تازہ تر ین

پاکستان اور اس کے ہمسائے

پی جے میر
آج پاکستان اس چوراہے پر کھڑا ہے، جہاں ہمیں بہت سنجیدگی اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک بیرونی اور دوسرا اندرونی چیلنج بھی ہمیں درپیش ہے۔ پہلے ہم خود کو درپیش بیرونی چیلنج کے حوالے سے گفتگو کریں گے۔ ہمیں سب کو معلوم ہے کہ اس وقت پاکستان کے شمال میں افغانستان اور بھارت موجود ہے۔ جتنا چاہے پاکستان نے ان دونوں ممالک کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا لیکن بدقسمتی سے ہمیں ان دونوں ملکوں کی جانب سے انتہائی مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔ اس وقت پاکستان کوئی مانے یا نہ مانے امریکہ کے شکنجوں سے بچ رہا ہے اور صرف ہماری خوش قسمتی یہ ہے کہ ہمارے پاس عمران خان کی صورت میں ایک وزیراعظم موجود ہے۔ امریکہ اس وقت ہر قسم کا دباؤ پاکستان پر ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے کہ پاکستان انہیں اپنے ایئر بیسز فراہم کرے۔ جس پر وزیراعظم نے دوٹوک جواب پہلے ہی دے رکھا ہے کہ کسی بھی صورت میں ہم امریکہ کی اس خواہش اور مطالبے کو پذیرائی نہیں دیں گے۔ ہم نے پہلے ایک بے معنی جنگ لڑی جو امریکہ ہی کی خاطر تھی اور اس کا انجام ہم سب نے دیکھ لیا کہ پاکستان اور خطے کے ارد گرد قائم ممالک میں کس قدر خوفناک دہشت گردی سامنے آئی اور دنیا کو پتا ہے کہ پاکستان کو کتنا معاشی اور جانی نقصان اٹھانا پڑا لیکن المیہ یہ ہوا کہ پاکستان کے ساتھ کوئی ملک کھڑا نہ ہوا۔ امریکہ جس طرح پہلے ہی افغانستان کو نہتا چھوڑ کر نکل گیا۔ آج بھی وہی صورت ہے کہ بگرام ایئرپورٹ پر بغیر بتائے افغانی فورسز فرار ہو گئیں۔
اگر اخبارات کے قارئین کو یاد ہو کہ مسز ہیلری کلنٹن نے کنونشل کمیٹی کے روبرو جو بیان دیا کہ ہم نے افغانیوں کو استعمال کیا اور اس طرح ہم انہیں چھوڑ گئے اور آج بھی منظر نامہ وہی ہے کہ آج وہی لوگ پاکستان کو دوبارہ ملوث کرنا چاہتے ہیں کہ یہ ہمیں اپنے ہوائی اڈے ماضی کی طرح دیں تاکہ ایک مرتبہ پھر دہشت گردی کی لہر پوری آب و تاب کے ساتھ دیکھی جا سکے۔ یہ ایک ڈویلپمنٹ سٹوری ہے کیونکہ پاکستان نے ایف اے ٹی ایف کے 27 نکات میں سے 26 کو پورا کر دیا اور یہی وجہ ہے کہ ان کی دوغلی پالیسی کی وجہ سے پاکستان آج بھی امریکی شکنجے میں جکڑا ہوا ہے اور گرے لسٹ میں پایا جاتا ہے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ یہ آئندہ آنے والے دنوں میں بھی پاکستان پر اپنا پورا دباؤ ڈالیں گے کیونکہ افغانستان کی صورتحال اس وقت بڑی تیزی کے ساتھ بگڑتی جا رہی ہے۔ صوبہ ہلمند اس وقت طالبان کے ہاتھ میں ہے اور جلد ہی کابل بھی ان کے ہاتھ آ جائے گا۔ میں نے پہلے بھی دو ٹوک لفظوں میں کہا تھا کہ افغانستان کا اپنا مسئلہ ہے اور جیسے بھی افغانستان کے اندرونی معاملات ہوں گے یا آئندہ انتخابات کے بعد جو لوگ منتخب ہوں گے، اسے پاکستان تسلیم کرے گا اور پاکستان کی اس حوالے سے کوئی پسند ناپسند نہیں ہوگی۔ ہمیں بتایئے کہ اگر پیچھے مڑ کر تاریخ کو دیکھیں تو افغانستان جو ہمارا ایک نزدیکی اور ہمسایہ ہے لیکن 1947ء میں اس نے قیام پاکستان کو تسلیم نہیں کیا تھا لیکن پھر بھی پاکستان نے ایک لینڈ لارڈ ملک کو راستہ تجارت کے لیے دیا لیکن بدقسمتی سے افغانستان کا رویہ ہمیشہ پاکستان مخالف ہی رہا اور وہ بھی بھارت کے ساتھ مل کر۔ اگر اس کی وجہ ہم سے کوئی پوچھے تو یہ افغانستان کی لیڈرشپ کی کرپشن کی وجہ سے ہے۔
عام افغانی پاکستان سے بہت پیار کرتا ہے لیکن جو مفادپرست لیڈرشپ جو ڈالروں میں کھیلتی ہے اور لوگوں کو دانستہ طور پر پسماندہ رکھا گیا ہے۔ اس صورتحال میں ہمیں بہت احتیاط کرنا ہوگی اور ایک ایسا کردار ادا کرنا ہے جس میں بھارت کو باہر نکالا جائے جو ہم کر بھی رہے ہیں۔ اس کا ثبوت گزشتہ دنوں وزیراعظم عمران خان کا وہ بیان ہے جس میں انہوں نے بغیر لگی لپٹی رکھے بڑا کھل کر کہہ دیا تھا کہ افغانستان میں قیام امن کے حوالے سے بھارت کی شمولیت ہمیں قابل قبول نہیں۔ ایک مضبوط افغانستان پاکستان کا بڑا زبردست حامی بن سکتا ہے لیکن اس کے لیے ہمیں افغانستان میں منصفانہ آزادانہ اور شفافیت پر مبنی انتخابات نظر آنے چاہئیں تبھی اس خطے میں امن آ سکے گا۔
اب بات آتی ہے ہمارے سی پیک روٹ کی۔ دو تین چار ہفتے قبل داسو کے مقام پر چینی انجینئرز کے ساتھ جو سانحہ پیش آیا تھا وہ انتہائی قابل مذمت ہے اور اس واقعے کی تحقیقات کا حکومت سے مطالبہ بڑے شدید ترین الفاظ میں کیا جانا چاہیے۔ اس حادثے کے رونما ہونے کے بعد ایک اور دوسرا بہیمانہ واقعہ جو قوم کی بیٹی نور مقدم کے ساتھ پیش آیا، اس کے پیچھے بھی اور داسو کے واقعے کے پیچھے بھی میں سمجھتا ہوں کہ بھارت کا ہی ہاتھ ہے۔ ہم پوری کوشش کر رہے ہیں کہ خطے میں امن ہو لیکن بدقسمتی سے بھارت کا کردار نہایت ہی گھٹیا رہا ہے جو بھی امن چاہتے ہیں تو کیا کے پی ایل لیگ کے اوپر بھی یہ اعتراض وارد کیا جا رہا ہے کہ وہ آزادکشمیر میں نہ کھیلی جائے۔ آپ دیکھیں کہ یہ بے غیرت لوگ کشمیر میں کیا کر رہے ہیں۔ جہاں انہوں نے آئین کے آرٹیکل 370 کو ختم کر دیا اور ہندوؤں کو سکنی جائیدادیں خریدنے کی اجازت دے دی ہے جبکہ پاکستان اقوام متحدہ کی ہدایات پر آج بھی عمل پیرا ہے اور کوئی پاکستانی شہری آزادکشمیر میں زمین نہیں خرید سکتا۔
میں دوبارہ کہوں گا کہ اس وقت ہم خوش قسمت ہیں کہ ہمارے پاس عمران خان کی شکل میں ایک وزیراعظم آیا جو دنیا کے سامنے کھڑا ہو گیا اور وہ دلیرانہ فیصلے کر رہا ہے۔
(کالم نگار معروف اینکر اور ممتازسیاسی تجزیہ نگار ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain