تازہ تر ین

آزادیِ نسواں کی جنگ

نگہت لغاری
میرا چھوٹا سا غریب ملک آج کل بیک وقت تین قسم کی جنگوں کی لپیٹ میں ہے۔ معاشی، معاشرتی اور جنسی۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ یہ چھوٹا سا غریب ملک اسلامی ملک ہے۔ اگر اس ملک میں اس کے نام کے مطابق اسلامی قانون اور ضابطے لاگو ہوتے تو یہ ملک نہ تو غریب کہلایا جا سکتا تھا اور نہ ہی یہ ان تینوں قسم کی جنگوں میں لپیٹ میں ہوتا۔ میرا آج کا کالم ان جنگوں کی وجوہات، علاج اور نتائج پر مشتمل ہوگا۔ اس میں میری تحقیق اور جستجو کی جو محنت شامل ہے، مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ میری اس حسن کارکردگی پر میرے لوگ مجھے پتھر کا میڈل عطا کریں گے کیونکہ میرے لوگوں کے پاس حسن کارکردگی کا معیار کچھ مختلف ہے۔ وہ اس ماڈل کو اس کی جس حسن کارکردگی پر سونے کا تمغہ پہناتے ہیں، اس کا کام شاید میری کارکردگی سے زیادہ محنت طلب ہے کیونکہ، وہ ماڈل صابن کی صرف سو روپے کی ٹکیہ کے اشتہار میں جس طاقت سے ناظرین کو اپنے باتھ روم کے دروازے تک کھینچ لاتی ہے وہ طاقت میرے 10 روپے کے قلم میں کیسے آ سکتی ہے۔
میرے ملک کی عورت نے اپنی آزادی کی جو جنگ شروع کی ہے اسے مرد کی جبلی طاقت کے ہاتھوں مقتول بننا فطری اور منطقی نتیجہ تھا۔ اسلام نے انسان اور اس سے وابستہ تمام معاملات کی وضاحت کھول کھول کر بیان کر دی ہے۔ اب میں اس قرآنی وضاحت کی تفصیل بیان کرتی ہوں جسے انسانوں نے خاص طور پر خواتین نے یا تو کم علمی کی وجہ سے قابل عمل نہیں سمجھا یا پھر دیدہ دانستہ اور جان بوجھ کر ان وضاحتوں کو ناقابل عمل سمجھ کر مسترد کر دیا ہے۔ بہرحال عورت نے اس بات پر یقین ہی نہیں کیا کہ جتنی اہمیت اور فضیلت اسے اسلام نے دی ہے وہ اس کی ترقی اور سکون کا روشن راستہ تھا مگر عورت نے یہ سمجھا کہ وہ انسان کی تخلیق کردہ ٹارچ کی روشنی میں اپنی ترقی اور سکون کا راستہ زیادہ بہتر طور پر دیکھ سکے گی۔ یہ نہ سمجھ سکی کہ ٹارچ کی روشنی تو ایک محدود روشنی ہے اور اللہ کی دی ہوئی روشنیاں لامحدود ہیں۔ چاند، سورج کی روشنی کا اندازہ کریں، قرآن نے کتنی خوبصورتی سے وضاحت کردی ہے۔
”اور ہم نے چاند سورج کو ایک دوسرے کا جانشین بنایا ہے، جب سورج دن کو اپنے فرائض مکمل کر دیتا ہے تو چاند اپنا منصب سنبھال کر آسمان پر تخت نشین ہو جاتا ہے۔“ عورت کی کہانی زمانہئ جاہلیت سے شروع کرتے ہیں جب عرب کا معاشرہ عورت کو مسائل اور مشکلات کا پلندہ سمجھ کر زمین میں زندہ گاڑھ دیتا تھا۔ ایک بیٹی جو ماں، باپ دونوں کے گوشت پوست کا حصہ تھی، اسے پیدا ہوتے ہی آخر کیوں دفن کر دیتے تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ عورت کی ناقص عقل اور جسمانی کمزوری والدین کی زندگی کو مصائب اور مسائل سے دوچار کرتی ہے۔ اسلام نے سب سے پہلے اس کی وضاحت کر دی۔ ”عورت ناقص اُلبدن ہے مگر ناقص اُلعقل ہرگز نہیں۔“ ہم خواتین نے سب سے پہلے اسی وضاحت کو مسترد کر دیا اور اپنے آپ کو مرد کے مقابلے میں ناقص اُلبدن کی حقیقت کو جھٹلا دیا۔ پھر کیا عورت کا گھر اس کا ذرہ بکتر ہے کیونکہ ضعیف البدنی کی وجہ سے وہ ہر وقت حالت جنگ میں ہے (مرد کے مقابلے میں) مگر عورت اس تجویز کردہ ذرہ بکتر میں کسمسانے لگی اور ذرہ بکتر پھینک کر باہر نکل آئی پھر جب خالی بدن پر مرد کی طرف سے تیروں کی بارش ہونے لگی تو تیر اندازوں کو مجرم سمجھا۔ پھر کہا، ہار سنگھار کرنا عورت کا حق ہے مگر وہ یہ ہار سنگھار اپنے شوہر کیلئے کرے مگر موجودہ عورت اس ہار سنگھار سے مسلح ہو کر باہر نکل آئی کہ شاید اس کے اسلحہ پر کسی اور کا اسلحہ کام نہ دکھائے۔ پھر اسے اسی کے، اسلحہ کے ساتھ مارا پیٹا گیا۔
پھر حکم خداوندی تھا کہ عورت کو رحمت سمجھو جب حضور اکرمؐ نے عربوں کو یہ بات بتائی تو وہ کچھ سوچنے پر مجبور ہوئے اور اس لفظ رحمت کو آزمانے کی ٹھانی۔ جب بیٹی کی پیدائش پر ان کی فصل اچھی ہو جاتی یا گھر کا کوئی بیمار مرد تندرست ہو جاتا یا کوئی قبیلہ کوئی جنگ جیت جاتا تو وہ بیٹی کو رحمت سمجھ کر اسے دفن کر دینے سے باز رہتے۔ پھر فرمایا عورت بہترین تاجر بن سکتی ہے، وہ گھر میں رہ کر بھی تجارت کرکے اپنے معاشی حالات بہتر کر سکتی ہے مگر آج اپنے گھر کے معاشی حالات بہتر کرنے کے بہانے ایک تھرڈ ڈویژن پاس لڑکی فوراً ملازمت کے لیے گھر سے باہر نکل آتی ہے، ایسی لڑکیوں کو مرد سہانے خواب دکھا کر بڑی چالاکی اور پھرتی سے، ان کو گھروں سے کھینچ لاتے ہیں اور ان کی کمائی سے اپنا حصہ نکال کر پرسکون ہو جاتے ہیں۔ شوبز کی کتنی لڑکیاں آج دولت کے منہ زور گھوڑوں پر سوار بگٹٹ دوڑ رہی ہیں مگر جب گرتی ہیں تو ہڈی پسلی تڑوا بیٹھتی ہیں۔ پھر کچھ دولت مند خواتین تو صرف وقت گزاری اور اپنے ہار سنگھار دکھانے کی خاطر گھروں سے باہر آ گئی ہیں، انہی کے بچے پھر جو کچھ کرتے ہیں، وہ سب کے علم میں ہے۔ مَیں عورت، کی قابلیت، یا اہلیت سے قطعاً انکاری نہیں ہوں جو خواتین اگر کسی بھی غیر معمولی قابلیت کی مالک ہیں تو انہیں ضرور گھر سے باہر نکل کر بھی اپنی قابلیت کو استعمال میں لانے کا حق ہے، آج کچھ خواتین سائنسی علم رکھنے میں مردوں سے بھی آگے ہیں۔ ان کو ہر صورت باہر نکل کر کام کرنا چاہیے کیونکہ یہ بھی حقیقت ہے کہ ایک تخلیقی ذہن رکھنے والی قابل اور باصلاحیت خواتین کے پاس مرد کی چالاکی کے ہاتھوں نقصان اٹھانے کا نہ تو وقت ہوتا ہے، نہ رحجان۔ مَیں نے کچھ غیر معمولی غیر ملکی خواتین کے جب کارنامے پڑھے جن میں میرے ملک کی خواتین بھی شامل تھیں تو مَیں نے فوراً ایسی خواتین کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے کالم لکھا “Women Not Merely House Wife” بہرحال اگر خواتین کو کبھی ”اینیمل ورلڈ“ پروگرام دیکھنے کا موقعہ ملے تو عورت مرد کے تعلقات کی ساری کہانی اور اس کی تفصیل آپ کے سامنے آ جائے گی اور آپ سبق سیکھ کر لطف اندوز ہوں گے۔ کچھ حصہ مَیں آپ کو سنا دیتی ہوں۔
سمندر کے اندر کی مخلوق مچھلیاں اور مگرمچھ قانون اور اصول ضابطے کی ایک ایسی تحریر انسان کیلئے پیش کرتے ہیں کہ اس کو پڑھ لینے کے بعد انسان شاید خود اپنی غلطیوں کی تلافی کر سکتا ہے۔ سمندر کے اندر بہت گہرائی میں مچھلیوں کی ایک ایسی مخلوق ہے جو قدرت کی صناعی کا حیرت انگیز نمونہ ہے، سب مچھلیاں گہرے رنگدار لباس میں بالکل ایسے لگتا ہے جیسے ان کو سرخ، سبز، نارنجی اور زرد رنگ کے لباس کسی باہر کی مخلوق نے پہنا دیئے۔ بعض مچھلیوں کی پشت پر ایسے دائرے اور اُبھار ہیں جو اس طرح چمکتے ہیں جیسے کسی نے سوئی دھاگے سے ہیرے، موتی ٹانکے ہوں۔ ایک دیوقامت مگرمچھ بڑے سکون سے بیٹھا ہوتا ہے۔ یہ نرم و نازک رنگ برنگی بنی سنوری مچھلیاں اس مگرمچھ کے آگے گھومتی پھرتی ہیں اور وہ اچانک اپنا دہانہ کھول کر انہیں ہڑپ کر لیتا ہے۔ کچھ مچھلیاں ڈر کر اس کے دہانے کے سامنے سے پھُسل پھُسل کر اِدھر اُدھر ہو جاتی ہیں مگر کچھ بھولی یا شاید زیادہ خود اعتماد مچھلیاں جان بوجھ کر اس کے سامنے اٹھکھیلیاں شروع کر دیتی ہیں۔ وہ انہیں اس فنکاری اور پھرتی سے نگل لیتا ہے کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں جب کوئی بڑی مچھلی نگلتا ہے تو اس جدوجہد میں اس کے آنسو نکل آتے ہیں گویا وہ بے بس تھا یا بے قصور تھا۔ جیسے ہر مرد کے عورت کو نگلنے کے بعد آنسو نکل پڑتے ہیں اور وہ عدالت میں اپنے آپ کو بے قصور ثابت کرنے کیلئے روتا ہے۔ بس یہ ساری کہانی عورت مرد کی کہانی ہے، عورتیں مگرمچھ کے دہانے کے سامنے اٹھکھیلیاں کریں گی تو مگرمچھ کی ”طاقت“ کو بھی سامنے رکھیں۔ افسوس اس بات کا ہے کہ موجودہ جنسی بے راہ روی میں والدین بھی اتنے ہی مجرم ہیں جتنے کہ بے راہ رو لڑکے اور لڑکیاں۔ کیا والدین کو علم نہیں کہ مذہب نے لڑکے اور لڑکی کیلئے کیا حدود مقرر کی ہیں۔ جب والدین اپنے آپ کو ترقی یافتہ کہلوانے کے زعم میں اڑتے پھریں گے تو پھر آسمانی بجلی کی زد میں تو آئیں گے۔
ایک بار حضرت علیؓ کے پاس ایک آدمی آیا اور پوچھا کہ زنا بالجبر کی کیا سزا ہے تو انہوں نے فرمایا دونوں کو سنگسار کر دیا جائے۔ اس شخص نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ دونوں کی رضا شامل تھی تو آپ نے فرمایا کہ یہ زنا مُحصنہ ہے اور اس کی سزا یہ ہے کہ دونوں کو اتنا مارا جائے کہ وہ مر جائیں۔
(کالم نگارانگریزی اوراردواخبارات میں لکھتی ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain