تازہ تر ین

سانحہ کار ساز۔تفتیشی افسر کے انکشافات

آغا خالد
کارساز پر بے نظیر بھٹو شہید کے جلوس میں دو بم دھماکوں کے ملزمان کا ہنوز کوئی سراغ نہیں لگایا جاسکا جبکہ کارساز پر یکے بعد دیگرے دو بم دھماکوں میں شہید ہونے والوں کی تعداد180 سے زائد تھی اور حکومت پاکستان کی دعوت پر اقوام متحدہ کی جانب سے پاکستان آنے والی تفتیشی ٹیم کی رپورٹ میں کراچی پولیس کی تحقیقاتی رپورٹ کو سراہا گیا تھا اور اپنی رپورٹ میں یو این کمیشن نے کہا تھا کہ پنڈی میں محترمہ پر قاتلانہ حملے کی تفتیشی رپورٹ میں بہت زیادہ سقم پائے گئے جبکہ کراچی میں ایسا نہیں ہوا اور ذمہ دارانہ تفتیش کی گئی۔محترمہ کی شہادت کے حوالے سے پنڈی کیس کے فیصلے میں ایک اعلیٰ پولیس افسر کو عبرت ناک سزا سنائی گئی تھی اور اس کے بڑے ملزم پرویز مشرف کو مفرور قرار دیدیا گیاتھاجبکہ اس سلسلہ میں کراچی میں محترمہ پر قاتلانہ حملے کے اہم تفتیشی افسر نیاز کھوسو سے”خبریں“ نے تفصیلی بات چیت کی جوحال ہی میں پولیس سے ریٹائرڈ ہوچکے ہیں مگر نیاز کھوسو کی اس کیس کے حوالے سے انفرادیت یہ ہے کہ محترمہ پرایک ہی وقت میں ہونے والے دو خودکش دھماکوں کی تفتیش کیلئے بنائی جانے والی چار مختلف ٹیموں میں وہ شامل رہے اور آخر میں وہ اکیلے ہی اس کیس کی تفتیش کرتے رہے۔ محترمہ پر کارساز میں حملے کے فوراً بعد اس وقت کے ڈی آئی جی سعود مرزا کی سربراہی میں تحقیقاتی ٹیم بنائی گئی تھی جس میں نیاز کھوسو بھی شامل تھے بعد ازاں شبیر شیخ اور ان کے بعداس وقت کے ڈی آئی جی (اور اب ڈی جی ایف آئی اے)ثناء اللہ عباسی کی تفتیشی ٹیم میں بھی وہ شامل رہے۔ نیاز کھوسو کا کہنا ہے کہ محترمہ بے نظیر پنڈ ی میں قاتلانہ حملے کے گرفتار ہونے والے ملزمان سے تفصیلی تفتیش کی گئی تھی جنہوں نے اس امر کا اعتراف کیا تھا کہ انہیں اتنا معلوم ہے کہ اس وقت کے طالبان سربراہ بیت اللہ محسود نے محترمہ پر قاتلانہ حملے کیلئے دو ٹیمیں تشکیل دی تھیں جن میں سے ایک میں وہ بھی شامل تھے جبکہ دوسری ٹیم کے متعلق وہ زیادہ نہیں جانتے دونوں ٹیموں کو کراچی میں حملے کے لئے ہدایات جاری کی گئی تھیں۔ملزمان نے تفتیشی ٹیم کو یہ بھی بتایا تھا کہ کراچی میں محترمہ کو شہید کرنے کیلئے جو منصوبہ بندی کی گئی تھی اس کے مطابق پہلے خودکش دھماکے کے بعدمحترمہ بم پروف ٹرک کی وجہ سے بچنے سے ا گرکامیاب ہوجائیں تو انہیں دوسری گاڑی میں سوار کراتے وقت دوسرے خودکش بمبار کوکام دکھانے کابھی حکم تھاتاکہ محترمہ کے بچنے کی کوئی امیدباقی نہ رہے مگر دوسرا خودکش بمبار پہلے دھماکے کے بعد ہر طرف لاشیں دیکھ کر شاید گھبرا گیا اور اس نے محترمہ کے ٹرک سے نکلنے سے پہلے دوسرا دھماکہ بھی کردیا اور اس طرح محترمہ محفوظ رہیں۔کھوسو کا کہنا ہے کہ موقع واردات پر ملنے والے اعضا کا ڈی این اے کرایا گیا سب کے اعضا مل گئے تھے ما سوائے دو انسانی سروں کے جن کا ڈی این اے اور چہرے کی میچنگ نادرا سے کرائی گئی مگر نادرا کو کامیابی نہ ملی۔ اس سے تفتیشی ٹیم نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ مذکورہ دونوں سر خودکش بمباروں کے ہیں اور ان کا تعلق یا تو پاکستان سے نہیں یا علاقہ غیر کے ایسے ملزمان کے گروہ سے ہے جنہوں نے شناختی کارڈ نہیں بنوائے اس لئے نادرا میں ان کا ریکارڈ نہیں تاہم انہوں نے کہا کہ وقتاًفوقتاً ان کا ڈی این اے دیگر ملزمان سے کرایا جانا ضروری تھا مگر اس سلسلے میں ہمیں سندھ حکومت سے زیادہ تعاون نہیں ملا۔ انہوں نے”خبریں“ سے خصوصی بات چیت میں یہ انکشاف بھی کیا کہ ہم نے تفتیش میں مدد کیلئے اس وقت ایوان صدر(جہاں آصف زرداری منصب صدارت پرفائزتھے) اور بلاول ہاؤس کو متعدد خطوط لکھے مگر کسی ایک کا بھی جواب نہیں دیا گیا۔ہم نے ان خطوط میں ان دونوں سے بار بار استدعا کی کہ وہ ہمیں محترمہ بے نظیر کا پرویز مشرف کو لکھا گیا وہ خط یا اس کی کاپی فراہم کریں جس میں محترمہ نے اپنی جان کے دشمن تین لوگوں کی نشاندہی کی تھی اور الزام لگایا تھاکہ مجھے کچھ ہونے کی صورت میں انہیں ذمہ دار سمجھا جائے۔واضح رہے کہ محترمہ نے کارساز بم دھماکے کے فوراً بعد 17اکتوبر2007 کو پولیس کی جانب سے حملے کی درج کی گئی ایف آئی آر کو مسترد کرتے ہوئے صدر پرویز مشرف کو خط لکھا تھا کہ تین لوگ ان کی جان کے درپے ہیں اور اگر مجھے کچھ ہوجائے تو انہیں قاتل نامزد کیا جائے جبکہ کارسازبم دھماکے کا ذمہ دار بھی انہیں ہی ٹھہرایا گیا تھا۔ نیاز کھوسو کا کہنا ہے کہ محترمہ نے اس وقت کے صدر کو خط لکھا تھا اس لئے ہم بار بار ایوان صدر کا ہی دروازہ کھٹ کھٹاتے رہے کیونکہ اس خط کا ریکارڈ وہیں سے مل سکتا تھا مگر کوئی جواب نہیں ملا مجبوراً ہم نے اخباری ریکارڈ سے مدد حاصل کرکے بلاول ہاؤس کو لکھا کہ اخباری تراشوں کے مطابق جس وقت محترمہ نے خط لکھا تو وہ بلاول ہاؤس میں مقیم تھیں ممکن ہے اس خط کی کوئی کاپی محترمہ کے ریکارڈ میں موجود ہوتو انہیں دی جائے تاکہ وہ تفتیش کا سلسلہ آگے بڑھا سکیں کیونکہ محترمہ نے جن لوگوں پراپنے قتل کی ساز ش کا الزام لگایا تھا ان سے تفتیش بہت ضروری ہے اور جرم کا کھرا وہیں سے اٹھنے کا امکان تھامگر ہماری کسی درخواست کو درخورا عتنا نہیں سمجھا گیا ان کا کہنا ہے کہ اس سے زیادہ اور بد قسمتی کیا ہوسکتی ہے کہ محترمہ کے نام پر اقتدار حاصل کرنے اور ان کے نام پر سیاست چمکانے والوں نے تفتیشی ٹیم کے نوٹسز کا جواب تک نہیں دیا۔ انہوں نے ایک اور دل خراش واقعہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ محترمہ کے ساتھ ٹرک پر سوار پیپلزپارٹی کے لیڈروں کو ویڈیو کی مدد سے شناخت کرکے متعدد نوٹسز بھیجے گئے کہ وہ تفتیشی ٹیم کو اپنا بیان ریکارڈ کروائیں۔ دس سے پندرہ لوگوں کو نوٹسز جاری کئے گئے مگر صرف مخدوم امین فہیم مرحوم اورآغا سراج درانی نے نوٹسز کا جواب دیا اور اپنا بیان بھی ریکارڈ کروایا جبکہ رحمان ملک سمیت اورکوئی لیڈر اپنا بیان ریکارڈ کروانے پر تیار نہ ہواان حالات میں ہم مزید تفتیش کیا کرتے البتہ انہوں نے ہنستے ہوئے کہا کہ ہر 17اکتوبر کو انہیں محترمہ کا کیس یاد آجاتا تھا اور حکومتی عملداروں میں سے کوئی نہ کوئی فون کرکے تفتیشی رپورٹ کے متعلق پوچھتا تھا اور جب انہیں ان حالات سے آگاہ کیا جاتا تھا جو میں نے آپ کو بتائے ہیں تو دوسری طرف ٹیلی فون کی لائن بے جان ہوجاتی تھی جبکہ اس سلسلے میں سندھ کے سینئر وزیر سید ناصر حسین شاہ نے کہاکہ نیاز کھوسو کو ساری باتیں اب کیوں یاد آرہی ہیں جبکہ وہ ہماری مخالف جماعت میں شامل ہوچکے ہیں پہلے انہوں نے یہ کیوں نہیں بتایا اور نہ ہی میڈیا پر ایسی کوئی بات سنائی دی۔انہوں نے”خبریں“ کے رابطہ کرنے پرکہا کہ ہم توپہلے ہی مظلوم ہیں اس کیس کی پہلی ایف آئی آر پر بھی ہمیں تحفظات تھے اس لئے محترمہ کی درخواست پر ایک سال کے بعددوسرا مقدمہ درج کیا گیا اور اس میں بھی مطلوب ملزمان کوتفتیشی ٹیم کے حوالے نہیں کیا گیا جبکہ جائے وقوعہ کو بھی دھو دیا گیا تو ہم تو ایسے فریادی تھے جنہیں سننے پر کوئی تیار ہی نہ تھا اور جب تمام ثبو ت و شواہد مٹادیئے گئے تو کیس ہمارے حوالے کیا گیا انہوں نے کہا کہ ہمیں پنڈی والے فیصلے پر بھی تحفظات ہیں یہ حیرت کی بات ہے کہ ایسے ملزمان کو عدالت نے چھوڑدیا جو خود اعتراف جرم کرچکے ہیں اور متعدد گواہوں نے انہیں پہچانا اور ان کے خلاف گواہی دی ہم اس کیس کے خلاف بھی اپیل میں گئے ہیں۔
(کالم نگارقومی وسماجی امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain