تازہ تر ین

انسانوں کو وقت سے پہلے قبروں میں اتارنے والا نظام

جاوید ملک
WHO کی 2019ء کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا میں خودکشی سے مرنے والوں کی تعداد ملیریا، ایڈز، چھاتی کے کینسر یا جنگ وغیرہ سے ہونے والی اموات سے زیادہ ہے۔ WHO کی رپورٹ کے مطابق ہی سال 2019ء میں سات لاکھ سے زائد لوگوں نے خودکشی کی۔ یعنی ہر 100 میں سے 1 موت کی وجہ خودکشی تھی!
ممتاز تجزیہ نگار اسد رائے کی ایک ریسرچ کے مطابق خودکشیوں کے حوالے سے سرِ فہرست ممالک میں جنوبی کوریا پانچویں نمبر پر ہے۔ جنوبی کوریا میں خودکشی کرنے والوں میں زیادہ تعداد بوڑھے افراد کی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ بڑھاپے میں کسی سہارے کی عدم موجودگی ہے۔ اس کے علاوہ جنوبی کوریا میں طالب علموں میں بھی خودکشی کی شرح اوسط سے زیادہ ہے۔ چین میں اموات کی پانچویں بڑی وجہ خودکشی ہے۔ دنیا کے برعکس چین میں خودکشی کرنے والوں میں زیادہ تعداد عورتوں کی ہے۔ امریکہ میں خودکشیوں کی شرح 16.1 فیصد ہے۔ پچھلے دو سالوں میں خودکشیوں کی شرح میں سب سے زیادہ اضافہ امریکہ میں ریکارڈ کیا گیا ہے۔ پوری دنیا میں خودکشیوں کی شرح 9.49 فیصد ہے۔ یعنی ایک لاکھ اموات میں 9.49 کی وجہ خودکشی ہوتی ہے۔
یہ اعداد و شمار بھی دراصل نا کافی ہیں۔ پوری دنیا میں رپورٹ ہونے والی خودکشیوں کی تعداد حقیقی تعداد سے بہت کم ہے۔ گزشتہ دو سالوں میں ذہنی امراض اور خودکشیوں میں اضافہ ہوا ہے۔ ایک تو سرمایہ داری تاریخ کے بدترین بحران سے گزر رہی ہے۔ ہر طرف بے روزگاری کی لہر نظر آتی ہے۔ صرف امریکہ میں وبا کے دوران 4 کروڑ لوگ بے روزگار ہوئے ہیں۔ پچھلے عرصے میں تعلیم اور علاج جیسی سہولیات لوگوں کی پہنچ سے دور ہوئی ہیں۔حالیہ وباء میں ہونے والی اموات بھی کسی صدمے سے کم نہیں تھیں۔ لاک ڈاؤن کا عرصہ بھی عوام کی اکثریت کے لیے کسی عذاب سے کم نہیں تھا۔ معاشی بد حالی اور اس پر سماجی دوری سے ذہنی دباؤ بڑھا ہے۔ اس عرصے میں گھریلو تشدد کے واقعات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
مٹھی بھر زر والوں کو چھوڑ کر باقی عوام مختلف قسم کی پریشانیوں میں گھرے ہیں۔ کئی ممالک ایسے ہیں جہاں لوگوں کو پینے کا صاف پانی بھی میسر نہیں ہے۔ جہاں بچوں کی اکثریت غذائی قلت کا شکار ہے۔ دنیا میں انسانوں کی اکثریت کو جسم و ذہن تھکا دینے والی محنت کے بدلے میں بنیادی سہولیات بھی نہیں ملتیں۔ لوگ اپنی زندگی بھر کی محنت کو اپنی آنکھوں کے سامنے رائیگاں جاتے دیکھتے ہیں۔ ایک نسل اگلی نسل کے لیے ورثے میں پریشانیاں اور تکلیفیں چھوڑ کر جاتی ہے۔ ایسی دنیا جس میں انسان چاند پہ قدم رکھ چکا ہے، اس میں لوگ ایک شہر سے دوسرے شہر میں جاتے ہوئے پہلے پیسوں کا سوچتے ہیں۔ وہ دنیا جس میں ہارٹ ٹرانسپلانٹ کی تکنیک ایجاد ہو چکی ہے، اس میں لوگ چھوٹی موٹی بیماریوں سے دم توڑ جاتے ہیں۔ اس جدید دنیا میں ایک وائرس کتنے لوگوں کی جانیں نگل گیا۔ ہزاروں ٹن گندم ہر سال دریاؤں میں بہا دی جاتی ہے۔ بڑے بڑے ریستورانوں میں روز اتنا کھانا ضائع کیا جاتا ہے جس سے نہ جانے کتنے بھوکوں کا پیٹ بھرا جا سکتا ہے۔ لاکھوں بے گھر لوگ کھلے آسمان کے نیچے سوتے ہیں اور آسمان کو چھوتی ہوئی عمارتوں کو تکتے رہتے ہیں۔ اس دنیا میں لوگوں کا پریشان ہونا، ذہنی دباؤ کا شکار ہونا یا اپنی زندگی سے تنگ آ جانا کوئی حیران کن بات نہیں ہے۔
اسی طرح کی ایک رپورٹ کے مطابق 15 سے 29 سال کے افراد میں اموات کی دوسری بڑی وجہ خودکشی ہے۔ اس پہ بات کرنے سے پہلے ہم ذہنی امراض کے حوالے سے بات کر لیتے ہیں جو زیادہ تر خودکشی کی وجہ بنتی ہیں۔ دنیا میں بسنے والے لوگوں کی بہت بڑی تعداد کم و بیش کسی ذہنی مرض میں مبتلا ہیں۔ ان میں سب سے عام ڈپریشن ہے۔ دنیا میں لگ بھگ 26 کروڑ 40 لاکھ لوگ ڈپریشن کا شکار ہیں۔ ڈپریشن کے شکار افراد میں خواتین کی تعداد زیادہ ہے۔ یاد رہے کہ ہمارے پاس تازہ ترین اعدادو شمار نہیں ہیں
درحقیقت یہ اعداد و شمار بھی حقیقت کی درست عکاسی نہیں کرتے، حقیقت اس سے بھی کئی درجے زیادہ خوفناک ہے۔ ڈپریشن اپنی انتہا پہ جا کے خودکشی کے خیالات کو جنم دیتا ہے۔ ذہنی امراض کی ایک اور بڑی قسم ’بائی پولر ڈس آرڈر‘ ہے۔ دنیا میں 4 کروڑ 50 لاکھ افراد اس مرض کا شکار ہیں۔ ایک اور قسم Schizophrenia (شقاق دماغی) ہے۔ یہ ایک شدید ذہنی مرض ہے اور دنیا میں دو کروڑ افراد اس مرض میں مبتلا ہیں۔ ذہنی امراض کی ایک اور قسم Dementia ہے اور دنیا میں لگ بھگ 5 کروڑ لوگوں کو یہ مرض لاحق ہے۔ Anxienty Disorder کے شکار افراد کی تعداد 28 کروڑ سے زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ 7 کروڑ سے زائد لوگ منشیات (شراب کے علاوہ کیونکہ بہت سارے ممالک میں شراب کا شمار منشیات میں نہیں ہوتا) کے عادی ہیں۔ تیسری دنیا کے ممالک میں 76 فیصد سے 85 فیصد لوگوں کو ذہنی امراض کا علاج میسر نہیں ہے جبکہ”ترقی یافتہ“ ممالک میں یہ شرح 35 فیصد سے 50 فیصد ہے۔ یہ اعداد و شمار بھی حقیقت کا درست اظہار نہیں کرتے کیونکہ بہت سے ممالک میں ذہنی مرض میں مبتلا شخص خاندان کے لیے شرمندگی کا باعث سمجھا جاتا ہے اور بہت سارے لوگ اس بیماری کو چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔
ایک اور اہم پہلو صحت کے شعبے کا ناکارہ پن ہے۔ صرف پاکستان کی بات کریں تو یہاں صحت کا شعبہ مجموعی طور پہ ناقص ہے۔ پاکستان میں ہر 1000 میں سے 66 بچے ایک سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے وفات پا جاتے ہیں۔ ہر 1 لاکھ میں سے 170 عورتیں بچے کی پیدائش کے دوران مر جاتی ہیں۔ پاکستان میں جی ڈی پی کا کم ترین حصہ صحت کے شعبے کے لیے مختص کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں 1200 مریضوں کے لیے ایک ڈاکٹر موجود ہے۔ دوسری طرف بے شمار لوگ میڈیکل کی ڈگریاں لیے گھوم رہے ہیں۔ میڈیکل کے طلبہ میں خودکشیوں کا رجحان بھی زیادہ پایا جاتا ہے۔والدین کو چاہیے کہ وہ خود بھی ہر ماہ جائیں اور بچوں کو بھی لے جائیں۔ خاکسار نے سوال پوچھ لیا کہ ایک بڑی تعداد مشکل سے اتنا کماتی ہے کہ دو وقت کی روٹی پوری ہو سکے، ایسے میں گھر کے سب افراد تو دور ایک بھی فرد ماہرینِ نفسیات کی فیس برداشت نہیں کر سکتا۔ کیا ان کے ڈپریشن کا علاج ان کی بنیادی ضروریات پوری کر کے نہیں کیا جا سکتا؟ اس کے بعد پتہ نہیں کیوں وہ لوگ کچھ دیر یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہے کہ انقلاب نہیں آ سکتا۔ ہم بالکل یہ نہیں کہتے کہ امیر لوگ ڈپریشن کا شکار نہیں ہوتے یا خودکشی نہیں کرتے۔ بہت سے ایسے واقعات دیکھنے کو ملتے ہیں۔ بہت سے مشہور فنکاروں نے خودکشی کی ہے۔ لیکن اس کی بنیادیں بھی مجموعی طور پر سماج میں پیوست ہیں۔ خوشی ایک اجتماعی جذبہ ہے۔ یعنی باقی انسانوں کو نکال لیا جائے تو ایک انسان کی خوشی کیا ہے؟ ایک ایسی دنیا جس میں انسانوں کی اکثریت دکھ، تکلیف اور اذیت میں مبتلا ہے، اس میں کوئی بھی دردِ دل رکھنے والا انسان کیسے خوش رہ سکتا ہے؟
(کالم نگار سیاسی و سماجی ایشوز پر لکھتے ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain