تازہ تر ین

پاک افغان کمیشن کا قیام ازحد ضروری

کنور محمد دلشاد
افغانستان میں حْریت پسندوں کے کابل پر قبضہ کے بعد افغانستان میں خانہ جنگی کا خطرہ ٹل گیا ہے۔افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے گذشتہ روز پہلی پریس کانفرنس کی تو کئی خدشات ختم ہو گئے۔یہ پریس کانفرنس ایک گھنٹہ تک جاری رہی اور وہاں پر موجود صحافیوں نے سوالات بھی کیے۔ ذبیح اللہ مجاہد نے اعلان کیا کہ افغانستان میں جاری جنگ ختم ہوچکی ہے۔مگر افغانستان کے نائب صدر امراللہ صالح کا ایک ویڈیو پیغام بھی منظر عام پر آیا جس میں اْس کا کہنا تھا کہ یہ جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی۔لیکن اس وقت تازہ ترین صورتِ حال یہ ہے کہ طالبان ملک کے تمام اہم سرحدی راستوں اور مقامات کا کنٹرول اپنے قبضہ میں کرچکے ہیں،محض چند علاقے ایسے ہیں،جہاں طالبان کی جانب سے قبضے کا دعویٰ سامنے نہیں آیا ہے۔کابل کے صدارتی محل میں قبضہ کرکے حریت پسندوں نے پورے افغانستان اور سینٹرل ایشیا کے ممالک پر اپنی دھاک جمادی ہے اور پینٹاگون کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا ہے کہ امریکی صدر،پینٹاگان،سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ اور سی آئی اے ایک پالیسی پر گامزن نہیں تھے اور متضاد خیالات کے حامی حلقے ایک دوسرے کو نیچا دکھارہے تھے۔امریکا اپنی پسپائی اور افغانستان سے نکلنے کا یہ جوازدے رہا ہے کہ وہ جس مقصدکے لیے افغانستان میں آیا تھا،وہ مقصد حاصل کرلیا ہے،یعنی القاعدہ کو مکمل طورپر ختم کر دیا گیا ہے۔ اس کے برعکس زمینی حقائق یہ ہیں کہ بیس سال میں حامدکرزئی،اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ سبھی قومی حکومت قائم کرنے میں ناکام رہے ہیں اور امریکا تین کھرب ڈالر خرچ کرنے کے بعد بھی طاقت ور فوج بنانے میں ناکام رہا ہے۔امریکا نے معدنی وسائل پر قابض ہونے کے لیے عراق، افغانستان، شام اور لیبیا جیسے کئی ممالک تباہ کردئیے اور اس کے ساتھ ساتھ افغانستان کے طالبان نے امریکی اتحاد کے مقابلے میں بہتر حکمت عملی اختیار کی اور امریکی فوج کے انخلا تک اپنی حکمتِ عملی تک برقرار رکھی اور افغانستان کے صدر اشرف غنی اربوں ڈالر سمیت ملک سے فرار ہوگئے۔اگرچہ پریس کانفرنس میں افغان طالبان کے ترجمان نے عام معافی کا اعلان کیا،مگر کابل میں مستحکم حکومت قائم کرنے کے بعد اشرف غنی اوراْس کے حامی گروپ کو سزائے موت دیئے جانے کا امکان ہے اور ان کے خلاف جنگی جرائم کے مقدمات بھی درج کیے جائیں گے۔ طالبان نے دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے افغانستان کی فوج سے مفاہمت کرلی جس کے نتیجہ میں پْرامن طریقے سے افغانستان کی سرکاری فوج نے ہتھیار پھینک دیے جس کی وجہ سے کابل اور ملک کے دیگر حصوں میں خانہ جنگی نہیں ہوئی۔
اب چونکہ زمینی حقائق یہ ہیں کہ ماضی کے مقابلے میں طالبان پر پاکستان کا اثر رسوخ کم ہوگیا ہے اور حکومتی اداروں میں ایسے ماہرین شامل ہیں جن کے مفادات امریکا سے وابستہ ہیں،حساس نوعیت کی اہم پوسٹیں ایسے غیر منتخب افراد کو دی گئی ہیں،جو بالواسطہ یا بلاواسطہ امریکی دْہری شہریت کے حامل ہیں،جن کی وجہ سے جب طالبان براہِ راست امریکیوں سے معاہدہ کررہے تھے تو طالبان نے پاکستان سے بظاہر سست روی اور لاتعلقی کا مظاہرہ کیا، لہٰذا وزیرِ اعظم عمران خان اور حساس اداروں کے سربراہان کو زمینی حقائق کے مطابق وزارتِ خارجہ میں اہم تبدیلیاں لانا ہوں گی اور ایسے معاونین فارغ کرنا ہوں گے جن کے بارے میں افغانستان کی نئی حکومت کو تحفظات ہوں کیونکہ ابھی دیگر ممالک کی نسبت پاکستان کا طالبان پر اثررسوخ زیادہ ہے۔پاکستان،چین،روس اور ایران مل کر افغانستان کی نئی حکومت کے سامنے کوئی وسیع تر مفاد میں قابل عمل فارمولہ رکھیں تو یقینا طالبان کے لیے انکارکرنا ممکن نہیں ہوگا۔اس مقصد کے لیے میری تجویز ہے کہ اعلیٰ سطح کا پاکستان افغان کمیشن مقررکرتے ہوئے ہمایوں اختر کی خدمات حاصل کی جاسکتی ہیں،جو جنرل عبدالرحمن اختر کی ماضی کی پالیسیوں کی بدولت طالبان سے مذاکرات کرنے کی بہتر پوزیشن میں ہیں اور سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اعجاز الحق کے اثر رسوخ سے بھی فائدہ اْٹھایا جاسکتا ہے،اگر پاکستان افغان کمیشن بنانے میں تکنیکی رکاوٹ پائی جائے تو ہمایوں اختر خان کو وزیرِ اعظم کا مشیر برائے افغانستان امور مقررکیا جاسکتا ہے،جو وزارتِ خارجہ کے ساتھ ساتھ وزیرِ اعظم پاکستان کے بھی مشیر معاون ثابت ہوسکتے ہیں۔ہمایوں اخترتجربہ کار سیاست دان ہیں وہ بہتر طورپر پالیسی چلاسکتے ہیں۔
وزراتِ خارجہ اور حساس اداروں کو میڈیا ہاؤسز کے اْن اینکر پرسنز کے پروگراموں پر بھی دھیان رکھنا ہوگا جو عالمی طاقتوں کے مہرے بن کر ملک میں طالبان کے خلاف کنفیوژن پھیلائے ہوئے ہیں، کیری لوگر بل کے تحت میڈیا ہاؤسز کو اربوں روپے کی گرانٹ دی گئی تھیں، پاکستان میں اب میڈیا کے ذریعے افراتفری پھیلانے کامذموم کھیل کھیلا جاسکتا ہے۔ٍٍپاکستان کے میڈیا چینلزپر فرسودہ قسم کے تجزئیے پیش کیے جارہے ہیں جس سے پاکستان کے عوام میں اچھے تاثرات نہیں جارہے ہیں،جس سے ملک کی وحدت کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے،امن و امان اور خطہ میں پْراَمن ماحول آنے کے بعد اٹھارویں ترمیم پر نظر ثانی کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔
افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے حوالہ سے بین الاقوامی سطح پر سرگرمیاں تیز تر ہوتی جارہی ہیں اور اقوامِ متحدہ نے افغانستان کی صورتِ حال پر گہری نظریں لگائی ہوئی ہیں، چین، روس، سعودی عرب،ترکی کے سفارت کار افغانستان کے حوالہ سے اپنی اپنی سفارشات اپنے ممالک میں بھیج رہے ہیں۔افغانستان میں اندرونی کیفیت بھی غیر یقینی ہے۔لہٰذا اب دیکھنا یہ ہے کہ طالبان پاکستان کے ساتھ تعلقات میں کتنی گرم جوشی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔پاکستان کو ان حالات میں بھی بھارت کی سازشی تھیوریوں پر کڑی نگاہ رکھنا ہوگی۔
وزیرِ اعظم عمران خان اپنی اندرونی سیاسی سرگرمیوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے فوری طورپر ترکی،چین کا دورہ کریں اور عالمی برادری کو ساتھ لے کر چلنے کی کوشش کریں۔عالمی برادری افغانستان کے زمین حقائق مدِ نظر رکھتے ہوئے طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے میں دیر نہیں کرنی چاہیے،عبوری حکومت کو تسلیم کرکے افغانستان میں نئے سرے سے انتخابات کرانے کی راہ ہموار کرے تاکہ افغان امن کو یقینی بنایا جاسکے۔افغانستان خطے کا ایک اہم ملک ہے اس کا امن خاص طورپر پاکستان کے لیے بڑی اہمیت رکھتا ہے۔وزیرِ اعظم عمران خان کو پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس طلب کرکے اپوزیشن لیڈر سمیت دیگر اپوزیشن جماعتوں کو اعتماد میں لے کر قومی پالیسی مرتب کرنا چاہیے اور جن جن رہنماؤں پر احتساب بیورو میں مقدمے چل رہے ہیں ان کو چلنے دیں اور اپوزیشن کو افغانستان کی پالیسی بنانے میں ان کو اعتماد میں لیا جائے،کیونکہ طالبان کی حکومت پاکستان کے مفاد میں ہے۔ صدرجوبائیڈن اسی وقت دوراہے پر کھڑے ہیں، امریکی عوام اْن کے خلاف اْٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور میڈیا اْن پر شدید تنقید کررہا ہے۔ان حالات میں وزیرِ اعظم عمران خان اْمت مسلمہ کے رہنما بن کر سامنے آئیں اور متوازن پالیسی اختیار کریں۔ آئندہ انتخابات کے لیے اب اکتوبر 2023کا انتظار کرنا ہی اپوزیشن کے لیے سود مند ثابت ہوگا۔
(الیکشن کمیشن آف پاکستان کے سابق سیکرٹری ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain