تازہ تر ین

بلاول بھٹو زرداری کا دورہ جنوبی پنجاب

سید سجاد حسین بخاری

آج کل پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری دس روزہ سرائیکی وسیب کے دورے پر ہیں۔ اس دورے میں انہوں نے ملتان کے علاوہ مظفرگڑھ‘ ڈیرہ غازیخان‘ میلسی‘ دنیاپور اور آج وہ تین روزہ دورے پر رحیم یارخان چلے گئے ہیں اور پھر گیارہ ستمبر کو بلاول بھٹو زرداری لیہ کی تحصیل کروڑ لعل عیسن آئیں گے جہاں پر پاکستان پیپلزپارٹی کے پرانے گھر سیہڑ ہاؤس جائیں گے جہاں پر سردار بہادرخان سیہڑ ان کے اعزاز میں عشائیہ دیں گے اور شمولیت کا اعلان بھی کرینگے۔ سیہڑخاندان کے سربراہ سردار بہرام خان سیہڑ مرحوم پاکستان پیپلزپارٹی کے ایم این اے بھی رہے ہیں اور مرحوم نے 1981ء میں درجنوں رہنماؤں کے ساتھ قیدوبند کی مصیبتیں بھی کاٹی تھیں مجھے بھی بطور صدر سٹوڈنٹس یونین اسلامیہ ڈگری کالج ملتان ان تمام رہنماؤں کے ساتھ ملتان سنٹرل جیل میں تین ماہ نظربندی کے گزارنے کا اعزاز حاصل ہے۔ مرحوم بہرام خان سیہڑ کے بعد ان کے بھائی سردار جہانگیرسیہڑ ہواؤں کے رخ کو اچھی طرح سمجھتے تھے لہٰذا انہوں نے غیرجماعتی الیکشن اور ضیاء الحق کی حکومت کا ساتھ دیا۔ سردار بہادرخان سیہڑ زمانہ طالبعلمی سے ترقی پسند سوچ سے بھی دو ہاتھ آگے کی سوچ رکھتے تھے لہٰذا پاکستان پیپلزپارٹی ہی ذہنی طور پر ان کی پناہ گاہ تھی جہاں پر وہ ذہنی آسودگی حاصل کرسکتے تھے۔ بات دوسری طرف چلی گئی۔مقصد بلاول بھٹو زرداری کے دس روزہ دورے کے اثرات پر کرنی ہے کہ اس دورے سے بلاول بھٹو نے کیا حاصل کیا۔ جی ہاں میری نظر میں بلاول بھٹو کے اس دورے کی اشد ضرورت تھی کیونکہ ایک تو اس خطے میں پاکستان پیپلزپارٹی تقریباً نیم مردہ حالت میں تھی کیونکہ بے نظیر کی شہادت سے ایک خلا پیدا ہوگیا تھا اور پرانے کارکن وجیالے جماعتی پالیسیوں اور ناروا سلوک سے تنگ آکر گھر بیٹھ گئے تھے۔ کچھ نے دیگر سیاسی جماعتوں میں شمولیت اختیار کرلی تھی پھر تحریک انصاف نے جنم لیا تو ن لیگ کا مخالف ووٹ پی ٹی آئی میں چلاگیا لہٰذا پی پی فارغ ہوگئی۔ جوبااثر سیاستدان تھے انہوں نے جب دیکھا کہ مقتدر حلقے تو ن لیگ اور پی ٹی آئی کو اقتدار دینا چاہتے ہیں لہٰذا وہ ان دونوں جماعتوں میں شامل ہوگئے۔پاکستان پیپلزپارٹی کی قیادت نے بھی سندھ تک اپنے آپ کو محدود کرلیا اس لئے سرائیکی خطہ پی پی کا جوکبھی مرکز ہوتا تھا بدل گیا۔
بلاول بھٹو زرداری نے اس دس روزہ دورے میں بنیادی کام یہ کیا کہ وہ پرانے جیالوں کے گھروں میں گئے۔ مرنے والوں کی فاتحہ خوانی کی جس سے پرانے جیالوں کے حوصلے بلندہوئے اور اپنائیت کا انہیں احساس ہوا۔ یہ ایک اچھا قدم تھا جس کی سخت ضرورت تھی۔ دوسرا کام بلاول بھٹو نے چند ایک قدآور شخصیات کو پارٹی میں شامل کرانے کا کیا مثلاً سابق گورنر سردار ذوالفقار علی خان کھوسہ اور اس کے بیٹے سابق وزیراعلیٰ پنجاب دوست محمد خان کھوسہ کو پی پی میں شامل کیا یہ خاندان لغاریوں کا متبادل ضرور ہے مگر ان کے مقابلے میں مالی اور سیاسی طور پر کمزور ہے اور اس خاندان نے 2018ء کا الیکشن تحریک انصاف میں لڑا تھا اور شکست کھائی تھی۔ اسی طرح وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان خان بزدار کے آبائی شہر تونسہ شریف کی حضرت سلیمان تونسوی کی درگاہ کے سجادہ نشین خواجہ عطا اللہ پی پی میں شامل ہوئے وہ بھی نگران حکومت میں مذہبی امور کے وفاقی وزیر رہے ہیں ان کے خاندان کی ہمیشہ قومی اسمبلی کی ایک نشست ہوتی ہے اور آج کل خواجہ شیراز تحریک انصاف کے ایم این اے ہیں۔ تونسہ کا خواجہ خاندان بھی تقسیم ہے۔ دیکھتے ہیں مستقبل میں خواجہ عطا اللہ قومی اسمبلی کی سیٹ اپنے ہی خاندان کے مقابلے میں نکال سکتے ہیں یا نہیں۔ لیہ‘ تونسہ اور ڈیرہ غازیخان کی تینوں شخصیات اپنے تئیں بااثر اور بھاری بھرکم تو ہیں مگر سیٹیں نکالنا تھوڑا مشکل نظرآرہا ہے۔ ہاں اگر کوئی جماعتی ویو بن گئی تو تینوں کامیاب ہوجائیں گے ورنہ مشکل۔
بلاول بھٹو نے اس دورے کے دوران متعدد وفود سے ملاقاتیں بھی اور مکالمے بھی ہوئے۔ اخبار کے ایڈیٹروں اورکالم نگاروں سے بھی انہوں نے ایک طویل اور خوشگوار ملاقات کی جس میں میں نے بلاول کو اپنی عمر اور تجربے سے زیادہ منجھاہوا پایا۔ بلاول کو ملکی اور بین الاقوامی سیاست پر مکمل دسترس ہے اور اسے تاریخ کا بھی مکمل علم ہے۔ وہ تمام چیزوں کو بھی خوب اچھی طرح سمجھتے ہیں اور ان پر دسترس بھی انہیں حاصل ہے۔ بلاول کا اپنا مستقبل پاکستان کی سیاست میں روشن ہے مگر پی پی کے مستقبل کیلئے انہیں بہت محنت کرنا پڑے گی۔ بلاول کا ٹارگٹ سرائیکی وسیب یا جنوبی پنجاب ہے مگر ان کا ٹارگٹ جہانگیرترین کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتا۔پارٹی پروگرام میں چند نئی تبدیلیاں ضروری ہیں روٹی‘کپڑا‘ مکان والی نسل مرکھپ گئی یا آخری نسل باقی ہے مگر نوجوانوں کو بلاول بھٹوزرداری کو ایک انقلابی اور جدید پروگرام دینا ہوگا تب جاکر بلاول اس خطے میں کامیاب ہوں گے صرف بڑے قدکاٹھ کے سیاستدانوں کے پارٹی میں آنے سے فتح نہیں ملتی۔ اصل بات پاکستان کی 64فیصد نوجوان نسل کے مسائل ہیں ان کی طرف بلاول بھٹوزیادہ توجہ دیں اور سائنسی بنیادوں پر کام کریں۔ ماشاء اللہ خود آکسفورڈ جیسے تعلیمی ادارے سے فارغ التحصیل ہیں وہ اپنی عمر کے نوجوانوں کو بہت کچھ دے سکتے ہیں مگر اس کیلئے ایک نوجوان تھنک ٹینک کی ضرورت ہے اس میں کوئی شک نہیں سید یوسف رضا گیلانی‘ مخدوم احمدمحمود پی پی کاسرمایہ ہیں مگر ان کی اولادوں کو اب بلاول کا ہمسفر ہونا چاہئے۔ اس دورے میں دونوں مخدوموں اور نتاشہ دولتانہ نے دورے کو کامیاب کرانے کیلئے بہت کام کیا مگر ان کے اصل بازو ملتان کے کارکنان اور عہدیدار تھے۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ اب بلاول نے اپنا میڈیا سیل بھی بنالیا ہے جو دورجدید کے تقاضوں کو پورا کررہا ہے اور اس میں بھی نوجوان شامل ہیں۔ میڈیا سیل کی طرح جماعت میں بھی نوجوانوں کی ضرورت ہے بلاول صاحب!
(کالم نگارقومی امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain