تازہ تر ین

تاریخ کاسبق

شفقت حسین
ان دنوں وطنِ عزیز تاریخ کے نازک ترین دور سے گزر رہاہے ایک طرف یہ اندرونی حوالے سے مہنگائی‘ دہشت گردی‘ لاقانونیت‘ افراتفری کے خلاف برسرپیکار ہے تو دوسری طرف خارجی اعتبار سے حالات نے اسے ایک ایسے ملک کے سامنے لاکرکھڑا کردیاہے جو ”Absolutly No“ سننے کا عادی ہی نہیں ہے دوسرے لفظوں میں جب وہ کسی کو صرف اتنا کہہ دے کہ”کیا آپ ہمارے ساتھ ہیں یا نہیں“ تو ماضی گواہ ہے کہ اس کے مخاطب کے لئے ہاں کہے بغیر بنتی نہیں۔
امریکہ دنیا کے کسی بھی ملک میں جارحیت کا ارتکاب گویا اپنا حق سمجھتاہے لیکن کسی قسم کا کوئی احساسِ ندامت یا شرمندگی اس کے قریب سے بھی نہیں گزری۔ اپنے اور دیگر ممالک کے درمیان ہزاروں میل کی مسافت چشم زدن میں طے کرنے میں مہارت تامہ اور وسائل بھی اس پر ارزاں ہیں۔ ویتنام ہو یا عراق‘ ایران ہو یالیبیا‘ سعودی عرب ہویا افغانستان‘ پاکستان ہو یادنیا کا کوئی بھی دوسرا ملک‘ چین ہویا جاپان سب کو گویا اپنی چراگاہ سمجھتا ہے۔ جس طرح کوئی بھی ملک اپنی کسی نئی تشکیل پانے والی پالیسی یا جاری کردہ کسی چھوٹے موٹے آرڈیننس کے وقت عوام کاموڈ دیکھتے ہیں اور مقصد امکانی طورپر ظاہر ہونے والے کسی ردعمل کاجائزہ لیناہوتاہے۔ بالکل اسی طرح امریکہ بھی اپنے ارادوں کے حوالے سے اپنے کسی ایجنٹ یا تھنک ٹینک کے ذریعے دنیا کے موڈ کا اندازہ کرنے کے لئے کوئی نہ کوئی ایشو کھڑا کردیتاہے۔ چند دن پہلے ممتاز امریکی جریدے ”واشنگٹن پوسٹ“ کے نمائندے کے ذریعے وزیراعظم پاکستان عمران خان کا لیا جانے والا انٹرویو بھی اسی خواہش اور مقصد کا حصول ہو سکتا ہے جس کے ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم عمران خان کا ”ٹیپ کا بند“بدیہی طورپر یہی تھا ”کہ ہم کسی صورت اڈے نہیں دیں گے“اوریہ وہ مرحلہ تھا جب ہم جیسے قلم کے مزدوروں کو بھی وزیراعظم کے حق میں کلمہ خیر کہنے پر مجبور ہوناپڑا۔ اس کی وضاحت اس لئے ضروری ہے کہ25جولائی2018ء کے انتخابات میں کامیابی کے بعد وزیراعظم کے اعلان کردہ بلندوبانگ دعوے تھے جو ہم سمجھتے تھے کہ مشکلات میں سے نہیں بلکہ ناممکنات میں سے ہیں۔ خزانے کی ابترصورتحال کے باوجود ایک کروڑ نوکریوں کااعلان‘50لاکھ گھروں کی تعمیر اورایک ارب پودوں کی شجرکاری دیوانے کی بڑ کے سوا کچھ بھی نہیں تھا لیکن حکومت کے ہاتھ پاؤں سیدھے کرتے ہی کرونا تشریف لے آیا جس سے ایک طرف حکومت اس کے تدارک پر لگ گئی۔ یوں کہیے کہ اسے کچھ وقت کے لئے سکھ کاسانس لینے کاموقع مل گیا۔دوسری جانب عوام میں اس وائرس نے سراسمیگی اور خوف وہراس پیدا کردیا یوں تین سال کاعرصہ چشم زدن میں گزر تو گیا لیکن پاکستان کو درپیش مشکلات میں کمی واقع نہ ہوسکی کہ امریکہ نے افغانستان سے انخلا کامژدہ جاں فزا توسنا دیا لیکن خطے میں اپنے لئے ناپسندیدہ سمجھے جانے والے عناصر پر نظر رکھنے کے لئے اسے اڈوں کی ضرورت تھی اور اپنی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے اسے کسی بھی آخری حد تک جانا پڑے تو یہ دوسرے ملک کی سالمیت اس کی بقا‘ اس کی پرواہ کیے بغیر کسی بھی حد تک جا سکتاہے۔ کیادنیا کو یاد نہیں کہ نائن الیون کے واقعے کے بعد اس نے کس کس طریقے سے نہ صرف افغانستان کو بلکہ پاکستان کو بھی زچ کرنا شروع کیا۔ کئی مراحل ایسے بھی آئے جب امریکی اہلکاروں کے پاکستان کے بارے میں تندوتیز اور تلخ بیانات پرباقاعدہ پاکستان کے دفتر خارجہ نے امریکی سفراء کو بلاکر باقاعدہ ان کے سامنے احتجاج بھی کیا لیکن پرنالہ وہیں رہا جو تنازع کے جڑ تھا۔
2007میں جب جنرل پرویزمشرف برسراقتدار تھے تو امریکی وزیرخارجہ کونڈو لیزا رائس تھیں وہ بھی اور باقاعدہ امریکی چیئرمین جوائنٹ آف چیف سٹاف اکثر اس بات کی وضاحت کرتے تھے کہ امریکہ‘ اسامہ بن لادن یاالقاعدہ پرپاکستان کے قبائلی علاقوں میں براہ راست حملے نہیں کرے گا لیکن ایسا سب کچھ نہ صرف ہوتا رہا بلکہ ایبٹ آباد میں اسامہ لادن کے خلاف ہونے والا امریکی آپریشن کیا اس بات کاگواہ نہیں کہ امریکہ نے اپنے تئیں پیش کردہ اصولی موقف سے کئی بار انحراف کیا۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب امریکہ کسی زخمی سانپ کی طرح پھن پھیلائے ہوئے ہمارے ازلی اور ابدی ہمدرد دوست ایران پر بھی حملہ کرنے کی نیت باندھے بیٹھا تھا۔ اس وقت اسے یہ بھی سمجھ نہیں آرہی تھی کہ دنیاکو پہلے ہی افغانستا ن اور عراق وغیرہ کی جنگوں کے اثرات اور بھگتنا پڑ رہے ہیں۔ اس وقت بھی پاکستان نے امریکہ کو ہوش کے ناخن لینے کی باربار نصیحت کی ظاہرہے اس کا کچھ نہ کچھ اثر بھی بہرحال ہوا لیکن امریکہ نہ اس وقت ایران کی این پی ٹی کے رکن کی حیثیت کو تسلیم کررہاتھا اورنہ اس کی آزادی اور حرمت اسے کسی طورپر عزیز تھی محض اپنی تھانیداری مسلط کرنے کے خبث میں مبتلا یہ ملک اور اس کے حکمران دنیا بھر کے امن وامان کوبرباد کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔
پاکستان اور افغانستان کے حوالے سے اسے قطعاً ادراک ہی نہیں کہ اس کی ایسی برخود غلط اپنائی جانے والی حکمت عملیوں کے نتیجے میں طالبانائزیشن کو بڑھنے سے کوئی روک نہیں سکتا اگر یہی امریکی پالیسیاں جاری رہیں تو یہ نہ ماضی میں بڑھنے سے رک سکی ہے اور نہ ہی آئندہ اس کے رکنے کے امکانات ہیں۔ جیسا کہ دنیا امریکہ سے استفسار کررہی ہے کہ گزشتہ دو دہائیوں سے اربوں ڈالر خرچ کرکے بھی آپ مطلوبہ اہداف اور نتائج اگر حاصل نہیں کرسکے تو اب آپ کیا کرلیں گے۔ نیز پاکستان سے امریکی جہازوں کے اتار چڑھاؤ کے لئے طلب کیے جانے والے اڈے کس کے خلاف استعمال ہوں گے۔صاف ظاہر ہے کہ یہ ائیر بیسز اور یہاں سے اڑنے والے ڈرون وغیرہ فرزانِ توحید کے خلاف ہی برسرپیکار ہوں گے اور سردست چین کے ساتھ یہ کوئی تنازع پیدا کرنے کا متحمل نہیں ہوسکتا کیونکہ ایک طرف توویسے ہی امریکہ اس کا مقروض ہے دوسری طرف چین بھی خطے کی ایک بلاشبہ بڑھتی ہوئی قوت اورمعیشت ہے۔ لہٰذا ماسوائے مسلمانوں کے گرد گھیرا تنگ کرنے کے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا کوئی مقصد ہوہی نہیں سکتا بہرحال وزیراعظم عمران خان نے ”واشنگٹن پوسٹ“ کے ذریعے امریکہ کو جو کورا کرارا‘ صاف اورواضح جواب دیا ہے اس سے امریکی زعما کی آنکھیں کھل جانی چاہئیں۔ عمران خان کا اختیار کردہ موقف انہیں تاریخ میں یقینا امر کرکے رہے گا اگر وہ اپنے اس عہد اور موقف پر قائم رہے تو۔ ظاہر ہے اس سے عالمی مالیاتی اداروں کا دباؤ ایف اے ٹی ایف اور گرے لسٹ کی تلوارسرپرکھڑی رہے گی لیکن زندہ قومیں درپیش مشکلات اور چیلنجز سے عہدہ برا ہونے کی صلاحیت سے مالامال ہوتی ہیں اور قدرت کاملہ بھی ان کا ساتھ دئیے بغیر نہیں رہا کرتی۔ یہ تاریخ کا سبق ہے۔
(کالم نگار سیاسی‘سماجی اورمعاشرتی موضوعات پرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain