تازہ تر ین

2022ء بلدیاتی انتخابات کا سال

کنور محمد دلشاد
وزیرِ اعظم 2023ء کے انتخابات الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ذریعے کروانے کے لیے پُرعزم ہیں اور قانون سازی کے لیے اسی سال پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلانا پڑا تو وہ قانونی اور آئینی حق کو بروائے کار لائیں گے اورقانون سازی کا عمل اسی سال مکمل کیا جائے گا۔الیکشن ایکٹ 2017کی دفعہ 103کے تحت الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے لیے آئین میں ترمیم کی ضرورت نہیں،پارلیمنٹ ایکٹ کے ذریعے اس ابہام کو دور کیا جاسکتا ہے،ممکن ہے کہ حکومت بیک ڈور پالیسی کے تحت پاکستان پیپلزپارٹی کے ارکان سینٹ سے استفادہ کرتے ہوئے سینیٹ سے ہی الیکشن ایکٹ 2017میں بعض اہم انتخابی اصلاحات کا بل منظور کرانے میں کامیاب ہوجائے۔اسی طرح شہباز شریف جو مفاہمت کی پالیسی کا باربار ذکر کررہے ہیں،اس کی آڑ میں سینیٹ کے انتخابی اصلاحات بل کی منظوری میں ان کی نیم رضامندی سے حکومت آسانی سے قانون سازی کراکے الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے اجرا کے لیے الیکشن کمیشن کو قانونی دائرہ کاار تک محدود کردے۔ لیکن زمینی حقائق کے مطابق پارلیمنٹ ایکٹ منظور ہوجائے گا۔ اسی پر عمل درآمد کرانا الیکشن کمین کی قانونی اور آئینی مجبوری ہو گا۔پارلیمنٹ کی کسی سیاسی جماعت کی جانب سے،سپریم کورٹ میں پارلیمنٹ ایکٹ کو چیلنج کر دیا جائے۔میرا تجربہ یہ ہے کہ سپریم کورٹ بھی پارلیمنٹ ایکٹ کی منظوری کے بعد کسی قسم کی آئینی پٹیشن کوشاید قبول نہ کرے اور پارلیمنٹ مجموعی طور پر بالادستی کا دعویٰ کرتی ہے۔ لہٰذا حکومت 2023کے انتخابات الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ذریعے ہی انتخابات کا انعقاد کردے گی،جبکہ اس سسٹم میں نقائص پر پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا میں چھ ماہ سے بحث چل رہی ہے اور صدرِمملکت بھی اسی بارے میں حکومت پاکستان کے ہم نوا ہیں اور کئی اجلاس کی صدارت بھی کرچکے ہیں۔
حکومت شہباز شریف کے کراچی کے دورہ کے دوران ان کی پریس کانفرنس سے مطمئن ہے۔دراصل شہبازشریف کے دورہ کراچی کے دوران بزنس کمیونٹی نے بھی باورکرایا ہے کہ حکومت مضبوط معاشی پالیسی کی شاہراہ پر کھڑی ہے اور پاکستان کے تمام صنعت کار،سرمایہ کار،سٹاک ایکسچینج،اتھارٹی کے اہم صنعت کار حکومت کے ساتھ کھڑے ہیں،لہٰذا مفاہمت کی پالیسی اپنا کر آئندہ انتخابات کی تیاری کریں۔ہماری اطلاع کے مطابق شہباز شریف کراچی کے بااثر بزنس گھرانوں کے دباؤ میں آچکے ہیں اور انھوں نے کراچی میں جو پریس کانفرنس کی ہے اس کے بعد نواز شریف کی پاکستان مسلم لیگ ن میں حیثیت مغل دربار میں بہادر شاہ ظفر کے جیسے رہ جاتی ہے کہ جن کی حکومت محض دربار تک ہی محدود تھی۔وجہ یہ ہے کہ نواز شریف سپریم کورٹ کی جانب سے نااہل قرار پاچکے ہیں،وہ الیکشن نہیں لڑسکتے،اب جب معاملات کو شہباز شریف مکمل کنٹرول کرلیں تو نوازشریف کے پاس فیصلہ سازی بھی نہیں رہے گی۔زمینی حقائق یہ ہیں کہ پاکستان کی سیاست میں تلاطم فی الحال نہیں ہے اور نوازشریف لندن کے رہائشی علاقے تک مقید ہو کر رہ گئے ہیں،ان کے صاحبزادگان،بین الاقوامی طورپر رئیل اسٹیٹ کا بزنس کررہے ہیں اور اسحاق ڈار کی سینٹ کی نشست صدارتی آرڈی نینس کی نذرہوجائے گی،شہباز شریف کے اردگرد کاروباری مفاد پرست گروہ کا حصار ہے اور حکومت مخالف کس قسم کی تحریک کا جواز نہیں بنتا۔
الیکٹرانک ووٹنگ شفاف انتخابات میں کلیدی کردار اداکرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے اورلیکشن کمیشن کی مجاز اتھارٹی اس اہم ٹاسک پر کام کررہی ہے اور الیکشن کمیشن اپنی تجاویز حکومت کو پیش کریگاکیونکہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کی تعداد کا بھی تعین کرنا ہے،الیکشن کمیشن کو جو بریفنگ دی گئی تھی،اس کے مطابق قومی و صوبائی اسمبلی کے لیے علیحدہ علیحدہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا استعمال ہونا ہے اور ایک لاکھ پولنگ سٹیشنوں پر چار لاکھ پولنگ بوتھ قائم کیے جائیں گے،جس کے مطابق آٹھ لاکھ کے لگ بھگ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کی خریداری ہونی ہے،جس کا تخمینہ ایک اندازے کے مطابق 50ارب روپے کے اخراجات اٹھانے پڑیں گے۔قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی سائنس و ٹیکنالوجی کے بعض ارکان نے الیکٹرانک ووٹنگ مشین پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اپنے ریمارکس میں کہا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک نے اسے مسترد کردیا ہے۔جن لوگوں کو اپنا نام لکھنا نہیں آتا وہ مشین کیسے استعمال کریں گے اور الیکٹرانک وٹنگ مشین کو اپنے خصوصی پروگرام سے رزلٹ تبدیل نہ ہونے کی گارنٹی نادرا اور سائنس و ٹیکنالوجی منسٹری سے حاصل کرنا ہوگی۔الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ایک ماہر کی رائے کے مطابق آپریٹنگ سسٹم نہیں، انفارمیشن ٹیکنالوجی کے کم سے کم چار ماہرین ہر پولنگ اسٹیشن پر موجود ہوں گے، اسی طرح الیکشن عملہ کی تعداد میں چار لاکھ اضافی افراد کا تقرر کرنا ہوگا،اتنی بڑی تعداد کو ٹریننگ دلانا اور الیکٹرانک ووٹنگ مشین کو آپریٹ کرانا،الیکشن کمیشن کی استعدادسے بالاتر ہے کیونکہ الیکشن رولز کے مطابق ایک لاکھ پولنگ سٹیشن کا قیام پر تیرہ لاکھ عملہ درکار ہوتا ہے اور الیکٹرانک ماہرین کی تعداد کو شامل کیا جائے تو یہ تعداد سترہ لاکھ تک پہنچنے کا احتمال ہے لہٰذا سیاسی جماعتوں کو تمام امور پر سیر حاصل مہارت حاصل کرنا ہوگی اور مشینوں کی خریداری کے لیے انٹرنیشنل سٹینڈرڈدیا جائے گا جس کی شفافیت پر بھی سوالات اٹھائے جائیں گے اور قومی احتساب بیورو نے بھی پس پردہ اسی انٹرنیشنل سٹینڈر کے معیار پر نظر رکھنا ہوگی۔الیکشن کمیشن ممکن ہے کہ اس آلودگی سے باہر رہے اور حکومت ہی ایسے سودے کرتی رہے جبکہ بھارت میں الیکشن کمیشن کے ماہرین کی موجودگی میں یہ مشین تیار کی جاتی ہے۔ایک اہم و عجیب بات یہ سامنے آتی ہے کہ پچاس ارب روپے سے زائد اخراجات ادا کرکے جو مشین تیار کی جاری ہے کیا وہ ایک الیکشن تک ہی استعمال میں رہے گی یا پھر تین یا چار انتخابات بھی اسی مشینوں سے کروائے جائیں گے۔منسٹری سائنس و ٹیکنالوجی کے ماہرین اس سوال کا جواب تحریری صورت میں الیکشن کمیشن کو فراہم کرنا چاہیے،چونکہ حکومت اٹھارہ اگست کو برخاست ہو کر نگران سیٹ اپ کے حوالہ کردی جائے گی،کیا نگران حکومت الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ذریعے شفافیت لانے میں کامیاب ہوجائے گی،لہٰذا موجودہ حکومت کو بھی دیکھناہوگا کہ اگر پارلیمنٹ ایکٹ 2017کے ذریعے الیکٹرانک ووٹنگ مشین زیرِ استعمال لائی جائے گی تو نگران حکومت آرڈی نینس کے ذریعے اس ایکٹ کو موخر یا مسترد بھی کرسکتی ہے،لہٰذا اسی سسٹم کو مضبوط بنیادوں پر کھڑا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ آئین کے آرٹیکل 226اور 218میں مناسب ترامیم کی جائے تاکہ اسی سسٹم کو آئینی تحفظ حاصل ہوجائے۔
2022اصولی طورپر بلدیاتی انتخابات کا سال ہی قراردیا جائے گا کیونکہ قوی امکان ہے کہ مارچ 2022میں پنجاب کے بعد بلوچستان اور خیبرپختونخوا اور سندھ میں بلدیاتی انتخابات ہونے ہیں اور یہ سلسلہ جون 2022تک پھیلتا ہوا محسوس ہوتا ہے اور اسی عرصے میں ترقیاتی کام رک جائیں گے اور معاشی طورپر جو حکومت آگے جارہی ہے وہ اس سسٹم کے تحت مفلوج ہو کر رہ جائے گا۔مئی جون 2022میں بجٹ اجلاس ہونے ہیں اور اگست تک پاکستان میں ترقیاتی کام رک جائیں گے،اسی دوران جبکہ الیکشن کمیشن بلدیاتی اداروں کے انتخابات میں مصروف ہوگا تو الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے بارے میں حساس نوعیت کے فیصلے کیسے ممکن ہوں گے؟اور اس طرح حکومت کے پاس جون 2023تک کا وقت رہ جائے گا اور نگران حکومت کے قیام کے لیے سیاسی طورپر جوڑ توڑ شروع ہوجائے گی۔
ان معروضی حالات میں الیکشن دوہزار تئیس میں الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے ذریعے کروانے کا منصوبہ مکمل ہوتے ہوئے نظر نہیں آرہا۔الیکشن کمیشن نے دسمبر 2022تک حلقہ بندیاں ہی مکمل کرنی ہیں اور مردم شماری بھی اسی دوران ہونے والی ہے،جس پر صوبہ سندھ میں مردم شماری کے خلاف طبل جنگ بج جائے گا لہٰذا حکومت کو چاہیے کہ وزیراعظم عمران خان کو درست حالات سے باخبر رکھیں،وزیرِ اعظم کو الیکشن کے ماہرین کی ٹیم سے مکمل بریفنگ لینی چاہیے اور یہی طریقہ وزیرِ اعظم بھٹو نے اپنا یاتھا،اس کے باوجود وہ شفاف انتخابات کرانے میں ناکام ہوگئے اور قوم کو 5جولائی 1977کا سانحہ دیکھنا پڑاتھا۔
(الیکشن کمیشن آف پاکستان کے سابق سیکرٹری ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain