تازہ تر ین

سندھ میں گندم کا بحرا

آغا خالد
محکمہ خوراک سندھ کو2ارب 64 کروڑ کا پہلے ہی نقصان ہوچکاتھاکہ محکمہ کی کالی بھیڑوں کا نیا اسکینڈل منظرعام پرآگیاہے جس کے مطابق 9 ارب کی گندم خوردبرد کی گئی ہے۔ تفصیلات کے مطابق فروری 2021 میں جب ریکارڈ کی چھان بین کی گئی تومعلوم ہواکہ سابقہ سیزن کی رپورٹ کے مطابق 12 لاکھ 36 ہزار ٹن گندم خریدی گئی تھی مگرریکارڈکے مطابق گندم کے ذخائر گوداموں میں کم تھے اور مارچ کے مہینے میں فلور ملزاور آٹاچکیوں کو گندم کی فراہمی یقینی بنانی ضروری تھی مگر گوداموں میں صرف گیارہ لاکھ 61 ہزار ٹن گندم موجود تھی۔ ریکارڈکے مطابق اکتوبر،نومبر،دسمبر،جنوری، فروری کے ماہ میں فلور ملز اور آٹاچکیوں کو 75ہزار2سو ٹن گندم فراہم کی گئی اس طرح سات لاکھ 52 ہزار گندم کی بوریاں غائب پائیں گئیں۔
سیکرٹری خوراک سندھ نے ماہ مارچ میں ایک سمری وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کوارسال کی کہ اس اسکینڈل کی انکوائری کرائی جائے اور لہٰذا 16 جولائی2021 کو وزیر اعلی سندھ نے انکوائری کمیٹی بنادی،مگر آج تک اس انکوائری کمیٹی کا کوئی اجلاس منعقد نہیں ہوا، اسکینڈل کو دبانے کی بھرپور کوششیں جاری ہیں۔ ادھرایک اور نیا اسکینڈل سامنے آگیاہے ہر سال ماہ اپریل میں محکمہ خوراک کسانوں سے گندم کی خریداری شروع کرتا ہے جس کے لیے وہ بینک سے قرض لیتا ہے۔ محکمہ خوراک سندھ کے سیکرٹری کو بتایا گیا کہ 82ارب روپے کا پہلے ہی محکمہ خوراک سندھ مقروض ہسپتال2021 کیلئے 14 لاکھ ٹن گندم خریداری کیلئے 70ارب روپے درکار ہوں گے جب کہ بینک سے محکمہ خوراک سندھ کی کریڈٹ کی حد صرف 130 ارب روپے ہے لہٰذا وفاقی حکومت کو خط لکھ کر کہا گیا کہ محکمہ خوراک سندھ کی گندم خریداری کی حد 152 ارب روپے کی جائے تاکہ اپریل سال 2021 میں کسانوں سے سندھ حکومت باآسانی گندم خرید سکے جس پروفاقی حکومت نے محکمہ خوراک سندھ کی درخواست کو منظور کرتے ہوئے 152ارب روپے کی کریڈٹ کی حد منظور کرلی ہے اس کے باوجودمحکمہ خوراک نے گندم خریداری شروع کی تو خریداری کے دوران کاشتکاروں کو رقم کی منتقلی میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔
سیکرٹری خوراک کی جانب سے انکوائری کرائی گئی تو پتہ چلا کہ محکمہ خوراک سندھ پہلے 82 ارب روپے کامقروض نہیں بلکہ اس پر 91 ارب روپے کا قرضہ ہے اب سوال یہ ہے کہ 9 ارب روپے کہاں گئے کس نے 9 ارب روپے کی خردبردکی جس کی انکواری ہونا باقی ہے۔
دوسری طرف ملک بھرمیں ایف آئی اے میں نکلنے والی 1143 آسامیوں کیلئے12 لاکھ سے زائدنوجوانوں نے رجوع کیاہے اس سے ہمارے ملک میں بیروزگاری کی شدت کااندازہ لگایاجاسکتاہے ان آسامیوں کیلئے ہونیوالا پہلاٹیسٹ ہی متنازعہ ہوگیاہے۔واضح رہے کہ ایف آئی اے میں بھرتیوں کیلئے پہلے ٹیسٹ کے طورپرامیدواروں کے درمیاں دوڑکامقابلہ کروایاگیامگریہ دوڑ ہی متنازعہ بن گئی ہے جس کی وجہ سے کراچی کے نوجوانوں میں غصہ بڑھتاجارہاہے پورے ملک کی طرح بیروزگاری کے عفریت نے زندگی سے رونقیں چھین لی ہیں مگرسب سے زیادہ اس کاشکارکراچی کے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان ہوئے ہیں جن کے ساتھ گذشتہ 40 سالوں سے کوٹہ سسٹم کے نام پرزیادتی کی جارہی ہے اورسرکاری نوکریاں ان کیلئے شجرممنوعہ بنادی گئی ہیں۔ ایسے میں ایف آئی میں 1 سے 15 گریڈ کی آسامیوں کیلئے متعدد اعلانات کے بعد بالآخر 26 جولائی سے بھرتیوں کے ٹیسٹ کاآغازکیاگیامگرپہلے دن ہی یہ ٹیسٹ پھرمنسوخ کردئے گئے اورپھریہ ٹیسٹ متعدد تواریخ کی تبدیلیوں کے بعداگست کے آخری ہفتہ میں شروع ہوئے اورپہلے سے اعلان کردہ طریقہ کارکوتبدیل کرتے ہوئے پہلے امیدواروں کودوڑاکران کاٹیسٹ لینے کافیصلہ کیاگیامگرہواکیا؟
مایوس نوجوان امیدواروں کے بقول 40 سے50 نوجوانوں کودوڑکے میدان میں چھوڑدیاگیاٹارگٹ پرکون پہلے پہنچاکون آخرمیں یہ دیکھے بغیردوڑ ختم کرنیوالے نوجوانوں میں سے مخصوص کوگروپ سے علیٰحدہ کرکے نام لکھ لئے گئے یاپہلے سے ان کے پاس ناموں کی فہرست پرآوازیں دیکربلایاگیااورانہیں پاس کردیاگیااس طرح برسوں سے بیروزگاری کی عفریت میں پھنسے نوجوانوں میں مایوسی پھیل گئی ہے جوملک کے موجودہ حالات میں خطرناک ہوسکتی ہے کیونکہ کوئی بھی ملک دشمن قوت ان نوجوانوں کواستعمال کرسکتی ہے کہاجاتاہے کہ 12 سوکے قریب آسامیوں پرمنتخب کردہ امیدواروں کی تعداد لاکھوں میں ہونے سے ارباب اختیاربوکھلاگئے ہیں اورانہوں نے پہلے مرحلہ میں بڑے پیمانے پرچھانٹی کیلئے یہ مذموم طریقہ اختیارکیاہے جبکہ کراچی کے اکثرنوجوانوں کاکہناہے کہ انہوں نے پی ٹی آئی کواس لئے ووٹ دیاتھاکہ وہ کم از کم ایسے معاملات میں میرٹ کومعیاربنائیں گے مگرہوااس کے برعکس۔ اس طرح کی شکایات سکھراورحیدرآباد سے بھی مل رہی ہیں سکھرکے ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ انجینئر حمزہ رول نمبر 1143 نے کہاکہ وہ دوڑ اورباڈی ٹیسٹ میں پہلے نمبر پرآئے مگرشام کوادارے کے جاری کردہ نتائج میں انہیں فیل دکھایاگیااورمتعددبارشکایات کے باوجود انہیں پاس نہیں کیاگیا۔
کراچی سے سفیان رول نمبر4253 نے بھی ایسی ہی شکایت کی ہے جبکہ سندھ بھرسے عموماً اورکراچی سے خصوصاً ایسی بیسیوں شکایات ملی ہیں جو سندھ حکومت کے لئے لمحہ فکریہ ہونی چاہئیں اوروزیراعلیٰ سندھ کو ان شکایات کے ازالے کی عملی تدابیر کرنی چاہئیں کیونکہ کسی قوم کے نوجوان طبقے میں بددلی اور مایوسیوں کاپھیلنا کسی طورپر لائق تحسین قرار نہیں دیاجاسکتا۔کیونکہ سماجی‘ معاشی اورمعاشرتی ناہمواریاں مستقبل کے بہتر امکانات کومعدوم کیے بغیر نہیں رہتیں اس سے جس قدر بچاجائے اسی قدر اچھا ہوگا۔ جیساکہ سطور بالا میں سندھ میں گندم کے بحران اور محکمہ خوراک کے حوالے سے جو باتیں سننے میں آرہی ہیں اس حوالے سے بھی تحقیقات کا دائرہ وسیع کرکے بحران کے ذمہ داران کو قرارواقعی سزا دی جائے تاکہ آئندہ ایسے واقعات کااعادہ نہ ہونے پائے۔
(کالم نگارقومی وسماجی امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain