تازہ تر ین

امریکی شکست صدی کابڑا واقعہ

حیات عبداللہ
بات صرف سانسوں کے چلنے کی نہیں ہُوا کرتی، زندگی محض دل دھڑکنے اور نبض کی حرکت سے ہی عبارت نہیں۔کتنے ہی لوگوں کی سانسیں چل رہی ہوتی ہیں اور دل دھڑک رہے ہوتے ہیں مگر وہ زندوں میں شمار نہیں ہوتے، بات تو اپنی زیست کے لمحات کو اسلام کے لیے وقف کر دینے کی ہُوا کرتی ہے۔لاریب زندگانی کو اس آہنگ اور بانکپن میں ڈھالنے کے بعد جسمانی اذیتوں اور ذہنی صعوبتوں کے جتّھے حملہ آور ہو سکتے ہیں، یہ بھی ممکن ہے کہ چہروں کی مسکان اور ذہنی گمان کسی آزمایش میں مبتلا کر دیے جائیں، ایسے دگرگوں اور قیامت خیز اذیت رکھنے والے حالات میں کسی قزاق اور سفاک طاقت کے سامنے ڈٹ جانا کوئی معمولی بات نہیں ہُوا کرتی۔اٹھائیس ممالک کی پھنکارتی ٹیکنالوجی اور چنگھاڑتے اسلحے سے لدی جدید فوج کے سامنے ایسے حالات میں سینہ سپر ہو جانا جب تمام اسلامی ممالک کی سِٹّی گم ہو چکی ہو، کوئی اتنا سہل اور آساں تو نہیں۔ساری دنیا ڈری، سہمی اور سمٹی بیٹھی تھی کہ امریکا سے اٹھنے والا یہ خوں خوار طوفان معلوم نہیں کس کس کو بہا لے جائے گا؟ سات اکتوبر 2001 ء کو جب امریکی سپر سانک طیاروں نے آسمان کی وسعتوں سے بم باری شروع کی تو ملّتِ اسلامیہ کانپ اٹھی تھی کہ اب کیا ہو گا؟ اب گہرے زخموں کا درماں کون کرے گا؟ اب کون زخمی جسموں پر مرہم رکھے گا؟ ”ڈھڈا مارے اور رونے بھی نہ دے“ سے بھی بڑھ کر ناٹو فورسز نہ صرف افغانستان کے شہریوں پر آگ اور بارود برسا رہی تھیں بلکہ اُنھیں دہشت گرد کہ کر اُن کی آہ وبکا اور گریہ وزاری کا سارا اثر بھی زائل کر رہی تھیں۔ظلم کا ہر حربہ، دنیا کا ہر خطرناک ترین اسلحہ افغانیوں پر برسایا جا رہا تھا اور ساتھ ہی اُن کی مظلومیت کو چنگیزیت کے طور پر بھی متعارف کروایا جا رہا تھا۔افغانستان کے وہ سادہ لوح بندے جنھیں پینٹاگان اور ورلڈ ٹریڈ سنٹر کی سپیلنگ تک نہیں آتے، اُنہیں فاسفورس کی آگ میں جھلسایا جا رہا تھا لیکن ایمان یافتہ لوگوں کا یہ مُلک ایک ایسی جنگ لڑنے کے لیے مکمّل طور پر ایمانی بصیرت اور دِینی حمیّت کے ساتھ تیار ہو چکا تھا کہ جس نے مستقبل میں ایک اور سپر پاور کو انجام سے دوچار کرنا تھا۔سیکڑوں برسوں پر محیط افغانستان کی تاریخ شاہد ہے کہ یہ لوگ ہر چڑھ دوڑنے والی طاقت کو قبر بُرد کر دیتے ہیں، اگرچہ امریکا کے خلاف جنگ میں ان کے پاس اسلحہ ایسا نہ تھا جو عہدِ جدید میں جنگ لڑنے کے لیے کفایت کرتا یو مگر ان کے دل ایمان کی سوغات سے شاداب تھے۔ان کا یہ ایمان آفریں جذبہ انھیں تمام عالمی طاقتوں سے ممتاز اور ممیّز کرتا تھا کہ یہ اپنی جانوں سے بڑھ کر آزادی سے مَحبّت کرنے کے خوگر تھے۔ساری دنیا عددی برتری اور اسلحے کی فراوانی کو دیکھ کر حالات کا جائزہ لے رہی تھی جب کہ یہ لوگ جان قربان کرنے کے جذبات کو پال پوس کر میدان میں لے آئے تھے۔
اٹھائیس مُلکوں پر مشتمل اس فوج میں کوئی ایک فوجی بھی ایسا نہ تھا جو اپنی جان قربان کرنے کا متمنّی اور طلب گار ہو، جب کہ افغانستان کے لوگوں میں کوئی ایک شخص بھی ایسا نہ تھا جو اپنی جان بچانے کو آزادی پر مقدّم سمجھتا ہو۔اس جنگ میں یہ ایک ایسا فتح اور شکست کا ضامن سبب تھا جسے دنیا داروں کے لیے سمجھنا نہایت دشوار تھا۔دھیرے دھیرے چشمِ فلک یہ دیکھ کر دنگ ہوتی رہی کہ امریکا اپنی فوج کی بجائے ڈرون طیاروں کو لڑانے لگا تھا۔کھجور کے موٹے بان کی چارپائیوں اور تنگ وتاریک کوٹھڑیوں میں رہنے والے لوگوں نے پوری متانت اور استقامت کے ساتھ ایک ایسی سپاہ کے خلاف جنگ لڑی جس کا نام سن کر ہی دنیا کانپتی تھی۔بہ ظاہر، وائٹ ہاؤس اور پینٹاگون سے اس جنگ کو چینیلائر کرنے اور دوسری جانب تنگ وتاریک غاروں میں پتھروں پر بیٹھ کر قیادت کرنے میں زمین آسمان کا فرق تھا مگر فتح ونصرت کا انحصار ہتھیاروں کی بجائے اللہ کی نصرت اور جذبوں کی صداقت پر ہوتا ہے۔
افغانستان پر حملے کے وقت امریکا یہ مکمّل طور پر فراموش کر چکا تھا کہ سوویت یونین کا کیا حشر ہُوا تھا۔وہ سوویت یونین جو ایشیا سے لے کر یورپ تک پھیلا ہُوا تھا۔اُس وقت روس کا طوطی بولتا تھا، اُس نے اسلامی دنیا کو ہلا کر رکھ دیا تھا اور پھر محض چند سال بعد ہی سوویت یونین ٹکڑوں میں بٹ گئی۔روس، ازبکستان، ترکمانستان، تاجکستان، آرمینیا، یوکرین اور جارجیا جیسے مُلک سوویت یونین کا پیٹ چیر کر باہر نکلے۔امریکا یہ بالکل بھول چکا تھا کہ افغانستان کے ماضی کا ایک ایک لمحہ گواہ ہے کہ یہاں بیرونی طاقتور کے لیے بالشت برابر جگہ نہیں، البتہ ان کے لیے قبرستانوں کی جگہ بڑی وسیع ہے۔یہاں سکندرِ اعظم نے حملہ کیا، یہاں آریا آئے، یہاں منگولوں نے قبضہ کیا، ازبک یہاں حکومت کرنے کے لیے آئے اور برطانیہ تو کئی بار حملہ آور ہوا مگر کوئی ایک مُلک بھی یہاں ٹھہر نہ سکا۔ان سب کو افغانستان کی مٹی میں دفن کر دیا گیا۔
آج امریکا شکست کھا چکا۔افغانستان میں اپنی شکست کو فتح میں بدلنے کے لیے جوہر ٹاؤن دھماکا کیا گیا۔خدانخواستہ اگر جوہر ٹاؤن دھماکے کے مقصد میں وہ کامیاب ہو جاتے تو”را“ کو افغانستان سے باعزت فرار اور امریکا کو ذلت آمیز شکست کو ایک معزّز فتح میں بدلنے کا ایک بہت بڑا جواز مل جاتا، مگر اللہ کے فضل وکرم سے وہ اپنے تمام مقاصد میں ناکام ونامراد ٹھہرے۔
مَیں نے کہا ناں! کہ سانسوں کا چلنا، دلوں کا دھڑکنا اور نبضوں کا حرکت میں رہنا ہی زندگی کی نوید نہیں ہُوا کرتا۔موت سے مفر تو کسی کو بھی نہیں، سب نے ہی مٹّی تلے دفن ہو جانا ہے، اصل زندگی تو کرداروعمل کی ہوتی ہے۔کتنے ہی لوگ برساتوں کی مانند ہوتے ہیں، کتنے ہی انسان رم جھم پھواریں بن کر دلوں پر برسنے لگتے ہیں، اللہ کے کتنے ہی نیک بندے رحمت کی برکھا بن کر تن من کو اجال دیتے ہیں اور کتنے ہی لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ جن کی قربانیوں کا تاریخ کے اوراق پر کوئی تذکرہ تک نہیں ہوتا، ان سب گمنام لوگوں کو میرا عقیدت بھرا سلام۔
(کالم نگارقومی وسماجی امور پر لکھتے ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain