تازہ تر ین

دیکھے ہیں پردہ ہائے نام بہت

ڈاکٹرعبدالقادر مشتاق
ایک دور تھا جب لائلپور پر مزدوروں اور کسانوں کی حکمرانی ہوتی تھی مزدور یونین کے ذریعے مزدوروں کے مفادات کا تحفظ کیا جاتا تھا جب تک یونینز مضبوط رہیں اس وقت تک مزدوروں اورکسانوں کے حقوق کا تحفظ مضبوط ہاتھوں میں رہا لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا گیا ویسے ہی مزدور یونینز کمزور ہوتی گیئں اور صنعتکار کی حکمرانی جڑ پکڑتی گئی صنعتکاروں اور تاجروں نے جہاں مزدور کا استحصال شروع کیا وہیں عوام کو ایڑھیاں رگڑنے پر مجبور کر دیا۔دوسری طرف دیکھا جائے تو اسی طرح کے حالات کا کسانوں کو بھی سامنا کرنا پڑا۔مالک ِ زمین نے مزارع کا استحصال شروع کیا اور اس کی آواز کو دبانے کے لئے نرم دمِ گفتگو اور گرم دمِ جستجو کو اپنا شیوا بنائے رکھا۔ اس طرح پاکستان میں صنعتکار اور زمیندار کی حکمرانی کا تسلط قائم ہو گیا اور یہی لوگ ہر دور میں حکومتِ وقت کا حصہ بھی رہے جس کی وجہ سے پاکستان میں نہ تو ایگریکلچرل ریفارمز آئیں اور نہ ہی لیبر ریفارمز کی شکل میں مزدوروں اور کسانوں کی قسمت بدلنے کا عہد کیا گیا ایوب خان اورذولفقار علی بھٹو کے دور میں اگرچہ زرعی ریفارمز اور لیبر پالیسی کا متعارف کروایا جانا احسن اقدام تھا لیکن اس کے کوئی خاطر خواہ نتائج سامنے نہ آسکے۔بڑے بڑے زمینداروں نے صنعتکاروں کے ساتھ رشتے داری کرنے کو ترجیح دی اپنے بیٹے اور بیٹیوں کے رشتے آپس میں کرکے اس اتحاد کو مزید مضبوط کیا جب انہوں نے غور کیا کہ پاکستان میں کون سے ایسے ادارے ہیں جن کے ذریعے وہ اپنے اقتدا ر کو مزید مضبوط کر سکتے ہیں تو انہوں نے اسی رشتے داری کا جال پھیلاتے ہوئے وہ بیوروکریسی،عدلیہ اور افواجِ پاکستا ن کو بھی اپنے اثر میں لانے میں کامیاب ہو گئے اس طرح ایک اتحاد دیکھنے کو ملا جس میں صنعتکار،زمیندار،بیوروکریسی،عدلیہ اور افواجِ پاکستان شامل ہو گئے۔قائدِ اعظم محمد علی جناح اور لیاقت علی خان کی وفات کے بعد پاکستان پر ان لوگوں کی حکمرانی کا دور شروع ہوا او ر وہ کسی نہ کسی شکل میں آج تک چلا آ رہا ہے اس میں کبھی تو بیوروکریسی نے ملک غلام محمد کی شکل میں،افواجِ پاکستان میں ایوب خان کی شکل میں اور زمینداروں نے بھٹو کی شکل میں،صنعتکاروں نے نواز شریف کی شکل میں اور عدلیہ نے کبھی جسٹس منیر کی شکل میں تو کبھی افتخار محمد چوھدری کی شکل میں پاکستان پرحکمرانی کو قائم و دائم رکھا۔اب اس اتحاد کو جس نے بھی توڑنے کی کوشش کی یا اس کے خلاف آواز بلند کرنے کی ہمت کی تو وہ یا تو ملک دشمن ٹھہرا یا پھر کافرِ اعظم۔اس اتحاد کو مزید مضبوط کرنے میں دائیں بازو کے لوگوں نے بھی اپنا حصہ ڈالنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی وہ ایسا کیوں نہ کرتے کیونکہ زیادہ تر دینی مدرسے سرکاری زمینوں پر آباد کئے جا چکے ہیں اور جو بھی حکومتِ وقت کے خلاف آواز بلند کرتا ہے اس مدرسے کے خلاف آپریشن شروع کر دیا جاتا ہے اس طرح سرکاری زمینوں کو قانونی شکل دینے کے لئے حکومتِ وقت کی مدد درکار ہوتی اور اس مدد کے بدلے میں مذہبی طبقہ حکومت کی جڑوں کو مضبوط کرنے میں اپنا کردار ادا کرتا ہے۔
دوسری طرف دیکھا جائے تو ان مدارس کو چلانے کے لئے روپے پیسے کی بھی ضرورت ہوتی ہے اور یہ روپے پیسے صدقات یا عطیات کی شکل میں وصول ہوتے ہیں اب یہ صدقات یا عطیات ملنے کا سب سے بڑا ذریعہ زمیندار اور صنعتکار ہوتے ہیں جن کی وجہ سے مدرسے میں زیرِ تعلیم طلبہ و طالبات کو نہ صرف اچھا کھانے کو ملتا ہے بلکہ رہنے کے لیے بھی شاندار عمارت کا بند وبست ہوتا ہے۔اگر زمیندار اور صنعتکار ان مدرسوں کے عطیات اور صدقات بند کر دیں تو مدرسوں کو چلانا ممکن ہی نہیں بلکہ نا ممکن بھی ہے۔ لائلپور کی زمین بھی اس اتحاد سے اپنے آپ کو محفوظ نہ رکھ سکی جب تک لیبر یونینز کادور دورہ رہا اس وقت تک مذہبی انتہا پسندی کا وجود ممکن نہ رہا لیکن جونہی صنعتکار کی معیشت مضبوط ہوئی تو مذہبی انتہا پسندی نے بھی جڑیں پکڑنا شروع کر دیں لیکن اس کو قابو میں رکھنے کے لئے صنعتکار نے صدقات اور عطیات کا سہارا لیا جو صنعتکار جس مسلک سے تعلق رکھتا تھا اس نے اسی مسلک کے مدرسوں اور اداروں کو فروغ دینے کے لئے صدقات اور عطیات کا منہ کھولا۔اس سے ان کو دو فوائد حاصل ہوئے۔اول،مذہبی فرقے کی امداد صنعتکار کے شاملِ حال رہی۔دوم، صدقات اور عطیات دے کروہ اپنا نام نیک اور شرفاء لوگوں میں شامل کروانے میں کامیاب ہو گئے۔لائلپور کی سرزمین پر بھی تمام مذہبی مسالک نہ صرف اپنے بڑے بڑے مدرسے قائم کر چکے ہیں بلکہ ان مدرسوں کے نام پر بڑے بڑے صنعتکاروں سے صدقات اور عطیات بھی وصول کرتے ہیں۔یہ ادارے نہ صرف اسلامی تعلیمات سے طلبا وطالبات کوروشناس کرواتے ہیں بلکہ اپنی تقاریر کے ذریعے بھی اسلام کی تعلیمات کا پر چار کرتے ہیں۔
ان تمام حالات کا اگر بغور مشاہدہ کیا جائے تو یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ لائلپور میں صنعتکار اور مذہبی مسالک کا آپس میں گہرا تعلق استوار ہو چکا ہے جس سے منہ موڑنا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے اور یہاں تک کہ شہر میں امن و امان قائم رکھنے کے لئے بھی صنعتکاروں کی مدد درکار ہوتی ہے تا کہ کہیں بھی مذہبی تفر قہ بندی سر نہ اٹھا سکے اور اگر کہیں خدشہ بھی پیدا ہو تو امن و امان کو بحال کرنے میں ہمیشہ صنعتکاروں کا ہی کلیدی کردار رہا جنہوں نے مسالک کو لڑائی جھگڑے میں پڑنے کی بجائے صلح اور امن کی طرف ہاتھ بڑھانے کو ترجیح دی۔ یہ وہ مثبت پہلو ہے جس کی وجہ سے لائلپور کی سرزمین تفر قہ بندی کے شر سے محفوظ ہے اگر چہ لوگوں کے اندر مسالک کی جڑیں بڑی گہری ہیں لیکن وہ صرف عبادات کی حد تک۔ چاہے ربیع الاول کا مہینہ ہو یا محرم کا ان مہینوں کے شروع ہونے سے پہلے ہی تمام مکتبہء فکر کے علماء کرام کو ڈسٹرکٹ ایڈمنسٹریشن ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کر کے انتظامات کا جائزہ لیتی ہے اور ا س میں بین المذاہب کونسل کا کردار بڑا مثالی رہتا ہے ان تمام باتوں سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ صنعتکار،علماء کرام اور بیوروکریسی ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں تا کہ شہر میں امن کی فضا کو برقرار رکھا جا سکے۔
(کالم نگار جی سی یونیورسٹی فیصل آباد کے
شعبہ ہسٹری کے سابق چیئرمین ہیں)
٭٭٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain