تازہ تر ین

ماہی پروری میں پیش رفت

ڈاکٹرناہید بانو
ویتنام کی مشہور مچھلی پنگیشیئس جو 100 سے زائد ممالک جن میں یورپ، امریکہ اور نمایاں ہیں کو درآمد کی جاتی ہے کی پاکستان میں کامیاب افزائش نسل کے تجربات سے اسکا پونگ پنجاب میں دستیاب ہے۔ مچھلی کی طلب زیادہ ہے اور مستقبل میں اسمیں مزید اضافہ ہوگا۔ پنگیشیئس اگرچہ تازہ پانی کی مچھلی ہے مگر نمکین پانی جسکا درجہ حرارت 30 سینٹی ڈگری اور تیزابیت 5 ہو میں بآسانی رہ سکتی ہے۔ اس مچھلی کی خاص بات جو اسے دوسری انواع سے منفرد کرتی ہے اس میں خون کے سرخ خلیوں کی اضافی تعداد اور اسکی ہوا کے بلبلوں اور جلد کے ذریعے سانس لینے کی صلاحیت ہے۔ اس طرح یہ پانی میں کم آکسیجن میں بھی زندہ رہ سکتی ہے۔ اسکے علاوہ اسکی کم عرصہ میں بڑا ہونے کی صلاحیت بھی اس باقی اقسام سے منفرد کرتی ہے۔ یہ 10 سال کی عمر میں 25 کلو گرام تک پہنچ جاتی ہے اور 6 سے 8 مہینے میں 800 گرام سے ایک کلو تک وزن حاصل کر لیتی ہے جو انسانی خوراک میں استعمال کے قابل ہے۔
اس مچھلی کو تالاب اور کیج کلچر میں زیادہ تعداد میں 6 سے 8 مہینوں کے لیے پالا جاسکتا ہے۔ ایک ایکڑ کے تالاب سے دوسری انواع کے مقابلے میں 4 گنا زیادہ پیداوار حاصل کی جاتی ہے۔ جو تقریبا 250 سے 300 میٹرک ٹن فی ہیکڑ ہے۔ جبکہ کیج فارمنگ میں اس مچھلی کے استعمال سے 100 سے 150 مچھلی فی میٹر کیوب کے ساتھ 100 سے 120 کلو گرام فی میٹر کیوب پیداوار حاصل کی جا سکتی ہے۔ یہ مچھلی کانٹوں کے بغیر فلٹ کی شکل میں یا جلد کے بغیر پیک درآمد کی جاتی ہے اس کے گوشت کا رنگ سفید، دودھیا، پیلا یا گلابی ہوسکتا ہے۔ اس کے گوشت کے رنگ کا دارومدار اس کی خوراک، پروسیسنگ، ماحول اور کلچر کے طریقہ پر منحصر ہے۔ ایف اے او کے مطابق اس مچھلی کو زیادہ مہنگی پروٹین والی خوراک کی ضرورت نہیں اور یہ 28 سے 32 فیصد پودوں کی پروٹین پر مشتمل خوراک پر گزارہ کر سکتی ہے۔ ایف اے او کی ایک رپورٹ کے مطابق ماہی پروری کے کل پیداواری اخراجات کا 70 سے 90 فیصد صرف خوراک کے اخراجات ہیں جبکہ اس مچھلی کے استعمال سے ماہی پروری کے پیداواری اخراجات کو کم کیا جا سکتا ہے۔
پاکستان میں اس مچھلی کی فارمنگ کے اضافے کے ساتھ ہی کچھ نئی وائرس، بیکٹیریا، فنجائی اور طفیلیوں سے پھیلنے والی بیماریاں بھی سامنے آ سکتی ہیں۔ جب تک کلچر اچھا ہے پنگیشیئس ہر بیماری سے مزاحم رکھنے کی صلاحیت رکھتی ہے مگر غلط ہینڈلنگ، پانی کی کوالٹی اور درجہ حرارت میں کمی اس کی قوت مدافعت میں کمی پیدا کرتی ہے اور بیماری کے پھیلاؤ میں اضافے کا باعث ہے۔ پاکستان میں ابھی بھی افراد کی ایک بڑی تعداد فشریز اور ماہی پروری کے فوائد سے ناواقف ہیں اور اس صنعت کی حالیہ برسوں میں ہونے والی ترقی کی کھلے الفاظ میں تعریف کرتے نظر نہیں آتے۔
پاکستان میں 1960ء کی دہائی میں کارپ کی افزائش نسل اور 2013ء میں تلاپیہ کی جنسی تبدیلی کی ٹیکنالوجی کے بعد 2021ء میں سول، ملی اور افریقی کیٹ فش جیسی مچھلیوں کے کامیاب افزائش نسل کے تجربات ماہی پروری کی تاریخ میں ایک بڑا انقلاب ہے۔ پاکستان سالانہ 40ہزار ٹن پنگیشیئس مچھلی درآمد کرتا ہے جو ملکی معیشت پر بڑا بوجھ ہے۔ اس مچھلی کی کاشت سے نہ صرف درآمدات میں کمی بلکہ انٹرنیشنل مارکیٹ میں اس کی برآمد سے زرمبادلہ بھی حاصل کیا جا سکے گا۔ جیسے جیسے محفوظ، صاف اور متواتر سی فوڈ کی طلب میں اضافہ ہوگا، پنگیشیئس ماہی پروری کے مرکزی دھارے میں شامل ہوگی اور معاشی فوائد کے ساتھ ساتھ ملکی پروٹین کی ضروریات کو بھی پورا کرے گی۔
(کالم نگار ممتازماہرین تعلیم ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain