تازہ تر ین

ہڈی تکلیف میں ہے

انجینئر افتخار چودھری
ویسے ہم لوگ بھی کیا مکھن لگاؤ ہیں۔صبح و شام جب بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی بات ہوتی ہے تو کہتے ہیں ملک سے باہر رہنے والے پاکستانی مملکت خداداد پاکستان کی ریڑھ کی ہڈی ہیں۔ویسے یہ تو ہم سب جانتے ہیں ریڑھ کی ہڈی پورے جسم کا اہم حصہ ہوتی ہے یہ بنیادی ہے فریم ہے اسی کے اوپر پورا جسم باندھا گیا ہے۔دوستو یہ ہڈی آج کل بڑی مشکل میں ہے اس کے بارے میں سب چپ ہیں الیکشن ہو رہے ہیں حکومتیں بن رہی ہیں مگر ہڈی کے ساتھ جو منظر نامہ جڑ گیا ہے اس کی بات نہیں ہو رہی۔جی جناب یہ ریڑھ کی ہڈی بڑی مشکل میں ہے یہ سعودی عرب واپس نہیں جا سکتی یہ دبئی کویت واپس اپنی نوکریوں پر حاضر نہیں ہو سکتی۔اگر جانا بھی پڑے تو ان ممالک سے ہو کر جائے گی جن کو سعودی عرب اور دیگر ممالک میں جانے کی اجازت ہے یہ لوگ پہلے پہل بحرین جاتے تھے وہاں چودہ دن قرنطینہ میں رہ کر سڑک کے ذریعے سعودی عرب پہنچ جاتے تھے بعد میں وہ راستہ بند ہو گیا پھر افغانستان سے راستہ کھلا بعد میں وہ بھی بند ہو گیا پتہ نہیں اب سنا ہے البانیہ کے راستے یہ لوگ دبئی پہنچ رہے ہیں میرا بھانجہ نفیس میرا دوست انصر اقبال نور الحسن گجر میری عزیزہ سندس یہ سب تین چار مختلف ممالک سے ہو کر سعودی عرب اور دبئی پہنچے ہیں۔ نفیس تو ابھی راستے میں ہے۔
قارئین اس ریڑھ کی ہڈی پر تواتر سے ضربیں لگائی جا رہی ہیں ان گنت لوگ اپنی فیملی کے ساتھ اپنے گھروں میں بیٹھے ہوئے ہیں یہاں کوئی کاروبار نوکری نہیں کرتے کہ واپس اپنی نوکریوں پر جانا ہے۔آج ایک دوست کہہ کہنے لگے پہلے پہل مہینہ دو مہینہ چھٹی آیا کرتے تھے اپنا ایک بجٹ ہوتا تھا عزت سے گھوم پھر کر واپس چلے جاتے تھے اب کوئی پتہ نہیں جو پونجی لائے تھے وہ کھا چکے ہیں جانے کا راستہ نہیں نظر آتا دو تین لاکھ لگا کر واپس بھی چلے جائیں لیکن راستے میں کسی غیر ملک میں دو ہفتے رہنا کوئی آسان کام تھوڑا ہی ہے۔ان پاکستانیوں کی کوئی بات نہیں کر رہا پچھلے دنون سعودی عرب کے وزیر خارجہ پاکستان آئے خبر یہ نکلی کے باہمی دل چسپی کے امور پر بات ہوئی ہے جب پوچھا گیا کہ کون سی دلچسپی تھی جس پر بات چیت ہوئی کوئی ہمیں بھی بتائے کہ ان پاکستانیوں کے بارے میں جناب نے کیا رویہ اپنایا ہے کیا کسی نے ان پاکستانیوں کی بات کی ہے جن کی اچھی اچھی نوکریاں ہیں اور وہ نوکریاں اب ان کے ہاتھ سے نکل کر کسی اور ملک کے باشندوں کو مل جائیں گی کچھ کے کاروبار ہیں جن پر کوئی اور بندہ قبضہ کر لے گا۔لگتا یوں ہے کہ ہم سب کچھ کرتے ہیں صرف باتوں کی حد تک کوئی کسی کو جواب دینے کے لئے بھی تیار نہیں ہوتا خود اپنے وہ ساتھی جو ہمارے ساتھ اٹھتے بیٹھتے تھے اقتدار میں آ کر ان اہم مسائل پر جواب بھی نہیں دیتے۔ان لاکھ سوا لاکھ پاکستانیوں کا کوئی پُرسان حال نہیں۔ ایک چربی سی چڑھ گئی ہے اقتدار اتنی بُری چیز ہے کہ وہ دوست جو دکھ درد کے وقت ساتھی تھے دھرنے میں ساتھ ساتھ تھے جیسے ہی اقتدار ملا جواب تک نہیں دیتے اللہ انہیں سمجھے لگتا ہے یہاں ہر مسئلے کا حل دھرنہ ہے جلوس ہے شور شرابہ ہے۔
یہاں ٹیکنالوجسٹ کی بات کر لیتے ہیں ان بے چاروں نے سترہ سال پڑھا ہے اور ان کی صورت حال یہ ہے کہ انجنیئرنگ ٹیکنالوجسٹ اپنے سیلری سٹرکچر اور اپنی ٹیکنالوجی کونسل کے لئے منتیں کر رہے ہیں۔Listen shafqatکے نام پر ہیش ٹیگ چلایا کوئی سات ہزار ٹویٹس ہوئیں کہ جناب شفقت ہمارے اوپر شفقت فرمائیں لیکن مجال کہ انہیں کوئی جواب دیا گیا ہو احمد فراز کے صاحبزادے تو چپ رہے الٹا یہ ہوا کہ جناب شفقت محمود ہم سے ناراض ہو گئے ہیں۔دوستو سچ پوچھو یہ کرسی بڑی بیماری ہے اس پر جو بھی بیٹھا وہ دوستوں کو بھول گیا کم لوگ ہوتے ہیں جو کسی کو کال کر کے بتاتے ہیں حال احوال لیتے ہیں۔حضرت علیؓ کا قول ہے کہ طاقت اور اقتدار مین آ کر کسی انسان کا اصل ظاہر ہوتا ہے ہمیں کیا ہم اپنا کام کروا لیتے ہیں کسی کو ڈرا کے کسی کی منت کر کے ہمارا اپنا کام ہوتا ہی کیا ہے جو لوگ ہم سے امیدیں رکھتے ہیں جو کارکن ہم سے توقعات رکھتے ہیں۔ہم بھی کسی سے اپیل کر دیتے ہیں کہ مہربانی کریں کام کر دیں اللہ ان کا بھلا کرے جو سن لیتے ہیں۔یقین کریں سعودی عرب دبئی اور خلیج کے ملکوں سے آئے لوگ دامن پھیلا کر بد دعائیں دے رہے ہیں یہ بد دعائیں کب لگیں گے اللہ ہی جانے لیکن سچ پوچھیں دعا اور بد دعا پیچھا کرتی ہے۔یہ وہ لوگ تھے جو عمران خان کی حکومت آنے پر خوش تھے بہت سے تو فلائٹیں بک کرا کے آئے جو نہیں آ سکے انہوں نے پردیس سے چندے بھیجے پیڈ ممبر شپ کے ذریعے ہزاروں ریال پارٹی کو دئیے۔کوئی دو ماہ پہلے سعودی عرب میں الیکشن ہوئے کارکنان نے پیڈ ممبر شپ کی اور الیکشن کو کامیاب کیا آج انہی لوگوں کو واپسی کا راستہ نہیں مل رہا ایک اور دوست کا کہنا تھا کہ ان کے عزیز کو سائینو فارم لگی ہے کیا اس کو فائزر لگ سکتی ہے اگر لگ سکتی ہے تو کب کیسے کہاں سے؟قارئین کرام!پہلے ہم بنگلہ دیش کے محصور پاکستانیوں کی بات کرتے تھے اب پاکستان کے اندر پھنس جانے والوں کا رونا شروع ہو گیا ہے آج سعودی عرب سے ملک بابا کہہ رہے تھے کہ یہاں اسی فی صد پاکستانی بغیر اقاموں کے ہیں یہی رونا سردار بابا کہہ رہے تھے۔
۲۰۱۹ میں جب عمرے کے لئے گیا تو ان کا کہنا تھا اب یہاں اکثریت کا اقامہ ختم ہو گیا ہے ایک بڑی فیملی پر لاکھ لاکھ ریال کا بوجھ ہے۔ایسے میں یہ لوگ کہاں جائیں گے ان کے بچے اسکول نہیں جا سکتے انہیں علاج معالجہ میسر نہیں ہے ان کے پاس کوئی میڈیکل کارڈ نہیں ان میں سے کوئی مر جائے تو اس کے لئے عذاب کھڑا ہو جاتا ہے ۔ان کے اپنے کاروبار ہیں جو کرونا نے ختم کر کے رکھ دئیے ہیں۔ایسے میں وہ کیا کریں گے۔ہمیں جنرل بلال اکبر کی انگریزی سے کوئی گلہ نہیں ہمیں ان کی توجہ درکار ہے ہم ان کو کراچی میں آزما چکے ہین جنہیں فوج سے چڑ ہے وہ چڑتے رہیں وہ فوراً پاکستان آ کر وہاں کے پاکستانیوں اور یہاں پھنسے ہوئے پاکستانیوں کے لئے کوئی راستہ نکالیں۔
شاہ محمود قریشی یہاں کا چھوڑیں وہاں جائیں۔پاکستان کے بے شمار مسائل ہیں لیکن یہ صرف پاکستان نہیں دنیا کے ہر ملک کو کوئی نہ کوئی مسئلہ درپیش ہے۔ہمیں سعودی عرب کے نظام وہاں ہونے والی تبدیلیوں وہاں کے سیاسی اور سماجی معاملات سے کوئی لینا دینا نہیں۔ہم اب اس دلفریب نعرے سے بھی باہر آنا چاہتے ہیں جس نے پاکستانیوں کے دماغ میں خلل ڈال رکھا ہے کہ ہمارا اور ان کا رشتہ کیا ہے وہ اپنی جگہ ہم اپنے سکلڈ نان سکلڈ ورکرز کا خیال کریں وہاں رہنے والوں کی بہبود کا سوچیں۔ایک لحاظ سے سوچا جائے تو یہ ذمہ داری سعودی عرب کی حکومت کی ہے یہ سب لوگ ایک معاہدے کے تحت وہاں ملازمت کر رہے ہیں ان کے پاس ویلڈ اقامے ہیں اور یہ رہائشی پرمٹ مملکت خداداد سعودی عرب کی جانب سے جاری کئے گئے ہیں۔شیخ طاہر اشرفی جو ڈنگی سیدھی عربی بولتے ہیں اب وقت آ گیا ہے کہ وہ اپنے نعروں کی پاسداری کریں جو رتبہ اور جو ذمہ داری انہیں ملی ہے اس کو پورا کریں ورنہ یہ ذمہ داری مجھے دیں میں جس طرح ماضی میں پاکستانیوں کی خدمت کرتا رہا ہوں اب بھی کر لوں گا۔سعودی عرب سے آنے والوں کے لئے اگر شو پیس ہی کا کام کرنا ہے تو پاکستان کے پاس اچھی عربی بولنے والوں کی کمی نہیں ہے۔ہماری وزارت خارجہ بھی شاید ستو پی کر سو رہی ہے ان کے لئے افغانستان سے بڑھ کر کوئی مسئلہ نہیں ہے۔میں اپنے سینئر ساتھی شاہ محمود قریشی سے دست بستہ اپیل کرتا ہوں کہ ان پاکستانیوں کو سینے سے لگائیے ان کی بات سنیں ان کا مسئلہ حل کریں۔ریڑھ کی ہڈی بڑی تکلیف میں ہے۔اسے بچا لیجئے ولی عہد محمد بن سلمان سفیر پاکستان کا کردار ادا کریں اور اپنی ذمہ داری کو پاکستان سے لے جانے کی اجازت دیں۔ پاک سعودی دوستی ۲۰۳۰ کے ویژن کی نظر سے دیکھنے کے لئے ضروری ہے کہ پاکستانی معززین جو پاکستان میں محصور ہو کر رہ گئے ہیں انہیں با عزت وہاں لے جایا جائے کووڈ کیا ان پاکستانیوں کے لئے ہی ہے۔ یہ ریڑھ کی ہڈی تکلیف میں ہے اس کا کچھ کر لیں
(تحریک انصاف شمالی پنجاب کے سیکرٹری اطلاعات ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain