تازہ تر ین

ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی

ڈاکٹرعبدالقادر مشتاق
جس طرح سیاست میں لیڈر شپ کا بڑا اہم اور کلیدی کردار ہوتا ہے اسی طرح تعلیمی ادارے بھی اچھی لیڈر شپ کے بغیر ترقی نہیں کر سکتے۔ لیڈر شپ کی بھی کئی اقسام ہیں۔ ایک قیادت وہ ہوتی ہے جو چھوٹے چھوٹے مسائل میں اپنے آپ کو الجھا لیتی ہے اور کوئی بھی بڑا کام کرنے میں ناکام رہتی ہے۔ دوسری قیادت وہ ہوتی ہے جو اپنے مخالفین کو کھڈے لائن لگانے میں ہی سارا وقت ضائع کر دیتی ہے، تیسری وہ ہوتی ہے جس کا ہاتھ مستقبل کی نبض پر ہوتا ہے اور وہ دس سال آگے کا سوچتی ہے اور اس کے مطابق اپنی پالیسیاں مرتب کرتے ہیں۔ ایسی قیادت نہ صرف ملک بلکہ اداروں کی بنیادیں مضبوط ستونوں پر کھڑی کرتی ہیں۔
یہ اداروں کی خوش قسمتی ہوتی ہے اگر ان کو مضبوط اور جاندار قیادت میسر آ جاے۔ تعلیمی اداروں میں تو اچھی اور جاندار قیادت کا میسر ہونا اس لئے بھی ضروری ہے کیونکہ ملک کی ترقی کا زیادہ تر انحصار تعلیم یافتہ لوگوں پر ہوتا ہے اور تعلیم کا وجود اچھے تعلیمی اداروں کے بغیر ممکن نہیں۔ تعلیمی ادارے جہاں علم کی حفاظت کرتے ہیں وہیں علم پیدا کرنے کا ذریعہ بھی بنتے ہیں۔ ذرائع سے ہی بات آگے چلتی ہے چاہے وہ ذرائع ابلاغ ہوں، معدنی ذرائع ہوں یا ذرائع آمدن ہوں۔ لیکن علم کو صرف آمدن کا ذریعہ نہیں بنانا چاہیے اس سے نسلیں تباہ ہو جاتی ہیں نسلوں کے بگاڑ سے معاشرہ سنورتا نہیں بلکہ بگڑتا ہے اور بگاڑ سے پاگل پن اپنی انتہا کو پہنچ جاتا ہے۔ جس میں غور و فکر کرنے صلاحیت محدود ہو چکی ہوتی ہے کیونکہ غور و فکر کا تعلق عقل سے ہوتا ہے۔ عقل خدا کی تخلیق کردہ چیزوں میں سب سے خوبصورت چیز ہے جس پر خدا خود بھی ناز کرتا ہے۔ کیونکہ خدا نے اس سے یہ عہد بھی کیا کہ میں انسان کو جو کچھ بھی دوں گا وہ تیری وساطت سے دوں گا اور جو واپس لوں گا وہ بھی تیری وساطت سے ہی۔ لیکن عقل کا استعمال اوج ثریا پر بھی لے کر جا سکتا ہے اور پستی کی دلدل میں بھی دھکیل سکتا ہے۔ اس لئے عقل کا استعمال اور صحیح استعمال شعور کے بغیر ممکن نہیں۔ شعور علم سے آتا ہے اور علم کی آماجگاہ تعلیمی ادارے ہوتے ہیں۔ اس لئے کہا جاتا ہے کہ تعلیمی اداروں کی باگ دوڑ سوچ سمجھ کر ان لوگوں کے حوالے کرنی چاہیے جو یہ حق ادا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ بہت سے ایسے ادارے ہیں جن کو قیادت نے ترقی سے تنزلی کے راستے پر ڈال دیا اور بہت سے ایسے تعلیمی ادارے ہیں جن کو قیادت نے تنزلی سے نکال کر ترقی کے راستے پر گامزن کر دیا۔ اس لئے حکومت وقت کی یہ بڑی اہم ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ مناسب قیادت کا انتخاب کرے۔ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد اس حوالے سے خوش قسمت رہی ہے کہ اسے متحرک قیادت میسر رہی۔ ڈاکڑ آصف اقبال سے لے کر ڈاکٹر شاہد کمال تک ہر لیڈر نے اس کی ترقی میں اپنا حصہ ڈالا۔ ڈاکڑ شاہد کمال نے اس ادارے کو جہاں سیدڈاکٹر محمد علی ے چھوڑا تھا وہاں سے پکڑا اور پاکستان کے بڑے مشہور تعلیمی ادارے لمز کے برابر لا کھڑا کیا۔ لمز میں اس ملک کی اشرافیہ اپنے بچے پڑھانا فخر محسوس کرتی تھی۔
ڈاکٹر شاہد کمال نے مڈل اور لوئر مڈل کلاس کے بچوں کو اس قابل بنا دیا کہ آج وہ اشرافیہ کے بچوں کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ گورنمنٹ کالج یونورسٹی فیصل آباد کے اساتذہ کرام اور طلبہ و طالبات مبارکباد کے مستحق ہیں۔ کہ ان کے ادارے کا شمار نہ صرف پاکستان بلکہ جلد ہی دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں میں ہونے لگے گا۔ اس کے لیے اسی طرح کی جہد مسلسل چاہیے جس طرح کی اس وقت دیکھنے کو مل رہی ہے۔ ڈاکڑ شاہد کمال صاحب کے مثبت رویے نے یونیورسٹی انتظامیہ اور اساتذہ کو ایک پچ پر لا کھڑا کیا ہے۔ وہ گلوبل ایمرجنگ ٹرینڈز آف ہائر ایجوکیشن کے مطابق ادارے کی سمت کا تعین کرنے میں برسرپیکار ہیں۔ گلوبل ایمرجنگ ٹرینڈز اس بات کے متقاضی ہیں کہ یونیورسٹیاں انٹر پرنیورشپ, انڈسٹریل لنک اور تحقیق و تفتیش کی بنیاد پر چلیں، سربراہان میں مارکیٹنگ اور فنانشیل مینجمنٹ کا سلیقہ، ریسرچ اور درس و تدریس کا طریقہ ہو, انہیں یہ بھی معلوم ہو کہ یونیورسٹی اپنے ریجن کا کمیونٹی سنٹر کس طرح بن سکتی ہے۔ گورنمنٹ کالج یونورسٹی فیصل آباد کا ترقی کی طرف سفر اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ گلوبل ایمرجنگ ٹرینڈز سے وائس چانسلر صاحب اور ان کی ٹیم نہ صرف واقفیت رکھتے ہیں بلکہ اسے عملی طور پر نافذ کرنے کی صلاحیت بھی۔ یہ سب اس لئے ممکن ہے کیونکہ ڈاکٹر شاہد کمال میں افسرانہ اور باسی رویوں کی شدید کمی اور قائدانہ صلاحیتوں کی فراوانی ہے۔کسی بھی ادارے کو فہم و فراست والا وائس چانسلر ملنا اس کی خوش قسمتی ہوتی ہے۔ کچھ میرے دوستوں کا خیال ہے کہ پاکستان میں جتنی نئی یونیورسٹیاں آرہی ہیں اتنے تو وژنری وی سیز ملنے بہت مشکل ہیں۔ مش رومز کی طرح بڑھتی یونیورسٹیوں میں سے جو پٹری پر چڑھ گئیں وہ تو سودمند مگر جو نہ چڑھ پائیں وہ زہریلی ہوں گی۔ اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ قیادت کا بڑا اہم کردار ہوتا ہے وہ چاہیں تو اداروں کو ڈبو دیں چاہیں تو تار دیں۔ اداروں کو ادارے بنانے کے لئے چند باتوں کا عملی مظاہرہ ہونا چاہیے۔ یونیورسٹوں میں کنسورشیم کے رواج کو پروان چڑھایا جاے۔ ریسرچرز اور ریسرچ سنٹرز کے قومی و عالمی اداروں سے ایم او یو کو یقینی بنانے کی کوشش کی جائے۔
ڈاکٹر شاہد کمال نے ان مقاصد کے حصول کے لئے جہاں اورک کے آفس کو متحرک کیا ہے وہیں قومی وبین الاقوامی روابط استوار کرنے کے لیے الگ سے ایک شعبہ قائم کر دیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ انسٹیٹیوٹ آف انٹر نیشنل آفیرز کے ادارے کا قیام بھی بین الاقوامی طلبہ و طالبات اور جی سی یونیورسٹی کے درمیان حائل گلف کو بھی کم کرے گا۔ یونیورسٹی میں ORIC اور QEC کی محض کرسی اور دفتر یا عہدوں کیلئے سیاست کو وہ ہمیشہ کے دفن کرنے میں مصروف نظر آتے ہیں۔ مسائل پیدا کرنا عقلمندی نہیں ہوتی بلکہ مسائل حل کرنا ہی ترقی و کامیابی کی کنجی ہے۔ جو مافیاز تعلیم اور تعلیمی اداروں کے خلاف کام کرتے ہوں ان کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ تعلیمی ماحول پروان چڑھ سکے۔ علمی و ادبی محافل ہوں، اساتذہ اور طلبہ وطالبات کو اپنی صلاحیتوں کے اظہار کا موقع مل سکے۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ یونیورسٹیوں کو سیاسی گود نہیں تحقیقی کلچر درکار ہے، جہاں سوال اٹھانے کی گنجائش ضروری ہوتی ہے نہ کہ کنونشنل سکول و کالج طرز کے سوالات و جوابات اور رٹا کی۔ جس ادارے نے بھی تخلیقی صلاحیتوں کو نکھار نے کی کوشش کی اس کے طلبہ و طالبات نے پھر اس ادارے کے وقار کو کبھی بھی مجروح نہ ہونے دیا۔ بقول علامہ محمد اقبال کے
نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
(کالم نگار جی سی یونیورسٹی فیصل آباد کے
شعبہ ہسٹری کے سابق چیئرمین ہیں)
٭٭٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain