تازہ تر ین

امریکہ کی پسپائی میں طالبان کے لیے سبق

عاقل ندیم
تقریبا بیتالیس سالوں کے قلیل دورانیے میں افغانستان میں دو عالمی سپر طاقتوں کو انتہائی مہنگی جنگوں کے بعد شکست کی دھول چاٹنی پڑی ہے۔ سوویت یونین نے افغانستان پر اپنا قبضہ قائم رکھنے کے لیے ایک سو پچاس ارب ڈالر سے زیادہ خرچ کیے اور تقریبا بیس ہزار سے زیادہ فوجیوں کی قربانی دی۔ افغان جنگ نے سوویت یونین کو معاشی طور پر اتنا کمزور کیا کہ ایک انتہائی طاقتور ریاست اس جنگ کے فورا ًبعد دنیا کے نقشے سے غائب ہو گئی۔
اس جنگ نے افغانستان کو بھی ہمیشہ کے لیے بدل دیا۔ ایک اندازے کے مطابق سوویت قبضے کے دوران پندرہ سے بیس لاکھ کے درمیان افغان اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اس طرح پورے افغانستان کی آبادی میں چھ سے 11 فیصد عوام لقمہ اجل بن گئے۔ اس ہولناک جنگ سے جان بچاتے ہوئے تقریباً پچاس لاکھ سے زیادہ افغان عوام بیرون ملک ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے۔
سوویت قبضے کی آفت کے تقریبا دس سال بعد افغانستان ایک بار پھر ایک بڑی اُفتاد کا نشانہ بنا جب امریکہ نے افغانستان پر حملے کا فیصلہ کیا۔ سوویت اور امریکی قبضے کے درمیان کے دس سالوں میں مختلف افغان گروہ کابل پر تسلط کی خواہش میں آپس میں برسرپیکار رہے جس کی وجہ سے مزید افغان ہلاک ہوئے اور ایک بڑی تعداد دوبارہ ہجرت کرنے پر مجبور ہوئی۔
بیس سالہ امریکی قبضے کے دوران تقریباً 48 ہزار مزید افغانی شہری ہلاک ہوئے اور جاری خانہ جنگی میں تقریبا ً66 ہزار افغان فوجی مارے گئے۔ امریکی قبضے کے دوران تقریباً 27 لاکھ افغان دوبارہ بیرون ملک نقل مکانی پر مجبور ہوئے جبکہ 40 لاکھ کے قریب افغانستان میں ہی دربدر ہوئے۔ اس مہنگی ترین جنگ میں تقریباً 2500 امریکی فوجی ہلاک ہوئے اور 20 ہزار سے زیادہ زخمی ہوئے۔ اس کے علاوہ 4 ہزار کے قریب نجی امریکی کنٹریکٹر بھی مارے گئے۔ نیٹو افواج کے ساتھ شامل فوجی اور دیگر اشخاص کی ہلاکتیں 1200 کے قریب رہیں۔
امریکہ اپنی اس مہنگی ترین مہم جوئی میں امریکی وزارت خارجہ کے حالیہ اعداد و شمار کے مطابق اب تک دو کھرب اور 26 ارب ڈالر جھونک چکا ہے۔ یہ سرمایہ بے تحاشہ قرضے لیکر حاصل کیا گیا۔ اب تک صرف سود کی مد میں امریکہ نے اس مہم جوئی کے لیے 530 ارب ڈالر ادا کیے ہیں۔ اسی طرح اس جنگ میں شامل سابق فوجیوں اور اور دیگر اہلکاروں کے علاج اور دیگر سہولیات کے لیے 296 ارب ڈالرز خرچ کیے جا چکے ہیں اور ان اہلکاروں پر یہ اخراجات آنے والے کئی سالوں تک ادا کئے جائیں گے۔
اب جبکہ امریکہ نے افغانستان میں اپنی ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے واپسی کا فیصلہ کیا ہے تو طالبان کی نظریں اب کابل کی طرف ہیں اور وہ یہ امید لگائے بیٹھے ہیں کہ جلد کابل ان کے قدموں کے نیچے ہو گا۔
گو طالبان کسی حد تک یہ امید کرنے میں حق بجانب ہیں کیونکہ امریکی انخلا سے بظاہر مرکزی حکومت کمزور دکھائی دیتی ہے۔ طالبان کی حالیہ مضافاتی علاقوں کی فتوحات سے ان کے کچھ حمایتی عناصر طالبان کا افغانستان پر جلد ہی مکمل قبضہ یقینی سمجھ رہے ہیں لیکن طالبان کی مکمل فتح ابھی کافی دور ہے اور اس میں بہت سارے عناصر آڑے آ سکتے ہیں۔ اگر طالبان نے اپنے طرز عمل اور طرز حکومت کے بارے میں افغانیوں کی ایک بڑی تعداد میں موجود سنجیدہ خدشات کو رفع کرنے کی کوشش نہ کی تو بہت ممکن ہے کہ انہیں کابل اور دیگر بڑے شہروں پر قبضہ کرنے میں شدید مشکلات اور طالبان مخالف قوتوں کا سخت مقابلہ کرنا پڑے۔
مندرجہ ذیل وجوہات کی بنیاد پر طالبان کو افغانستان پر مکمل قبضہ کرنے اور ملک پر امن کے ساتھ حکومت کرنا تقریباً ناممکن ہوگا اگر وہ اپنی حکمت عملی اور سخت گیر نظریات میں تبدیلی نہ لائے۔ اس سلسلے میں انہوں نے کچھ نرمی کا اشارہ تو دیا ہے مگر یہ طالبان مخالف قوتوں کے خدشات ختم کرنے کے لیے کافی نہیں۔ سوویت یونین اور امریکہ جیسی سپر طاقتوں کی افغانستان میں پسپائی میں طالبان کے لیے کافی سبق پوشیدہ ہیں اور انھیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ صرف طاقت کے بل بوتے پر افغان عوام کو زیرنگیں نہیں رکھا جا سکتا۔
طالبان کی پچھلی حکومت کے خاتمے کو 20 سال ہوا چاہتے ہیں اور اس عرصے کے دوران ایک نئے افغانستان نے جنم لیا ہے۔ افغانستان کے شہری علاقوں میں ایک واضح تبدیلی اور معاشی ترقی کے صاف نشانات نظر آتے ہیں۔ ماضی کے مقابلے میں کابل میں نئی بلند و بالا عمارتیں نظر آتی ہیں۔ نئی اور بہتر سڑکوں کا ایک جال بچھا دیا گیا ہے اور ماضی کے برعکس کابل ایک صاف ستھرا شہر دکھائی دیتا ہے۔ کابل میں کئی جگہ آپ کو بڑے بڑے شاپنگ سنٹر بھی نظر آتے ہیں۔ اسی طرح دوسری شہری سہولتوں میں بھی قابل توجہ اضافہ ہوا ہے۔ صحت کے شعبے میں کثیر سرمایہ کاری کی گئی ہے جس کی وجہ سے عام شہریوں کو صحت کی بہتر سہولتیں میسر ہوئی ہیں۔ اسی طرح تعلیم کے شعبے میں قابل رشک بہتری آئی ہے اور ہزاروں افغان طالب علم اپنے ہی ملک میں اعلی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق تقریبا دو کروڑ بیس لاکھ افغانیوں کو انٹرنیٹ کی سہولت میسر ہے۔ نائن الیون کے بعد بعد ایک نئی نسل جوان ہو چکی ہے جو ان سب سہولتوں کی عادی ہو چکی ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق 60 سے 65 فیصد کے درمیان افغان آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے۔
افغان آبادی کے اس بڑے حصے کے لیے طالبان کا سخت قسم کی پابندیوں پر مبنی اقتدار بظاہر ناقابل قبول ہوگا۔ ان نوجوانوں نے طالبان کے اقتدار کے دوران ایک جابرانہ نظام حکومت کے بارے میں سنا ہوا ہے اور یہ ممکن ہے کہ وہ اپنی موجودہ سماجی سہولتوں پر مبنی طرز زندگی کے دفاع کے لیے ایک خود رو تحریک کی صورت میں طالبان کی واپسی کا مقابلہ کریں۔ یہ مزاحمت افغانستان کو مزید بدامنی کی طرف لے جا سکتی ہے اور طالبان کے مکمل قبضہ میں ایک بڑی رکاوٹ بھی بن سکتی ہے۔
اس سارے سیاسی کھیل میں نوجوان افغان فوج کی طاقت کو بھی نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ کچھ دہی علاقوں میں افغان فوجیوں کے ہتھیار ڈالنے کو افغان فوج کی کمزوری اور اسے جلد ہی اس کے خاتمے سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔ شواہد بتاتے ہیں کہ افغان فوج کی یہ پسپائی عارضی ہے کیونکہ انہوں نے کافی علاقے حال ہی میں طالبان سے واپس بھی لیے ہیں۔ افغان فوج کی اس عارضی پسپائی کو فوجی ماہرین امریکہ کے اچانک انخلا کے فیصلے سے فوجی سپلائی لائنوں میں تعطل یا خلل پیدا ہونے سے جوڑ رہے ہیں۔ جونہی یہ سپلائی لائن بحال ہو گئیں تو یقینا طالبان کو تربیت یافتہ اور جدید اسلحہ سے لیس افغان فوج کی طرف سے مزید سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔
طالبان کا افغانستان پر مکمل قبضہ پاکستان میں کچھ حلقوں کے لیے تو اطمینان کا باعث ہوسکتا ہے مگر اس فتح سے پاکستان میں متشدد مذہبی عناصر کی حوصلہ افزائی ہو گی اور وہ ریاست پاکستان کے لیے سنجیدہ سلامتی کے مسائل کھڑے کر سکتے ہیں۔ اس صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بھارت ان متشدد گروہوں میں سرایت کرکے ہمارے لیے سلامتی کے گھمبیر مسائل پیدا کر سکتا ہے۔ اس لئے ہماری کوشش کابل میں طالبان کی مکمل فتح کی امید کرنے کی بجائے ایک ایسی وسیع البنیاد حکومت کی تشکیل کی کوشش ہونی چاہیے جس میں ساری سیاسی اور نسلی قوتیں شامل ہوں۔
(کالم نگار پاکستان کے سابق سفیر ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain