تازہ تر ین

کے ٹو سرکرنے کی تمام مہمات ختم کردی گئیں‘بیس کیمپ میں موجود ٹیمیں سکردو روانہ ہوگئیں

دسمبر کے وسط سے18ممالک کے60کوہ پیما موسم کے ٹھیک ہونے کا انتظار کررہے تھے.رپورٹ

سکردو(ویب ڈیسک) حکومت پاکستان کی درخواست پر اس سال موسم سرما میں دنیا کی دوسرے بلند ترین پہاڑ ”کے ٹو“ کو سر کرنے کی مہم ختم کر دی گئی ہے جس کے بعد بیس کیمپ پر موجود تمام غیر ملکی کوہ پیما سکردو روانہ ہو گئے ہیں . دسمبر کے وسط میں تقریباً 18 ممالک سے 60 کوہ پیماﺅں نے موسم سرما میں کے ٹو کو سر کرنے کے لیے ”کے ٹو کے“ بیس کیمپ پر ڈیرے ڈالے تھے مسلسل خراب موسم کی صورتِ حال کے پیش نظر مہم جو بیس کیمپ سے سکردو روانہ ہو گئے ہیں.

کے ٹو کی اونچائی اگرچہ دنیا کی بلندترین چوٹی ماﺅنٹ ایوریسٹ سے صرف 2سو میٹر کم ہے مگر دنیا بھر کے کوہ پیماءاسے ماﺅنٹ ایورسٹ کے مقابلے میں خطرناک اور چیلنجگ قراردیتے ہیں یہی چیزکے ٹو کو ماﺅنٹ ایورسٹ سے بھی ممتازبناتی ہے دنیا کے بڑے کوہ پیماﺅں کے مطابق ماﺅنٹ ایورسٹ پر چڑھنا مشکل کا م نہیں مگر کے ٹو پر وہی مہم کامیاب ہوسکتی ہے جو خود کے ٹو چاہے.الپائن کلب آف پاکستان کے مطابق آئندہ سات روز تک موسم خراب رہنے کی پیش گوئی ہے جس کی وجہ سے سرمائی مہم 2020-2021 کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاہم لاپتا ہونے والے کوہ پیماﺅں کی تلاش کا عمل جاری رہے گا یاد رہے کہ16 جنوری کو10 نیپالی کوہ پیماﺅں نے نرمل پرجا کی قیادت میں پہلی مرتبہ موسم سرما میں دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کو سر کر کے تاریخ رقم کی تھی بعدازاں پاکستانی کوہ پیما محمد علی سد پارہ، ان کے صاحبزادے ساجد علی سدپارہ، آئس لینڈ کے جان سنوری اور چلی کے ہوان پابلو مور ایک اور تاریخ رقم کرنے کے لیے آگے بڑھے.آکسیجن کی کمی اور صحت کی خرابی کے باعث ساجد سدپارہ کو 8ہزار میٹر کی بلندی پر ہی اپنا مشن ملتوی کرنا پڑاجس کے بعد وہ بحفاظت بیس کیمپ میں واپس پہنچ گئے تاہم باقی ماندہ تینوں کوہ پیماﺅں کا جمعہ کی شام سے بیس کیمپ کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں ہے پاکستان آرمی کے ہیلی کاپٹروں کے علاوہ مقامی چوٹیاں سر کرنے والے کوہ پیما اور دیگر ماہرین کی جانب سے لاپتہ کوہ پیماﺅں کی تلاش کے لیے سرچ اور ریسکیو مشن جاری ہے لیکن تا حال تینوں کوہ پیماﺅں کا کوئی سراغ نہیں ملا.الپائن کلب آف پاکستان کے مطابق موسم کے صاف ہونے کا انتظار کیا جا رہا ہے گزشتہ روز کے سرچ آپریشن کے دوران ٹیم کو چند مقامات پر کوہ پیماﺅں کی چند باقیات ملی تھیں جس کا جائزہ لینے کے بعد نتیجہ اخذ کیا گیا کہ یہ شواہد کیمپ سلیپنگ بیگ کے ہیں اگرچہ تینوں لاپتا کوہ پیماﺅں کے زندہ بچنے کے بارے میں اب تک کوئی باضابطہ بیان جاری نہیں ہوا تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ8 ہزار میٹر سے زائد کی بلندی پر کسی کا اتنے دنوں تک زندہ رہنا ناممکن ہے نذیر سدپارہ کا شمار دنیا کے نامور کوہ پیماﺅں میں ہوتا ہے انہوں نے 1981 میں کے ٹو اور سن 2000 میں دنیا کی بلند ترین چوٹی ”ماﺅنٹ ایورسٹ“سر کی تھی نذیر سدپارہ کا کہنا ہے کہ سننے میں آ رہا ہے کہ کیمپ تھری میں جان سنوری کو فراسٹ بائیٹ ہوا تھا اور چلی سے تعلق رکھنے والے ہوان پابلو مور بھی منجھے ہوئے کوہ پیما نہیں تھے اس تمام صورتِ حال میں علی سدپارہ پر بہت زیادہ دباﺅ تھا اور دونوں غیر ملکی کوہ پیماﺅں کا انحصار علی سدپارہ پر ہی تھا.نذیر سدپارہ نے کہا کہ ایسی صورت میں جب تیز ہوا چل رہی ہو اور درجہ حرارت منفی 60 سے بھی نیچے ہو تو ایسے حالات میں ایک جگہ بیٹھ کر آٹھ گھنٹے سے زیادہ گزارنا ناممکن ہے انہوں نے بتایا کہ آکسیجن بھی زیادہ سے زیادہ آٹھ سے دس گھنٹے تک ہی آپ کے کام آ سکتی ہے اتنی ٹھنڈ میں خون کی روانی بہت زیادہ سست ہوتی ہے اور سب کچھ جمنا شروع ہو جاتا ہے. کے ٹو کا شمار دنیا کے خطرناک ترین پہاڑوں میں ہوتا ہے اب تک اسے سر کرنے کی کوشش میں 88 کوہ پیما ہلاک ہو چکے ہیں گزشتہ ہفتے اسی کوشش میں بلغاریہ سے تعلق رکھنے والے 42سالہ اٹانس اسکاٹوو گر کر ہلاک ہوئے تھے ان کی ہلاکت بیس کیمپ کی جانب رسیاں تبدیل کرتے ہوئے ہوئی اس سے قبل اسی مشن سے منسلک ہسپانوی کوہ پیما بھی ہلاک ہو گئے تھے اعدادوشمار کے مطابق ماﺅنٹ ایورسٹ پر اموات کی شرح 4فیصد جبکہ کے ٹوپر 29فیصد ہے کیونکہ کے ٹوکے راستے موت کی گھاٹیوں سے بھرے پڑے ہیں.


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain