تازہ تر ین

فتوحات کاخمار نہیں چڑھنا چاہیے

شفقت حسین
اس سے قبل بھی ایک نہیں شاید کئی بار میں اپنے قارئین سے عرض کرچکا ہوں کہ میرا کوئی TILT کوئی جھکاؤ اور ہمدردی ملک کی کسی بھی سیاسی‘ سماجی اور مذہبی جماعت کی طرف کبھی نہیں رہی۔ہمیشہ پاکستان اورپاکستانیت ہی میرا مطمح نظر اورطرہئ امتیاز رہی ہے۔ میں اول آخر محض ایک چھوٹا سا اخباری کارکن ہوں جو اپنا اپنے بیوی بچوں کانان ونفقہ حاصل کرنے کے لئے اخبارکی نوکری کرتا ہوں اورہمیشہ جو کچھ لکھتا ہوں اپنی سوچ اورکنوکشن کے تحت ہی لکھتا ہوں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ کبھی کسی طرف سے ملنے ملانے کی خواہش ظاہر نہیں ہوئی اور الحمدللہ میں بھی مزاجاً اس قدر مطمئن ہوں کہ عِزومَن قَنع وذِل مَن طَمعَ جیسے حکم اور ہدایت ہی کو اپنا رہنما مانتا ہوں۔ یوں بھی ایک تلخ مگر سچی حقیقت یہ بھی ہے کہ آج کل پڑھنے پڑھانے خاص طورپر اخبارات کاذوق اورشوق سے مطالعہ بھی ایک خاص مفہوم میں قصہئ پارینہ محسوس ہوتاہے۔ نیٹ کی موجودگی سوشل میڈیا اور الیکٹرانک ٹی وی چینلزکی برق رفتار ترقی کے باعث پرنٹ میڈیامیں ماضی قریب والا دم خم نہیں رہا تاہم اس کے باوجود بڑے میڈیا ہاؤسز کی بدولت لاکھوں اہل قلم اپنا اپنا گھر بار چلارہے ہیں۔ خدانخواستہ ان کے چولہے بھی بجھے نہیں بلکہ مسلسل جل رہے ہیں۔ جیسا کہ سطوربالا میں میں نے عرض کیا کہ لکھتے وقت اپنی سوچ اور کنوکشن ہی ذہن میں رہی ہے۔ تحریر میں تنقید کامقصد تعمیرتو ہوسکتاہے مگر اللہ تعالیٰ معاف فرمائے۔تنقید میں تخریب میرا مقصد کبھی نہیں۔
میں نے وزیراعظم کے حق اور مخالفت دونوں میں لکھا ہے اوراعتدال پر رہتے ہوئے لکھالیکن آج میرا دل چاہا رہاہے کہ ان کے ناقدین سے ان کے رویوں پر ہمدردانہ غور کرنے اور ان میں تبدیلی لانے کی گزارش کروں۔اس لئے کہ پاکستان تحریک انصاف کے پرچم تلے بننے والی حکومت نے تین سال جیسے تیسے گزارلئے ہیں اب باقی ماندہ ڈیڑھ دوسال بھی اپوزیشن جماعتیں صبر شکر کرکے گزارلیں تو کچھ بگڑنے والا نہیں بالکل اسی طرح جس طرح گزشتہ بیس پچیس سال عمران خان نے دانت پیستے ہوئے اپنے اپنے وقت کی حکومتوں کے رویوں کو دیکھتے ہوئے گزارے اگر اس وقت اقتدار کی دیوی پاکستان پیپلزپارٹی پر مہربان تھی یا پاکستان مسلم لیگ(ن)کے سربراہ کے سرپر اقتدار کا ہما بیٹھا رہا تو اسی طرح عزت خداوند کریم نے عمران خان کو بخش رکھی ہے۔ یہاں یہ ہرگزتصور نہ کیاجائے کہ وزیراعظم کے ناقدین خدانخواستہ ذلت سے دو چار ہو چکے ہیں بلکہ عرض کرنے کامقصد یہ ہے کہ کوئی نہ کوئی ادا عمران خان کی ایسی ضرور ہے کہ وقت ان کے حق میں فیصلے دے رہاہے۔ ایک طرف کرونا ان کے لئے خیرمستور ثابت ہوا تو دوسری طرف آزاد کشمیر کے حالیہ انتخابات سے عین متصل پاکستان دشمن افغان نمائندہ کی میاں محمد نواز شریف سے لندن میں ہونے والی ملاقات نے کشمیریوں کے موڈ کو بدلنے میں ایک بڑا اور اہم کردارادا کیااورنتیجہ سب کے سامنے ہے حالانکہ محترمہ مریم نواز شریف کے آزاد کشمیر وغیرہ میں جلسوں سے خطاب اورحاضرین کی تعداد کو دیکھتے ہوئے کوئی اور دوسری رائے ہوہی نہیں سکتی تھی کہ وہاں حکومت ایک مرتبہ پھر پاکستان مسلم لیگ(ن) بنانے میں کامیاب ہو گی اوروزیراعظم راجہ فاروق حیدر ہیContinue کریں گے لیکن پاکستان پیپلزپارٹی کے ہاتھ کچھ آسکا اور نہ ہی محترمہ مریم نوازشریف کی پرجوش‘جذبوں اور ولولوں کو گرما دینے والی تقریریں اپنا کام دکھا سکیں کہ قدرت مسلسل عمران خان پر مہربان تھی۔ اس کاثبوت25جولائی کے روز آزاد کشمیر میں ہونے والے انتخابات ہیں جن کے نتائج سے نہ صرف کشمیری عوام‘پاکستان بھر کے عوام بلکہ پوری دنیا آگاہ ہو چکی ہے۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ ہمہ مقتدر وزیر اعظم اور پاکستان کی ایک بڑی سیاسی جماعت کے دامن سے وابستہ راجہ فاروق حیدر بری طرح ہار گئے ہیں اوراب ہر سمت پاکستان تحریک انصاف کی فتح کے جشن اور جیت کے بگل بج رہے ہیں۔
گزشتہ سال پندرہ نومبر کے روز گلگت بلتستان میں ہونے والے انتخابات کو بھی بہت زیادہ دیر نہیں گزری جب انتخابات کے اگلے روز ملک بھر کے اخبارات پی ٹی آئی کی جیت کی نوید سنا رہے تھے۔ واضح رہے کہ گلگت بلتستان کے انتخابات کے ابتدائی نتائج بھی پی ٹی آئی کے حق میں تھے جن میں سے نوسیٹیں پی ٹی آئی کو‘ تین پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) کو محض دو نشستیں ملیں اور جے یو آئی زیروپوزیشن پرتھی جبکہ آٹھ آزاد امیدوار کامیاب ہوئے اور مجلس وحدت المسلمین صرف ایک نشست حاصل کر رکھی تھی۔یہ اگلے ہی روز کی اطلاعات تھیں۔
اب آزاد کشمیر کے حالیہ انتخابات میں بھی عمران خان سروخروہوئے ہیں تو یہ عزت میں سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی ہی کی دی ہوئی ہے مگر اب دیکھنا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عطا کی ہوئی عزت کووزیراعظم پاکستان قائم ودائم کس طرح رکھتے ہیں۔ کہیں یہ حاصل ہونے والی فتوحات کا خمار توان کو نہیں چڑھے گا۔ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر سمیت پاکستان کے تین صوبوں میں قائم اقتدار کابخار تو خدانخواستہ نہیں چڑھے گا اور کیا ان کے پاؤں آسمان پر نہیں زمین پر ہی رہیں گے اگر ایسا ہوا تو اسلام آباد میں مقیم میرے دفتر کے رفیق کار اور سینئر صحافی جناب ملک منظوراحمدکاتجزیہ سوفیصد درست ثابت ہوگا کہ آزاد کشمیر کے حالیہ انتخابات2023ء کے عام انتخابات کاٹریلر ثابت ہوں گے۔
میں تو وزیراعظم کے نیو یارک ٹائمزکے ایک اہم اخبار کے نمائندے کو دئیے جانے والے تین چار ہفتے قبل انٹرویو کو دلیرانہ سمجھتا ہوں جس میں انہوں نے امریکہ کو اپنے اڈے نہ دینے کے عزم کااظہار کیا تھا اورآج پھر انہوں نے ہماری خوشگوار حیرت میں اضافہ کردیا ہے کہ افغانستان میں قیام امن کے لئے بھارت کی شمولیت کسی طورپر منظور اور قابل قبول نہیں اور دنیا بھر کی طاقتوں کو بیانگ دہل یہ پیغام دے دیاہے۔ اس سے پاکستانی عوام کے ان پر اعتماد میں اضافہ ہی ہواہے‘ جو میں سمجھتا ہوں بہت اچھی علامت ہے۔
(کالم نگار سیاسی‘سماجی اورمعاشرتی موضوعات پرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain