تازہ تر ین

انقلابِ حقیقی

حافظ احمد طارق
پچھلے تحریروں میں جو بات ادھوری تھی وہ یہ کہ جب معاشرہ آلودہ ہو جائے تو اس کی اصلاح کیلئے کسی تبدیلی کی ضرورت ہوتی ہے جو مثبت بھی ہو اور تعمیری بھی ہمارے ہاں مفکرین اور مصلحین نے انقلاب کا لفظ متعارف کرا رکھا ہے۔ اگر علم کے میدان میں کوئی تبدیلی مقصود ہو تو علمی انقلاب‘ اگرمعیشت میں کچھ تبدیل کرنا ہو تو معاشی انقلاب اور اسی طرح ہر شعبہ کا نام لکھتے جائیں اور آگے انقلاب کا نام لگا دیا جائے تو ہم سمجھتے ہیں کہ اس شعبہ میں بہتری مقصود ہے لیکن لفظ انقلاب جہاں سے لیا گیا ہے مُنقَلَب یَّنقَلِبُون و ہاں منفی معانی میں استعمال ہوا ہے لیکن چونکہ کسی بھی چیز کا ترجمہ اس کی اصل اور لغوی اعتبار سے کرنے کی بجائے عرف ِعام میں سمجھے جانے والے مفہوم کے تحت ہی کیا جانا زیادہ مناسب ہوتا ہے اس لیے ہم بھی معاشرتی انقلاب کا مفہوم ہی آگے بڑھاتے ہیں لیکن جس با ت پر میں آپکو لے جانا چاہتا ہوں اس کی اہمیت تب آشکار ہو گی جب ہم اس کا تقابل ایسے ہی متن حالات میں پنپنے والے انقلابات سے کریں گے۔ تاریخ میں دو طرح کے انقلابات نظر آتے ہیں مذہبی انقلاب اور معاشرتی انقلاب۔ جب میں معاشرتی انقلاب کا ذکر کرتا ہوں تو اس میں سیاسی انقلاب بھی شامل ہے جیسا کہ فرانس میں آیا اور اس میں معاشی انقلاب بھی شامل ہے جوکہ روس میں آیا لیکن اس میں تہذیبی انقلاب بھی ایک بڑی حیثیت رکھتا ہے جو کہ یورپ اور پھر پورے مغرب میں برپا ہوا۔
مذہبی انقلاب کو تمام انبیاء سے منسوب کیا جا سکتا ہے لیکن اس کے پیچھے ایک جہاد مسلسل اور تائید ایزدی کا واضح اظہار اور اعلان ہوتا ہے۔ اللہ کا فرشتہ پیغام رسانی سے اس مذہبی انقلاب کی راہیں متعین کرا رہا ہوتا ہے لیکن جس انقلاب میں کوئی ایسا اہتمام نظر نہیں آتا وہ تاریخ میں کوئی بڑا نام نہیں پاتا جیسے 300ء میں قسطنطین اعظم عیسائی ہو گیا اور اس کے ساتھ ہی اس کی پوری سلطنت نے عیسائیت قبول کر لی جس کے اثرات آج تک خطہ ء ارضی پر ظاہر ہو رہے ہیں لیکن اتنے بڑے انقلاب کو مفکرین انقلاب سمجھنے پر ہی تیار نہیں شاید اس کی وجہ یہ بھی ہو کہ حضرت عیسٰی علیہ السلام روحانیت کے پیغمبر ہیں آپ کے اخلاقی درس اور اس کا عملی نمونہ تو موجود ہے لیکن امور سلطنت، اور سماجی رویوں کے بارے آپ کی تعلیمات نظر نہیں آتی حتٰی کہ آپ نے شادی بھی نہیں کی۔لہٰذا انفرادی گھر کو کن اصولوں کے تحت چلانا ہے آپ کی بھی عملی صورت نظر نہیں آتی تو شاید قسطنطین کا عیسائیت اختیار کر لینا بھی معاشرہ میں کوئی بڑی تبدیلی نہ دکھا سکا جس بنا پر اسے انقلاب کہا جائے۔گذشتہ چند صدیوں میں برپا ہونے والے انقلابات میں انقلاب فرانس صرف سیاسی انقلاب تھا۔ اس انقلاب میں چند معاشرتی رویوں کو زیر بحث ضرور لایا گیا ہے۔ اور Equality & Fraternity کا راگ بھی الاپا گیا ہے لیکن اس کا محور سیاسی تبدیلی ہی رہا۔ اسی طرح روسی انقلاب دراصل ایک معاشی انقلاب تھا گو کہ بعد میں اس نے تمام پہلوؤں پر اپنی گرفت مضبوط کر لی لیکن سوائے معاشی تبدیلی کے کوئی نظر یہ پہلے سے موجود نہ تھا کہ مذہب کے ساتھ کیسے Dealکرنا ہے۔
نظام سلطنت کے دیگر شعبوں کو کس طرح چلانا ہے بلکہ مزے کی بات کہ یہ دونوں انقلاب، انقلاب فرانس اور انقلاب روس بھی برپا کرنے والوں کے ذاتی نظریات نہ تھے ایک ہجوم اٹھا اور اس نے انقلاب فرانس برپا کر دیا۔ اسی طرح لینن کا مارکس کے نظریہ معیشت سے کیا لینا دینا کتابیں یورپ میں لکھی گئیں اور انقلاب روس میں نظر آیاتو یہاں سے میں آپ کو اپنے نبیؐ کے لائے ہوئے انقلاب کی طرف لے جانا چاہتا ہوں کیونکہ یہی وہ حقیقی انقلاب تھا جس نے زندگی کے تمام پہلوؤں کو تبدیل کر کے رکھ دیا انفرادی زندگی بدل دی، اجتماعی زندگی یکسر تبدیل ہو کر رہ گئی پسند ناپسند کے معیار بدل گئے درست اور غلط کے پیمانے تبدیل ہو گئے سوچ کے زاویے وہ نہ رہے جو صدیوں سے چلے آ رہے تھے۔ تمام تعلیمات اسلامی انسانی زندگی ہر انفرادی اور اجتماعی گوشوں کو Adressکرتی ہیں لیکن خطبہ ء جمعتہ الوداع ایک ایسا Charter ہے جس نے آج کی اقوام عالم کو بھی ورطہء حیرت میں ڈال دیا ہے اور نام نہاد مصلحین جب اس Chapterپر پہنچتے ہیں تو زانوئے تلمذ طے کیے بغیر کوئی چارہ نہیں پاتے۔ ” لوگوآگاہ ہو جاؤ تمھارا خالق بھی ایک ہے اور تمہارا باپ بھی ایک ہے کسی عربی کو عجمی پر اور عجمی کو عربی پر کسی گورے کو کالے پر اور کسی کالے کو گورے پر سوائے پار سائی کے اور کوئی فضیلت نہیں “اس انقلاب عظیم کے بارے میں اغیار نے کیا تبصرے کیے اس سے قبل یہ بتا دینا ضروری ہے کہ انقلاب محمدیؐ اول سے آخر تک آپ کا برپا کردہ تھاجبکہ دیگر انقلابات گو یا یوں تھے۔ میں خیال ہوں کسی اور کا مجھے سوچتا کوئی اور ہے۔
دوسرا یہ کہ تمام انقلابات جو چشم عالم نے دیکھے وہ جزوی تھے کسی ایک پہلو پر نمودار ہوئے لیکن انقلاب محمدیؐ ہمہ جہت تھا اور ایک کامل و اکمل انقلاب تھا جس کے مذہبی عقائد، سماجی رسم و رواج، انفرادی طرز زندگی اجتماعی نظم وضبط جزاء و سزا کے جملہ معیار یکسر بدل دیے۔ یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر مائیکل ہارٹ نے پانچ ہزار سالہ تاریخ پر نظر دوڑائی اور ہر میدان میں ابھرنے والی عظیم شخصیات کی زندگیوں کے اوراق کھنگال ڈالے اورپھر کشید کرتے کرتے ایک سو افراد ایسے افراد کا انتخاب کیا جنہوں نے دنیا کے دھارے کا رخ موڑ دیا جنہوں نے کائنات کے سر بستہ رازوں کو آشکار کر دیا اور جنہوں نے تہذیب و تمدن میں انقلاب برپا کر کے تاریخ انسانی میں ایک نمایاں مقام حاصل کیا اور پھر دلچسب امر یہ بھی ہے کہ ان میں مذہبی راہنما بھی تھے اور سیاسی زُعماء بھی، سائنسی دنیا کے شاہسوار بھی تھے اور فلسفہ و تاریخ کے امام بھی تھے۔ لیکن جب ان کی درجہ بندی کی گئی تو حضرت محمدؐ کا اوّ ل نمبر قرار پایا در اصل مغرب کے مفکرین،مذہبی رہنماؤں کو صرف حضرت عیسی علیہ السلام کے طرز زندگی کو معیار بناکر دیگر تمام مذاہب کا مطالعہ کرتے ہیں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے گلی محلوں، شہرشہر، نگر نگر گھوم کردعوت و تبلیغ کی اور اخلاقی و روحانی طرز زندگی کو اجاگر کیا اور برداشت اور تحمل کا درس دیا اور جب ان سے کوئی زیادتی کرتا تو اس کا جواب دینے کی بجائے درگزر کو پسند فرمایا۔ اہل مغر ب صرف یہیں تک نبوت اور نبوی منصب کے قائل ہیں۔ اسی لئے حضورؐکے زمانہ اول کو مغربی محققین نبویؐ طرز زندگی مانتے ہیں۔جب آپؐ مکہ کی گلیوں میں تبلیغ کرتے نظر آتے ہیں۔ شعیب ابی طالب میں تنہائی کی صعوبتیں برداشت کرتے نظر آتے ہیں لیکن مدنی دور میں جب آپؐ بطورسپہ سالارنظر آتے ہیں اور ایک سیاستدان کی حیثیت سے اقوام کے ساتھ معاہدات کرتے ہیں۔ جب دیگر مملکت کے حکمرانوں سے خط و کتابت کرتے نظر آتے ہیں تو مغرب کے مفکرین انگشت بدنداں ہوجاتے ہیں کہ اتنی ہمہ جہت شخصیت، اتنے کمالات کی حامل ہستی تو یقینا یہی کامیاب انقلاب ہے۔
اب یہاں میرے پاس صرف ایک ہی ریفرنس ہے جس سے میں موجودہ معاشرتی ابتری، اخلاقی انحطاط، معاشی زبوں حالی اور نفسیاتی خلفشار کا علاج پاتا ہوں۔ وہ ہے سیرت النبیؐ۔
وہ کردار اور وہ طرز زندگی جو ایک زما نے میں کو متاثر کرچکاہے۔ میرے وقت کی بے یقینیوں اور کرب سے کراہتے لوگوں کے درد کا درمان بھی وہیں ہے۔ سیرت طیبہ میں پائی جانیوالی سعادتیں دیکھو،ساوات دیکھو، اخوت و بھائی چارہ دیکھو، حلم و درگزر ملاحظہ کرو، سخاوت و عطا دیکھو، دکھیاروں کے بہتے آنسوؤں کودامن رحمت میں سمٹتے دیکھو اور ایک ایسی قوم جس پر قرآن نے تبصرہ کیا تھالَفِی ضَلَالِ مُّبِین کہ وہ کھلی گمراہی میں تھے کو ظلمت سے اجالوں کا سفرکرتے دیکھو تو آج کے بھٹکے ہوئے آہو بھی سوئے حرم چل پڑیں گے۔
(کالم نگار ممتاز مذہبی سکالر اورڈیرہ غازیخان میں ریجنل ڈائریکٹر اینٹی کرپشن تعینات ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain