تازہ تر ین

ان سے امید نہ رکھ ہیں یہ سیاست والے

ضیا بلوچ
جس طرح کہ ہر شخص بخوبی جانتا ہے کہ آج کل آزاد کشمیر میں انتخابی مہم زوروشور سے جاری ہے۔ دنیا کی اس حسین وادی کا موسم اور پھل ہی نہیں اس کے لوگ بھی خوبصورت ہیں۔ کشمیریوں کی شاندار روایات اور ان کے رویے بھی بہترین ہیں۔ یہ زبردست مہمان نواز ہیں اور آج کل انتخابی مہم کی وجہ سے ان پاکستانی سیاستدانوں کی میزبانی کر رہے ہیں جن کے نزدیک “گالی دینا ان کا کلچر ہے”۔ کشمیر میں انتخابی مہم چلانے والے پاکستانی مہمان اپنے اس کلچر کا خوب مظاہرہ کر رہے ہیں۔ کشمیر میں انتخابی مہم سیاست دانوں کی نئی نسل چلا رہی ہے۔
راحت اندوری نے کہا تھا
نئے کردار آتے جا رہے ہیں
مگر ناٹک پرانا چل رہا ہے
پیپلز پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری نے کشمیر میں مہم کا آغاز کیا لیکن کسی ضروری کام کے باعث انہیں فوری امریکہ جانا پڑ گیا اب آصفہ بھٹو ان کی جانشینی کے لیے تیار ہیں۔ویسے پیپلز پارٹی کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ بارہا اقتدار میں رہنے والی پاکستان کی بڑی سیاسی جماعت کے پاس ایک بھی لیڈر نہیں جو بلاول کے بعد کشمیر میں جا کر انتخابی مہم چلا سکے. دوسری طرف مسلم لیگ ن کا بھی یہی حال ہے۔شہباز شریف کو چاہنے کے باوجود بھی فرنٹ فٹ پر نہیں آنے دیا جا رہا اور انہیں قیادت کے حوالے سے مسلسل پیچھے دھکیلا جا رہا ہے. مریم نواز اپنے والد کی وراثت کو بلا شرکت غیرے سنبھالے ہوئے ہیں اور شہباز شریف دور بیٹھے کہہ رہے ہیں۔
ہم وفا کر کے بھی تنہا رہ گئے
رسا چغتائی کا شعر ہے
عشق میں بھی سیاستیں نکلیں
قربتوں میں بھی فاصلہ نکلا
تحریک انصاف کی طرف سے وزراء علی امین گنڈاپور،مراد سعید و دیگر انتخابی جلسوں کو اس انداز میں گرما رہے ہیں کہ ذولفقار علی بھٹو کو غدار،نواز شریف کو ڈاکو،مریم نواز کو ڈاکو رانی جیسے گھٹیا خطابات دئیے جا رہے ہیں. اور تو کچھ نہیں ہو رہا بس سیاسی ماحول مزید آلودہ اور تعفن زدہ ہو رہا ہے۔ جواب میں وفاقی وزیر علی امین گنڈاپور کو متوالے اور جیالے ”گنداپور“ کہہ کر اپنے مخصوص سیاسی کلچر کی ترجمانی کر رہے ہیں۔شیخ رشید تحریک انصاف کی الیکشن مہم کو بیک فٹ پر رہ کر پروان چڑھا رہے ہیں۔
گویا خوب موج مستی ہو رہی ہے۔اظہر عنایتی نے کہا تھا
وہ تازہ دم ہیں نئے شعبدے دکھاتے ہوئے
عوام تھکنے لگے تالیاں بجاتے ہوئے
وزیراعظم عمران خان نے آزاد کشمیر میں تین جلسوں سے خطاب کرنا ہے لیکن حیرت انگیز طور پر مریم نواز‘ عمران خان کی آمد سے قبل ہی ان کے لیے پلیٹ فارم تیار کر رہی ہیں۔ اتنا تذکرہ حکومتی وزراء نے عمران خان کے کشمیر آنے کا نہیں کیا جتنا مریم نواز عوام کو یہ ترغیب دینے میں کر رہی ہیں کہ عمران خان کشمیر آئیں تو ان کا استقبال نہ کرنا۔ ن لیگی لیڈر کے پُرجوش ہونے سے لگتا ہے کہ عمران خان کے آزاد کشمیر کے جلسے نہ صرف بڑے بلکہ تاریخی ہوں گے۔
سیاست دانوں سے میری گزارش ہوگی کہ جم کے اور ٹکا کے انتخابی مہم چلائیں مخالفین کو خوب رگیدیں کیونکہ ہمیں اچھا لگے یا نہیں پر یہی ہمارا سیاسی کلچر ہے لیکن خدارا اخلاقیات کا کچھ لحاظ ضرور کریں. وہ یہ بھی سوچ لیں کہ وہ ایک دوسرے کی سیاسی جماعتوں سے ہی نکل کر آئے ہیں… اور پھر انہوں نے جلد یا بدیر انہی میں واپس جانا ہے… بقول بشیر بدر
دشمنی جم کر کرو لیکن یہ گنجائش رہے
جب کبھی ہم دوست ہو جائیں تو شرمندہ نہ ہوں
دوسری طرف آزاد کشمیر کے عوام سے کہوں گا کہ یہ سب تماشا 25 جولائی کو ختم ہو جانا ہے۔مہمانوں نے واپس چلے جانا ہے لیکن آپ نے ایک ساتھ رہنا ہے… مخالفتیں اتنی آگے نہ لے جائیں کہ واپسی کا راستہ نہ رہے۔ ویسے بھی خادم ندیم کا شعر ہے کہ
ان سے امید نہ رکھ ہیں یہ سیاست والے
یہ کسی سے بھی محبت نہیں کرنے والے
(کالم نگار قومی و سیاسی امور پر لکھتے ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain