تازہ تر ین

خونِ تمنا اورخونِ خاک نشیناں

کرنل (ر) عادل اختر
افغانستان ہمارا پڑوسی ملک ہے جس سے ہم لاتعلق نہیں رہ سکتے۔ جس طرح افغانستان کے موسم میں بڑی شدت ہے۔ اسی طرح ان کے مزاج اور موڈ میں بھی بڑی شدت ہے۔ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ کس وقت وہ غصے میں ہوں گے اور کس وقت مہربان۔
طالبان مذہبی طور پر شدت پسند ہیں۔ ان کی مذہب کی تشریح بھی بہت پرانی ہے۔ پاکستان میں بھی مذہبی لوگوں کی کمی نہیں ہے۔ لیکن آج پاکستانی علماء ٹی وی چینل پر بیٹھے نوجوان خواتین کے ساتھ مختلف مسائل پر بحث مباحثہ کرتے نظر آتے ہیں۔ پاکتان کے مذہبی طبقات کی انتہا پسندی افغان علماء سے کافی کم ہے۔
دنیا کے کسی ملک میں سب لوگ متفق الخیال نہیں ہوتے۔ افغانستان میں بھی نہیں ہیں۔ اچھی بات یہ ہے کہ سب طبقات ایک دوسرے کو برداشت کریں، افغانستان میں ایسا نہیں ہے۔ آج افغانستان میں سینکڑوں چھوٹے بڑے گروپ موجود ہیں جو ایک دوسرے سے لڑتے جھگڑتے رہتے ہیں۔ لیکن سب سے بڑا گروپ طالبان کا ہے۔ گزشتہ چالیس سال سے لاکھوں افغانی اپنے وطن کی آزادی کے لئے لڑ رہے ہیں لیکن ہزاروں افغان ایسے بھی ہیں جو روس یا امریکہ کے لئے جاسوسی کرتے رہے ہیں اور اس کا بھاری معاوضہ وصول کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے عیش اور آرام کی زندگی گزاری ہے۔ وہ نہیں چاہتے کہ ان کے عیش و عشرت کا زمانہ ختم ہو۔
امریکہ نے ہزاروں ارب ڈالر خرچ کرکے افغان آرمی کھڑی کی۔ بہترین ٹریننگ اور اسلحہ دیا۔ لیکن یہ تین لاکھ افغان فوج اپنے ہم وطنوں یعنی پچاس ساٹھ ہزار طالبان سے شکست کھا گئی۔ امریکہ چاہتا ہے کہ طالبان کا سر کچلنے کا فریضہ پاکستان انجام دے۔ لیکن یہ پاکستان کے لئے بہت گھاٹے کا سودا ہوگا۔ اس کا مطلب ہوگا، طالبان کے ساتھ کبھی ختم نہ ہونے والی دشمنی پالی جائے۔ امریکہ کی طالبان سے بہت توقعات ہیں۔ انسانی حقوق بحال کئے جائیں، عورتوں کو معاشرے میں آزادی سے رہنے کی اجازت دی جائے، جمہوریت بحال کی جائے۔ آج امریکہ کو افغانستان میں عورتوں اور اقلیتوں کے انسانی حقوق کی بڑی فکر ہے۔ بھارت اور کشمیر کے مسلمان بھی انسانی حقوق سے محروم ہیں، ان کی امریکہ کو کوئی فکر نہیں ہے۔
اگر طالبان مصلحت سے کام لیں۔ امریکی مطالبات مان لیں تو دیہات میں رہنے والے لاکھوں سپورٹر ان سے ناراض ہو جائیں گے۔ طالبان یہ افورڈ نہیں کر سکتے۔ پاکستان کا بھی یہی مخمصہ ہے۔ طالبان کو تسلیم کرے یا نہ کرے…… گوئم مشکل۔ نہ گوئم مشکل والی صورتحال درپیش ہے۔
پاکستان میں بھی ہر طبقہ خیال کے لوگ موجود ہیں۔ ایک طرف کروڑوں غربا ہیں، جو ان پڑھ ہیں۔ زیادہ سیاسی فہم نہیں رکھتے۔ مذہبی خیالات کے مالک ہیں۔ سادہ لوح ہیں اور مخلص ہیں۔ یہ لوگ طالبان کے حامی ہیں۔
دوسری طرف امرا کا ایک چھوٹا سا طبقہ ہے۔ یہ پڑھے لکھے لوگ ہیں۔ زیادہ سمجھ دار ہیں۔ لیکن مفادات کے غلام ہیں۔ انہیں نظریات سے دلچسپی نہیں ہے۔ یہ نہ کمیونزم کے سخت گیر نظام کے حامی ہیں نہ مغربی ممالک کی جمہوریت کے حامی ہیں۔ جہاں انہیں اپنی ناجائز دولت کا حساب دینا پڑے۔ ان کی زندگی میں ہر دن عید ہوتی ہے۔ یہ نہیں چاہتے کہ ان کی عیش و عشرت کی زندگی میں خلل پڑے۔ یہ جتنا اسلام سے ڈرتے ہیں اتنا ہی کمیونزم سے ڈرتے ہیں۔ اس لئے طالبان کے مخالف ہیں۔
گزشتہ بیس برس سے افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہوتی رہی ہے۔ استعمال کرنے والے‘ امریکہ اور بھارت ہیں۔ پاکستان میں دہشت گردی کی زیادہ تر کارروائیاں افغان سرزمین سے ہوئیں۔ کہنے کو افغانستان ہمارا برادر ملک ہے مگر برادرانِ یوسف سے زیادہ ظالم۔ حالات کو خراب بناتے ہیں، امریکی ڈالروں نے بہت بڑا کردار ادا کیا ہے، ہزاروں افغانوں نے ڈالر لے کر اپنے ضمیر بیچ دیئے…… پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں کیں۔ خدا کا شکر ہے کہ پاکستان میں ایک پروفیشنل آرمی موجود ہے جس نے دہشت گردوں کا سر کچلنے کا فریضہ بڑی کامیابی سے انجام دیا۔ عیش و عشرت کی زندگی گزارنے والوں کو پاک آرمی بہت بری لگتی ہے۔
طالبان کی تعداد ساٹھ ہزار کے قریب رہتی ہے۔ افغانستان کی تین لاکھ فوج طالبان کو کچلنے میں ناکام رہی۔ امریکہ چاہتا ہے کہ یہ فریضہ پاکستان آرمی ادا کرے۔ امریکی اپنی بات ان الفاظ میں ادا کرتے ہیں۔
(1)۔ پاکستان افغانستان میں امن قائم کرنے کی کوششوں میں سنجیدہ نہیں ہے۔
(2)۔ پاکستان کو امن کی بحالی کے لئے ٹھوس اقدامات کرنا چاہئیں، طالبان سے لڑنے میں پاکستان آرمی کو ناقابل تلافی نقصان ہوگا۔ طالبان بھی تباہ ہونگے۔خدانخواستہ پاک آرمی بھی۔بھارت اور امریکہ کے لئے اس سے زیادہ خوشی کا کوئی اور مقام نہیں ہو سکتا۔
امن کی جتنی ضرورت افغانستان کو ہے۔ اس سے زیادہ پاکستان کو ہے۔ بھارت کی خواہش ہے کہ افغانستان میں امن قائم نہ ہو تاکہ پاکستان بھی مشکل صورتحال سے دوچار رہے۔ امریکہ بہت غصے میں ہے اور اپنی ناکامی کا ملبہ پاکستان پر ڈال رہا ہے۔ امریکہ کی ناکامی کی بڑی بڑی وجوہات مندرجہ ذیل ہیں۔
-1 افغانستان میں زبردست کرپشن اور بدانتظامی۔ اس کی بڑی وجہ امریکی ڈالروں کی بارش ہے۔
-2 افغانستان کے حکمرانوں‘ خاص طور پر اشرف غنی کی بزدلی‘ خودغرضی اور نالائقی ہے۔
-3 افغان آرمی کی نالائقی۔ جس کی وجہ خراب ٹریننگ۔ جذبے کی کمی اور ڈسپلن کا نہ ہونا ہے۔
امریکہ جاتے جاتے اسّی ارب ڈالر سے زیادہ کا قیمتی اور جدید اسلحہ افغانستان میں چھوڑ کر جا رہا ہے۔ جب کبھی یہ اسلحہ استعمال ہوا تو اس میں افغان ہی مارے جائیں گے۔ ہو سکتا ہے۔ سازشی عناصر افغانستان اور پاکستان کے درمیان جنگ کی صورتحال پیدا کر دیں۔ اس صورت میں نقصان کس کا ہوگا۔
طالبان بظاہر اپنی منزل پر پہنچ چکے ہیں …… یعنی اقتدارکا حصول اصل لیکن ان کی مشکلات اب شروع ہونگی۔
بہت سی توقعات پوری نہیں ہونگی۔ جس سے مایوسی پیدا ہوگی، طالبان لیڈروں میں پھوٹ پڑ جائیگی۔
طالبان‘ امریکہ اور بھارت کی سازشوں کا مقابلہ نہیں کر سکیں گے۔
گزشتہ دنوں کابل ایئرپورٹ پر دھماکے ہوئے۔ دو سو افراد مارے گئے جن میں تیرہ امریکی بھی شامل ہیں۔ امریکہ کے صدر اپنے آدمیوں کے مارے جانے پر رو پڑے۔ کوریا‘ ویت نام‘ عراق اور افغانستان میں پچیس تیس لاکھ عوام۔ بمباری سے مارے گئے۔ بچے یتیم ہوئے۔ عورتیں بیوہ ہوئیں۔ ان مظلوموں کی موت پر کوئی نہ رویا‘ اشرف غنی‘ پرویز مشرف اورنہ ہی جو بائیڈن اسے کولیٹرل نقصان کہا جاتا ہے۔ فیضؔ کی زبان میں یہ خون خاک نشیناں تھا رزقِ خاک ہوا۔
خون تمنا ہو یا خون خاک نشیناں اس کا کوئی معاوضہ یا خون بہا نہیں ہوتا۔
چھوٹے ملکوں کی غلطیوں کا بہت تذکرہ ہوتا ہے۔ بڑے ملک کی ہر خطا معاف ہوتی ہے۔ دنیا کے کئی بڑے ملکوں کی دولت کا راز ان کی اسلحہ فروشی ہے، یہ اسلحہ انسانوں کو مارنے کے کام آتا ہے۔ سعودی عرب اور بھارت کا شمار اسلحہ کے بڑے خریداروں میں ہوتا ہے۔ ہر سال اربوں ارب ڈالر کا اسلحہ خریدتے ہیں۔ پانچ دس سال کے بعد یہ اسلحہ پرانا اور متروک ہو جاتا ہے پھر نیا اسلحہ خریدنے کی ضرورت پڑ جاتی ہے۔ غریب ممالک کو جو ڈالر اپنے ملکوں کے عوام کا معیار زندگی بہتر بنانے پر خرچ کرنا چاہئیں۔ وہ بڑے ملکوں کے خزانے میں پہنچ جاتے ہیں۔ غریب ملکوں کے عوام۔ نہ جمہوریت نہ انسانی حقوق۔ نہ بہتر معیار زندگی سے لطف اندوز ہو پاتے ہیں۔
لٹیرے حکمران اپنے ملک کو لوٹ کر اپنی دولت بھی بڑے ملکوں کے بنکوں میں جمع کراتے ہیں۔
(سیاسی ودفاعی مبصر اورتجزیہ نگار ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain