تازہ تر ین

افغانستان میں کیا ہوگا

جاوید افضل
دوسری جنگ عظیم کے بعد مغربی دانشوروں کے ایک گروپ نے ایک کتاب(Next hundred years) اگلے سو سال لکھی یعنی دنیا میں 2045ء تک کیا ہوگا علاوہ تحقیق کے امریکہ کی سربراہی میں اتحادی مغربی ممالک کی طرف سے ایک پالیسی بیان اپنایا گیا کہ جرمنی اور جاپان کی طرح کوئی نظریہ(تھیوری) دنیامیں عروج حاصل نہ کرسکے گی نہ ہی کوئی ملک اور علاقہ تعصباتی طورپر منظم ہو کر مغربی سرمایہ داری نظام کو چیلنج کرسکے گا اس وقت روس میں کمیونزم نظام ان کے لئے خطرہ تھا جن کے لئے ان ممالک نے امریکی سربراہی میں مشرق بعید میں جنگ کی اور چین‘ویٹ نام‘ کوریا اورلاؤس کمبوڈیا دیگر ممالک میں بھی تباہی کی اسی پالیسی کے تحت امریکہ نے پاکستان اور افغان مجاہدین سے مل کر روس کے ٹکڑے کردئیے یہ امریکہ کی ایک جارحانہ پالیسی ہے یعنیFragmentation of worldدنیا کو ٹکڑوں میں تقسیم کرنا اور کمزور ملکوں کے ان کے وسائل پر قبضہ کرنا جیساکہ لیبیا‘ عراق شام کے گیس اور تیل کے وسائل افریقی اور لاطینی ممالک میں امریکی مداخلت وغیرہ امریکہ افغانستان میں مزید گروہ بندی پیدا کرکے خانہ جنگی کو تیز کردے گا خود داعش جیسی دہشت گرد تنظیموں اور افغان اتحادی کوSafe haven فضائی تحفظ مہیا کرے گا اس خطے میں جو علاقائی ہم آہنگی چین کے بیلٹ اینڈروڈ منصوبہ سے پیدا ہونے کا امکان ہے کو روک دے گا کیونکہ یہ ممالک افغانستان میں ایک طویل پروکسی جنگ میں الجھ جائیں گے۔ وہ پاکستان کے بلوچستان شمالی علاقہ جات اور افغان سرحد پر جاری بد امنی کو مزید ہوا دے گا۔ پشتون اوربلو چ فیکٹرمیں تیزی پیدا کرے گا لیکن پاکستان کے آگے یورپ افریقہ اورمڈل ایسٹ کے وسائل اورپیچھے چائنہ بنگلہ دیش انڈیا‘ روس اورروس کے زیر اثر ممالک جن کو چائنا خوش قسمتی سے روڈ اینڈ بیلٹ پروگرام سے جوڑ رہا ہے۔ پاکستان تجارتی حب بن رہا ہے اس منصوبہ کو افغان خانہ جنگی کے ذریعے نقصان پہنچائے گا امریکہ نے صرف حکمت عملی تبدیل کی ہے۔ وہ افغانستان میں اپنی پالیسی کے ذریعے موجود رہے گا۔
پاکستان کی افغان پالیسی کا اگر جائزہ لیا جائے تو آپ کو حیرت ہوگی کہ اس پا لیسی اور اسلامائزیشن کامعمار ذوالفقار علی بھٹو تھا۔ پاکستان کی افغان پالیسی ایک خود مختار اور آزاد افغانستان ہے۔ جس پر پاکستان دشمن فورسز قابض نہ ہوں پاکستان اور افغانستان قدرتی طورپر اسی طرح جڑے ہوئے ہیں اس پالیسی کے لئے پاکستان نے بے پناہ قربانی دی ہے۔
بھٹو نے شہنشاہ ایران سے مل کر اور افغانستان میں سردار داؤد کے انقلاب کی حمایت کرکے تینوں ممالک کا ایک مسلم بلاک بنانے کی کوشش کی تھی شہنشاہ ایران اورذوالفقار علی بھٹو نے اس مقصد کے لئے کابل کادورہ کیا اورکابل یونیورسٹی میں بھی اسلامی قیادت کے سٹوڈنٹ لیڈر پیدا کیے جو بعد میں جہادی لیڈر بنے۔ ان میں برہان الّدین ربانی‘ صبغت اللہ‘ گلبدین حکمت یار‘ یونس خالص‘احمدشاہ مسعود تھے جبکہ روس کے حامی بائیں بازو کے لیڈر نور محمد ترکئی‘حفیظ اللہ امین ببرک کارمل ”شعلہ وطن“ نام کے ایک اخبار اور تنظیم سے وابستہ تھے۔ امریکی گروپ میں زلمے خلیل زادہ‘ حامد کرزئی‘ اشرف غنی وغیرہ تھے۔یہ1970اور1980ء کی دہائی کے کابل یونیورسٹی کے لیڈر ابھی تک قائم ہیں۔ پاکستان کے حامی جمعیت اسلامی اتحاد اوردیگر گروپ بھٹو نے بنوائے تھے۔ ان تینوں ممالک کے بلاک بننے اور روس مخالف گروپ کے کابل میں آجانے کے رد عمل میں روس نے افغانستان میں مسلح مداخلت کی۔ شہنشاہ ایران اور ذوالفقار علی بھٹو بھی ختم کردئیے گئے لیکن ہمارے دفاعی ادارے اس پالیسی سے پیچھے نہ ہٹ سکے۔ بھٹو کو امریکی خواہش پرختم کرکے اس پالیسی کے ذریعے امریکیوں کو یرغمال بناکرروسی ریچھ کو زخم خوردہ کرکے ماسکو تک بھگا دیا یہ ایک انتہائی گہری پیچیدہ ناقابل فہم اورمروجہ دفاعی طریقوں سے ہٹ کرپالیسی ہے اس میں اس کو بنانے والے بھی قربان ہوگئے۔
9/11کے بعد امریکہ افغانستان پرقبضہ کرکے ہمارے بارڈر پر روس کی طرح28ممالک کے اتحاد کے ساتھ آگیا ہم کس طرح برداشت کرسکتے تھے کہ ایک مسلمان ملک محکوم ہو جائے اور ہماری خودمختاری اور ایٹمی اثاثوں کوخطرہ پیدا ہوجائے ہم نے اسی پیچیدہ اور ناقابل فہم پالسی کے ذریعے ایک دفعہ پھر امریکہ کویرغمال بنالیا ہم امریکہ کے سامنے لیٹ گئے اوربظاہر اپنی خود مختاری اور اور افغانستان میں اپنے حامی جہادی گروپوں کی قربانی دے کر ہم امریکہ کے اندر گھس گئے۔ اب امریکہ کو سمجھ آیاہے اوراس نے حکمت عملی تبدیل کرلی ہے۔ شام کی طرح افغانستان مختلف ٹکڑوں اوردھڑوں میں تقسیم کر رہا ہے اور علاقائی ممالک کو جنگ میں مصروف کررہاہے اور پاکستان کو مشکلات پیش آئیں گی جب امریکہ اقوام متحدہ سے مینڈیٹ لے گا اور ہمیں پابندیوں کاسامنا ہوگا۔ افغانستان طاقتورجنگجو دھڑے امریکہ سے تعاون کرکے اور ایران کی مدد سے زیادہ طاقتور ہوگئے ہیں۔ مثلاً ہرات میں اسماعیل خان کی حزب وحدت خلیلی کی جنبش ملی۔ شمال میں شوریٰ نظاررشید دوستم کی ازبک اور ترکی فیکٹر کے ساتھ اوراحمد شاہ کادھڑایہ سارے طالبان اور پاکستان مخالف ہیں افغان فوج زیادہ تر ان پرمشتمل ہے امریکہ کے اتحادی بھی ہیں پاکستان کوشش کررہاہے کہ کوئی قابل قبول حل نکل آئے لیکن یہ ناممکن ہے۔
افغانستان ٹکڑوں میں تقسیم ہورہا ہے اوروہاں کوئی صورتحال ہو ہماری افغانستان کے ساتھ سرحد اور افغان بلوچ علاقوں میں بدامنی پیدا کی جائے گی اس کا حل علاقائی ہم آہنگی ہے جوکہ روس‘چین‘ ایران اور انڈیا کے ایک پیج پر آنے سے ہوگی اورریہ خطہ اقتصادی ترقی کرے گا۔اگر ایسا ہو جائے یعنی انڈیا پاکستان میں صلح سے دونوں ممالک استحکام ہوگا اوردونوں ممالک کے90 فیصد مسائل حل ہوجائیں گے۔ انڈیا‘ چین‘برما‘بنگلہ دیش روسی ممالک3ارب آبادی والے ممالک کے بذریعہ ریل اورٹرک کے گیس اورتیل مشرق وسطیٰ افریقہ اور یورپ کو پاکستان کے ذریعے جارہے ہیں خوش قسمتی سے چائنہ ان کو ملا رہاہے۔ افغانستان کا حل انڈیا پاکستان میں صلح اور علاقائی ممالک کی اقوام متحدہ کے ذریعے افواج کی تعیناتی ہے جو افغانستان مستحکم نظام کی ضمانت ہے۔
(کالم نگارسیاسی وسماجی اورمعاشی امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain