نہیں ہے کہ یہ انجکشن انتہائی ضروری ہے۔ یہ صرف علاج کے دوران مددگار ثابت ہو سکتا ہے اگر ایسے وقت پر لگایا جائے‘۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہر مریض کا جسم ہر دوائی پر مختلف اندز میں ردعمل ظاہر کرتا ہے اس لیے یہ کہنا کہ یہ سب کے لیے موثر ثابت ہو گا درست نہیں ہے۔ڈاکٹر سلمان کے مطابق اس انجکشن کے حوالے سے ایک ہی شکایت سب کی طرف سے کی جا رہی ہے کہ یہ مارکیٹ میں دسیتاب نہیں ہے اور اگر کسی کو مل بھی رہا ہے تو مہنگے داموں فروخت کیا جا رہا ہے۔انھوں نے تصدیق کی کہ میو ہسپتال میں اس وقت یہ انجکشن ختم ہو چکا ہے اور اس کی اصل قیمت پچاس ہزار روپے تھی لیکن اب یہ تقریباً دو سے تین لاکھ روپے میں فروخت کیا جا رہا ہے۔
اس سلسلے میں وز?ر صحت پنجاب ڈاکٹر یاسمین راشد کا کہنا ہے کہ ’ہم اس انجکشن کے ٹرائل شروع کر رہے ہیں اور یہ ایک ہزار مریضوں پر آزمایا جائے گا جس کے لیے ہم میو ہسپتال کے ڈاکٹروں کو اس کا سٹاک فراہم کریں گے‘۔دوا کے بارے میں اپنے اعداد و شمار کی آزادانہ جانچ کی اجازت نہیں دی گئی۔اکٹیمر سے کہیں پہلے پاکستان کیا دنیا کے متعدد ممالک میں ملیریا کے علاج میں استعمال کی جانے والی دوا کلوروکوئین کے کورونا کے مریضوں کو استعمال کروائے جانے کے واقعات دیکھے گئے۔اس دواءکے بارے میں پاکستان میں جب یہ بات عام ہوئی کہ اسے کورونا کے مریضوں کے علاج کے لیے استعمال کیا گیا ہے تو 60 روپے میں ملنے والا دوائی کا پتا چار ہزار روپے تک کا فروخت ہونے لگا۔مارچ میں امریکی ادارے فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن نے محدود ہسپتالوں میں انتہائی ضروری صورتحال میں اس دوا کے استعمال کی اجازت دی تھی۔ لیکن اگلے ہی مہینے کچھ مریضوں میں دل کے مسائل پیدا ہونے کے بعد ادارے نے دوا کے استعمال سے متعلق وارننگ جاری کر دی تھی۔کورونا وائرس کے علاج کے لیے اس دوا کے استعمال کے بارے میں سائنسدانوں میں اب بھی تشویش پائی جاتی ہے۔ہائیڈروآکسی کلوروکوئن نامی دوا ملیریا اور آرتھرائٹس جیسی بیماریوں کے علاج کے لیے تو محفوظ ہے لیکن ابھی تک کسی بھی تحقیقی تجربے کے نتیجے میں اسے کووڈ 19 کے علاج کے لیے استعمال کرنے کا مشورہ نہیں دیا گیا ہے۔امریکہ کی مینیسوٹا یونیورسٹی میں کیے گئے آزمائشی استعمال سے بھی یہ بات سامنے آئی کہ ہائیڈرو آکسی کلوروکوئن کورونا وائرس کے علاج میں موثر نہیں ہے۔تاہم اس دوا پر برطانیہ، امریکہ اور سینیگال سمیت کئی ممالک میں تحقیق جاری ہے۔ ڈبلیو ایچ او نے پہلے تو اس دوا کی آزمائش بھی روک دی تھی لیکن تین جون کو ایک بیان میں کہا ہے کہ یہ سلسلہ دوبارہ شروع کیا جائے گا۔لااہور کے میو ہسپتال کے سی ای او ڈاکٹر اسد اسلم نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کے ہسپتال میں کلوروکوئین کا استعمال معمولی علامات سے معتدل نوعیت والے کورونا کے مریضوں کیا گیا جس سے ان میں بہتری آئی۔تاہم یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے وائس چانسلر ڈاکٹر جاوید اکرم کے مطابق کلوروکوئین کا استعمال بنیادی طور پر ملیریا کے علاج کے لیے منظور کیا گیا تھا اور ’ابھی تک کورونا وائرس کے خلاف اس کی افادیت کے دنیا بھر میں کوئی شواہد سامنے نہیں آئے۔ اس لیے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ مریض کلوروکوین سے ٹھیک ہوا ہے۔’ان کا مزید کہنا تھا کورونا وائرس کے زیادہ تر مریضوں میں بیماری کے علامات ویسے بھی معمولی نوعیت کی ہوتی ہیں اور ایسی علامات کا مریض خودبخود بہتر ہو جاتا ہے۔


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain